اس نے رات ایک خواب دیکھا وہ اپنی خواب گاہ کی بڑی سی کھڑکی کھولتی ہے سامنے ایک خوبصورت باغ ہے جس میں چاروں طرف پام اور کھجور کے درخت ہیں ایک درخت کی شاخوں میں الجھا چودہویں کا چاند بہت خوبصورت لگ رہا تھا وہ باغ کی خوبصورتی کو حیرت سے دیکھ رہا تھا شاید جل رہا تھا کہ یہاں اسکی طرح خوبصورت پھول اپنے رنگ اور خوشبو بکھر رہے ہیں انکی دھیمی دھیمی مست خوشبو ہوا کے ساتھ چاند کو بھی سرشار کر رہی تھی وہ پھولوں اور خوشبوں کے اس منظر میں پوری طرح کھویا ہوا تھا کہ اچانک اس نے کھڑکی کھولی تیز ہوا کے جھونکوں نے ریشمی پردوں کے ساتھ اسکی زلفوں کو بھی بکھرا دیا چاند نے چہرا اٹھا کر اسکی طرف دیکھا اور اسکے ہوش اڑ گئے وہ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھنے لگا اور جلنا بھی بھول گیا۔۔
اسکی خوبصورت کالی آنکھوں پر جھکے پلکوں کے چلمن دھیرے دھیرے اٹھنے لگے اس نے نظر اٹھا کر پھولوں کو دیکھا تو وہ ٹوٹ کر بکھرنے لگے پھر اس نے اپنے چہرے پر بکھری زلفوں کو سمیٹے بغیر جو اسکے چہرے کو لپک لپک کر چوم رہی تھیں ایک ادا سے سر اٹھاکر چاند کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اسکے خوبصورت لب زرا سی دیر کو ایک دوسرے سے جدا ہوئے چاند گڑبڑا گیا اسکے قدم لڑکھڑانے لگے پھر ایک دم وہ سنبھل گیا اور مغرور ہونے لگا وہ حسین آنکھیں ہر شے سے بے نیاز اسے دیکھ رہی تھیں چاند کا دل چاہا وہ ایک لمحے میں اسکے قدموں میں جا گرے اور اسکے اڑتے آ نچل کو تھام لے وہ اس پر جھکے تو اسکے پیارے چہرے کو چوم لے۔
ابھی چاند اسی سوچ میں گم تھا کہ اسکی آنکھوں سے دو موتی ایک لحظے کو چاند کی روشنی میں چمکے اور دھرتی کے سینے پر سر رکھ کہ سو گئے دھرتی نے اترا کر چاند کی طرف دیکھا اور اسکے قدم چوم لئے چاند نے بے بسی سے اپنا سر کھجور کے کاندھے پر ٹکایا اور اسے دیکھتا رہا۔ اس نے مسکرا کر چاند سے نظر چرائی اور پھولوں پر نگاہ ڈالی سارے پھول خفاخفا سے تھے مگر انکی خوشبو دیوانہ وار اسکی طرف لپک رہی تھی۔
اچانک اسے جانے کیا ہوا ؟ وہ واپس پلٹ گئی اور اپنی ریشمی پردوں سے ڈھکی مسہری پر گر پڑی ،چاند ،پھول،خوشبو سب اسکے دیوانے تھے مگر پھر بھی وہ جانے کیوں اداس تھی ؟
صبح جب اسکی آنکھ کھلی تو سب کچھ بدل چکا تھا وہ اپنے چھوٹے سے کمرے میں تھی اور سورج نکلنے کے باوجود کمرے میں اندھیرا تھا کیونکہ اس کمرے کی کوئی بھی کھڑکی کسی باغ میں نہیں کھلتی تھی اس نے چاند ،پھولوں اور خوشبووں کو ڈھونڈا مگر وہ سب تو اسکے سپنے میں قید تھے وہی دلفریب مسکراہٹ اسکے حسین چہرے پر پھل گئی اس نے اس خوبصورت سپنے کو بہت پیار سے لپیٹ کر اپنے سرہانے رکھ دیا۔
ہر رات وہ اپنے سپنے کو سرہانے کے نیچے سے نکالتی دوبارہ سجاتی سنوارتی اور اسکے پورے ہونے کا انتظار کرتی پھر ایک دن اسے احساس ہوا کہ یہ سپنا تو اسکے پاس رہ کر کبھی پورا نہیں ہوگا۔
اسکے خالی دامن اور چھوٹے سے آنگن میں تو چند پھول بھی نہیں کھل سکتے پھر اتنے خوبصورت باغ اور گھر کا سپنا بھلا کیسے پورا ہو سکتا ہے کئی بار اس نے سوچا وہ اس سپنے کو گھر کے کچے آنگن میں دفن کردے مگر ایسا بھی نہ کر سکی ہر بار جب وہ ایسا کرنے کی کوشش کرتی سپنے کا چاند دوبارہ نکل آتا اور اسے پیار سے تکنے لگتا۔
وہ بہت پریشان ہو گئی اس نے سوچا یہ سپنا جسے وہ کبھی پورا نہیں کر سکتی جب تک پورا نہ ہوگا اسکا جینا حرام کر دے گا اور اسکا پورا کرنا تو اسکے لئے ممکن ہی نہ تھا مگر یہ بات شاید سپنوں کو معلوم ہی نہیں ہوتی کہ وہ جن آنکھوں میں بسنے جا رہے ہیں وہ اسے پورا بھی کر پاہیں گی یا نہیں۔پھر ایک دن اس نے سوچا یہ سپنا اپنی تعبیر پانے کے لئے بہت بے چین ہے وہ اسکا بوجھ اٹھائے پھر نہیں سکتی تو کیوں نا وہ یہ سپنا ان آنکھوں کو بیچ دے جو اسکو تعبیر دے سکیں۔
یہ سوچ کر اس نے ایک دکان سجائی اور لوگوں کہ اپنے سپنے کی جھلک دکھانے لگی مگر اس نے ایک شرط رکھی کہ ہر خریدنے والا اس سپنے کو تعبیرضرور دے گا بہت سے خریدار آئے اور سپنا خرید کر لے گئے سپنا تھا جو اتنا خوبصورت۔
وہ حیران رہ گئی اس نے تو سپنے سے جان چھڑانے کے لئے اسے بیچنے کا فیصلہ کیا تھا مگر وہ جو تہی دست تھی سپنے کے خریداروں نے اسے مالا مال کر دیا وہ حیران رہ گئی یہ کیا ہو رہا ہے۔اب تو وہ خود اس قابل ہو گئی کہ اپنے سپنے کہ تعبیر دے سکے۔اس نے اسکی تعبیر شروع کر دی وہ حسین گھر وہ خوبصورت باغ بنتا چلا گیا سپنا تعبیر پا گیا۔
پھر چودھویں کی شب آئی چاند مسرور اور بے نیاز اسے تکتا رہاپھولوں نے اپنی خوشبو اسکی ظرف بھیجی تو اس نے چاند اور پھولوں کی دوستی کرا دی اس نے خوشبو کو چاند کے پاس بھیجا کہ وہ دھرتی سے جلنا چھوڑ دے چاند نے جواب دیا ہاں مگر ایک شرط ہے یہ خوبصورت آنکھیں رونا چھوڑ دیں۔
اپنے سپنے کی تعبیر پر مسرور وہ آسودہ سی نیند سو گئی۔صبح ایک شور سے اسکی آنکھ کھل گئی وہ باہر آئی وہ سارے لوگ جو اسکے سپنے کو پورا کرنے کا وعدہ کرکے اسکا سپنا خرید کر لے گئے تھے وہ سب کھڑے تھے اور بہت غصے میں تھے۔ اس نے سوچا پتہ تو کرے آخر ماجرا کیا ہے ؟ اس نے تو پورے خلوص سے سب کو سپنا بیچا تھا پھر آخر یہ غصہ کس بات کا ہے ؟ کیا اس سپنے کی تعبیر وہی نہیں جیسا وہ ہے؟ لیکن نہیں ایسا تو نہیں اس نے بھی تو اس سپنے کو تعبیر دی ہے اور سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا اس سپنے میں تھا۔وہ خوبصورت گھر وہ مہکتا باغ وہ چاند ہوا خوشبو پھول سب سچے ہیں تو پھر آخر مسلہ کیا ہے ؟ وہ ان کے پاس آئی تو حیران رہ گئی ۔اس سے بہت بڑی غلطی ہو گئی تھی ، جب وہ سپنا بیچ رہی تھی تو وہ اس میں سے خود کو نکالنا بھول گئی تھی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے