تقریباََ بھاگتے قدموں سے آفس سے باہر نکلتے ہی طاہرہ نے آسمان کی جانب نظر دوڑائی۔گہرے بادلوں سے ڈھکاہوا آسمان اورکراچی جیسے وسیع و عریض شہر کی فلک بوس عمارتیںجو اس شہر کے لوگوں کو ان کے قد سے بھی چھوٹا بنائے دے رہی تھیں۔سڑکوں پر پھرتے چھوٹے چھوٹے قدوں کے یاجوج ماجوج۔۔جو سارادن شہرکے سکون کو چاٹتے اور ہر رات کے بعد پہلے سے بھی زیادہ ترو تازہ ہوجاتے۔اس کا جی چاہا سمندر کی ایک بڑی سی لہر آئے اور اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے جائے۔گال پر پڑنے والی بارش ایک چھوٹی سی بوند اسے اپنے دل پر تیزاب کی ماند محسوس ہوئی۔اس سے پہلے کہ وہ اور موسم دونوں اپنا سکوت توڑ دیتے اس نے رکشے کو ہاتھ دیا اور قریب آنے پر نہایت عجلت میں اس میں جا بیٹھی۔آج گھر کا راستہ اسے ہمیشہ سے زیادہ طویل لگا۔کئی بار اسے محسوس ہو ا کہ آنسوﺅں کا ایک گولہ اس کے حلق میں پھنسا جا رہا ہے خودپر شدید ضبط کے باوجود بھی وہ خود کو رونے سے باز نہ رکھ سکی۔ خدائے لم یزل کی دنیا میں انسان کیسی بے بس شے ہے۔گرم گرم سیال اس کے گالوں پہ بہنے لگا اوروہ رکشے میں ہی اپنا منہ چادر میں چھپائے اپنے اندر کی گھٹن کو آہستہ آہستہ باہر نکالنے لگی۔
رکشے سے باہر نکلتے ہی اس کے قدم ایک کہنہ طرز کے مختصر سے مکان کی جانب اُٹھے ۔بڑی ہمت سے اس نے خود پر ضبط کیا اور آہستگی سے اس مختصر سے گھر کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔ ماں جی اپنی نماز میں بڑے خشوع خضوع سے مشغول تھیں ۔وہ بلی کی مانند پنجوں پر چلتی سیدھی اپنے کمرے میں آگئی۔کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے اس نے آہستگی سے اس پر چٹخنی چڑھا دی۔ کاندھے پر ٹکے ہنڈبیگ کو اس نے بستر پہ زور سے پٹخا اور چادر کو سر سے یوں اتار کر پھینکا کہ جیسے خود سے چپکنے والی ہر نگاہ ابھی تک اس چادر پہ ہی ٹنگی ہوئی ہو۔اس کا جی چاہا کہ اپنے منہ سے عورت ہونے کا نقاب بھی نوچ ڈالے۔ ایسا سلگتا ہو ا نقاب جس کی تمازت سے اس کی روح پچھلے تیس برسوں سے برہنہ پا احساس کی نوکیلی کرچیوں پر آہستہ آہستہ پگھل رہی تھی۔تقدیر نے اسے وقت کے جس بے رحم دروازے پہ لا کھڑا کیا تھا وہ بے کلی اور جمود کا وہ درمیانی دوراہا تھا جہاں سے منزلیں ریت کی ماند ہوا میں تحلیل ہو ئی جاتی تھیں ۔زندگی تو بس اک آہوئے زخم خوردہ کی ماند حالات کے بنجرجنگل میںسر پٹ دوڑنے کا نام رہ گئی تھی۔
اسے تقدیر کے وہ زخم بھولتے ہی کب تھے۔خاص کر جب اس نے پہلی بار سہاگ کا سرخ جوڑا پہنا تھا۔وہ جانتی تھی کہ اس سرخ جوڑے کی قیمت ابّا جی نے کتنے مہنگے داموں ادا کی تھی۔بیٹیوں کی خوشیاں خریدنا کونسا آسان کام ہے۔کیسی دن رات مشقّت کی تھی تب بھی پورا نہ پڑا۔وہ تو بھلا ہو اس منشی رب نواز کا جس نے انھیں بنک سے چارلاکھ کا قرضہ لے کر دیا تب کہیں جا کرجہیز اور کھانے کا خرچہ پورا ہوا تھا۔آخر انھوں نے بھی تواپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا تھا ۔۔وہ کوئی ایسی گئی گزری شکل کی مالک بھی نہ تھی اچھی خاصی خوش شکل تھی پرغریب کے گھر کون رشتہ لے کر جاتا ہے۔اسے پتہ تھاماں جی نے کتنے رشتے والیوں کی منتیں سماجتیں کی تھیں تب کہیں جا کر ایسا عمدہ رشتہ ملا تھا انھیں۔اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ تھے۔انھیں بھی لگا تھا کہ جیسے اب کے اسے رخصت کر کے وہ بھی سکھی ہو جائیں گی۔رخصتی کے وقت وہ ابا جی سے مل کر کیسے پھوٹ کر روئی تھی کہ اب جیسے اس گھر میں دوبارہ نہیں آئے گی۔پر واہ رے نصیب۔۔شادی کے دو ماہ بعد ہی سسرال والوں کی ایسی ایسی فرمائشیں شروع ہوئیں کہ شریف حسین چاہ کے بھی پورا نہ کر پائے۔یوں تیسرے ہی ماہ وہ طلاق کے کاغذوں میں دفن کر کے گھر پہنچائی گئی۔کیسے کیسے طعنوں کے نشتر تھے جو اس کی ساس نے اپنی زبان سے اسکے ماں باپ کے دلوں میں پیوست کئے تھے۔
”آئے ہائے ۔۔کوئی پوچھے بھلا موٹر سائیکل بھی کوئی ایسی چیز تھی جومیرے بیٹے نے مانگ لی تھی۔ماں باپ تو بیٹیوں کے لئے جانے کیا کیا کچھ کر جاتے ہیں۔۔ارے ہم سے تو بڑی بھول ہوگئی جو اپنا قیمتی بیٹا ان ٹٹ پونجیوں میں بیاہ ڈالا۔۔آخر کوئی نام ہے ہمارا۔۔کوئی عزت ہے۔۔سنبھالو اپنی بیٹی کواب کے اپنے جیسے غریبوں میں ہی بیاہنا اسے۔۔“اس عورت کی زبان سے اُگلتا زہر ان کی روحوں کو جھلسانے لگا۔
پر اماں جی ایک بار بھی نہ بولیں۔وہ آخر کیوں نہ بولیں۔کم از کم اتنا ہی کہہ دیتیں کہ” سعیدہ بیگم تم خود آئی تھیں ان ٹٹ پونجیوں میں رشتہ لے کر۔۔سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے تب تمھارا نام اور تمھاری عزّت کہاں تھی۔۔“اس نے کتنی ہی بار یہ بات دل میں سوچی تھی کہ کاش اماں جی ایک بار تو یہ کہہ دیتیںاور کچھ نہیں تو غصے سے صرف اتنا ہی بول دیتیںکہ ”جاﺅ بی بی جاﺅ۔۔تم لوگ بھی اس قابل نہیں کہ ہماری بیٹی تمھارے ساتھ نباہ کرے۔۔“آخر اس کی بھی کوئی عزت تھی کہ نہیں۔پر وہ کیوں بولتیں۔ان کے لئے تو ان کی نماز روزہ اور تسبیحات زندگی کی اوّلین ترجیحات تھیں۔ان کی زندگی تو صبر و قناعت سے شروع ہو کر اطاعتِ مشیتِ ایزدی پہ ختم ہو جاتی تھی۔ان کے لئے تو ہر کارِ جہاں مصلحتِ خداوندی کا روپ ہوتا تھا۔اس دن بھی انھیں اس مشکل وقت میں بھی اپنی بیٹی کی سلگتی ہوئی روح نظر نہیں آئی جب وہ کرب و اذیت کے برزخ میں کہیں معلق ہو کروحشت سے پر پھڑ پھڑا رہی تھی۔
اور ابا جی جنھوں نے ندامت سے اپنا سر اتنا نیچے جھکا لیاکہ ان کی داڑھی ان کے دامن کو چھونے لگی۔اسے لگا کہ جیسے وہ خود سسرال چھوڑ کے ماں باپ کے در پہ آ بیٹھی ہو۔۔انھوں نے تو سعیدہ بیگم کی منتیں بھی کرنے کی کوشش کی پر وہ انھیں راستے سے دھکیلتی ہوئی چلتی بنی۔اس کے بعد ابا جی کو ایک چپ ہی لگ گئی تھی۔انکی تو جیسے کمر ہی ٹوٹ گئی ۔ اکلوتی اور لاڈلی بیٹی کی شادی جس کے لئے انھوں نے خود کو مقروض تک کرڈالا تھا۔ ۔اسے یقین نہ آتا کہ یہ وہی کاندھے ہیں جن کی اونچائیوں پہ بیٹھ کہ اس نے دنیا کو دیکھنا سیکھا تھا۔یہ وہی بازو تھے جن کا جھولا اسے درختوں سے بھی زیادہ مظبوط لگا کرتاتھا۔اور اب یہی کاندھے اور بازو بڑی سرعت سے ایک خمیدہ دیوار کی ماند جھکے چلے جا رہے تھے۔ابا جی تو اس کا مان تھے پر بیچارے ابا جی ۔۔کتنا بوجھ تھا انکے بوڑھے کاندھوں پر،گھر کا بوجھ، قرضے کا بوجھ ،طلاق یافتہ بیٹی کا بوجھ۔۔جو سب پہ حاوی تھا۔پر وہ کیا کر سکتی تھی۔ آخر کو وہ ایک عورت تھی۔۔ایک ایسی غریب بے بس عورت جسکی بھینٹ معاشرے کی ہر رسم پہ چڑھائی جاتی۔جس کی مانگ کو خود اسکے دل کے خون سے بھرا جاتا۔
شدّتِ احساس کے انگاروں سے دہکتے دن رات اس کی زندگی کو صبح شام داغتے رہتے اور وہ بلبلا کہ چیخ اٹھتی۔”اماں اب لوگ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کیوں نہیں کر دیتے۔۔“اور اماں جی جواب میں توبہ توبہ استغفار پڑھ کے رہ جاتیں۔
تبھی اس نے سوچا کہ اب وہ مزید ان کاندھوں پہ اپنا بوجھ نہیں ڈالے گی۔اگر جینا اسی طرح ہے تو اس کے لئے تگ و دوبھی خود ہی کرنی ہوگی۔ اپنی ساری ڈگریوں کو اکھٹا کر کے ابا جی سے اجازت طلب کی جسے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی روک نہ پائے۔کیونکہ بینک سے لئے گئے قرضے کو لوٹانے کا وقت قریب آچکا تھا۔اور پھر ایک سہیلی کی وساطت سے اسے ایک مِل میں نوکری مل ہی گئی۔پر بنتِ حّوا کے لئے یہ کون سا آسان کام ٹھہرا۔۔گھر کی چار دیواری سے باہر نکلتے ہی ہوّس سے لتھڑی ہوئی نگاہیں اس کی چادر پر بچھوﺅں کی ماند پھیل جاتیں جن کے زہریلے ڈنک اسے اپنے جسم پر محسوس ہوتے۔ غریب کے لئے تو خوش شکل ہونا بھی کسی عذاب سے کم نہ تھا۔
جانے ابھی اور کتنے دن اسی طرح سے گزرتے اگر ایک دن ابا جی کو وقار صاحب راستے میں نہ مل جاتے۔ابا جی نے خود اسے وقار صاحب جیسے نیک دل اور شریف النّفس شخص کے بارے میں بتایا تھااور تبھی وہ اس کی ڈگریاں لے کر خود وقار صاحب کے آفس تک گئے تھے۔ابا جی نے جیسا بتایا وقار صاحب تو اس سے بھی کہیں بڑھ کر خدا ترس نکلے۔سفید قلموں اور پر کشش شخصیت کے مالک شفیق وقار صاحب تو اسے کوئی دیوتا صفت انسان لگے جنھوں نے نہ صرف اسے اچھی نوکری دی بلکہ اب تو اس کی تنخواہ بھی پہلے سے کہیں زیادہ اچھی ہو گئی تھی ۔یہی نہیں بلکہ وقار صاحب نے شریف حسین کو چار لاکھ کا چیک دے کر ان پر کتنا بڑا احسا ن کیا تھا۔اسے تو وہ سچ مچ کے دیوتا لگے۔ بڑے عرصے بعد یاجوج ماجوج کی اس بستی میں اسے ایک انسان نظر آیا تھا۔ایک ہوس سے عاری انسان۔ زندگی ایک بار پھراپنی ڈگر پہ آنے لگی تھی۔اب کی بار اس نے سوچا تھا کہ وہ وقت کو مرہم بننے دے گی۔ایسا مرہم جو اس کے ذہن سے ساری تلخ ےادیں کھرچ کھرچ کر باہر نکال دے گا۔
پر ابھی تو دو ماہ بھی نہ گزرے تھے آج جب اسے وقار صاحب نے اپنے پاس بلایا تو ان کی شفیق آنکھوں میں کچھ اور ہی تھا۔۔کچھ بہت ہی جانا پہچانا۔۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہی سیاہ رنگ کے بچھو وقار صاحب کی سرخ آنکھوں سے لپک لپک کر اس کی چادر سے چمٹنے لگے۔انکے زہریلے ڈنک اس کے جسم میں پیوست ہورہے تھے۔۔بہت جی کڑا کے اس نے وہاں سے اٹھنا چاہا۔اور تب ہی وقار صاحب نے اس کا ہاتھ تیزی سے اپنی جانب کھینچا۔
”آپ ہوش میں تو ہیں سر۔۔۔“وہ روہانسی ہو گئی۔
”کیوں کیا ہوا ہے مجھے۔۔۔“ان کے منہ سے اٹھتے ہوئے بدبو کے بھبھوکے اس کے لئے کچھ نئے تو نہ تھے۔یہی بو تو اسے اپنے شوہر سے آیا کرتی تھی۔نفرت کا ایک شدید جذبہ اسے اپنے اندر اُٹھتا ہو محسوس ہوا۔ اس نے غصے سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔اور جانے کے لئے مڑی۔
”ایسے کیسے جانے دوں۔۔پورے چار لاکھ دیئے ہیں ۔۔میں نے شریف حسین کو۔۔تمھاری وجہ سے۔۔“وقار صاحب بھی گھوم کر سامنے آگئے۔آج وہ تہذیب کے ہر دائرے کو تیاگنے کے لئے تیار تھے ۔
” تو وہ پیسے آپ نے ابا جی کو یہ سوچ کر دیئے تھے۔۔لعنت ہے ایسے پیسوں پر۔۔اور آپ پربھی۔۔“اس نے جارحانہ انداز میں حواس سے بے گانہ وقار صاحب کو زور سے پرے دھکیلتے ہوئے کہا۔ جانے کہاں سے آج اس کے اندر اتنی ہمت آگئی کہ اس نے بھاگتے ہوئے دروازہ کھولا اور تیزی سے باہر نکل گئی۔
ندامت اور خفگی سے اس کا چہرہ سرخ ہوا جا رہا تھا۔تبھی تو اس سے رکشے میں بھی صبر نہ ہو سکا۔وہ خوب پھوٹ پھوٹ کر روئی۔جونہی ابا جی گھر داخل ہوئے وہ پھٹ پڑی۔آج اس نے بھی چپ نہ رہنے کی قسم کھا لی تھی۔
”ابا جی کہاں ہے وہ چیک۔۔جو آپ کو آپکے وقار صاحب نے دیا تھا۔میں کہتی ہوں اسے پھاڑ کے ان کے منہ پہ دے ماریں۔۔“ وہ پہلی بار ابا جی کے سامنے زور سے چلائی تھی ۔اس کی حالت اب اس زخمی بلی کی تھی جو جلے پاﺅں سلاخوں والے پنجرے میںخوف سے گھبرا کر کبھی ادھر بھاگتی تو کبھی ادھر۔پر قرار تو کہیں نہیں تھا۔اس کے پیروں تلے زمیں دہک رہی۔جس سے اس کا دماغ لاوے کی طرح کھول رہا تھا۔ کیا اس کی عزت اتنی ہی ارزاں تھی کہ جو چاہے اسے پیروں میں روند ڈالے۔پر اب وہ کسی کے آگے نہیں جھکے گی۔اس نے بھی فیصلہ کر ہی لیا ۔
”کونسا چیک۔۔۔؟؟“ابا جی ہکلائے۔
” وہی چار لاکھ کا چیک ۔۔جس کے بدلے وہ مجھے اپنی ملکیت سمجھ رہے ہیں۔۔“وہ زور سے چلّائی۔
پر اچانک ہی جو کچھ ہوا اس نے گویا اس کی قوتِ گویائی ہی سلب کر لی۔بوڑھے ابّا جی نے دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑکر گھٹنے ٹیک دئیے۔ ”دیکھ بیٹا تیرا بوڑھا باپ اس بڑھاپے میں کس کس کے آگے ہاتھ پھیلائے ۔۔کس کس سے مانگے ۔۔تو بتا میں یہ قرض کیسے اتاروں ۔۔“ابا جی کی ضعیف آنکھوں سے نمکین آنسوﺅں کے چشمے جاری ہوگئے۔۔۔”دیکھ طاہرہ بےٹی۔۔یہ میری عزت کا سوال ہے۔۔میری عزت دوبارہ نیلام ہونے سے بچا لے۔۔“وہ دونوں ہاتھ جوڑے اس کے آگے گڑگڑانے لگے۔
وہ سن ہو کر رہ گئی اس کے حواس ایک ایک کر کے مفلوج ہونے لگے اوراسے یوں لگا کہ آج اس کے ابا جی نے اسے زمین میں زندہ دفن کردیا ہو۔