وہ تیز نہیں چل سکتا تھا۔ اُس کی بائیں ٹانگ یا تو کم سنی میں نکل چکی تھی یا پھر کوئی اور نقص تھا۔ لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اُس کی ٹانگ میںکوئی پھیر تھا، جو اس کی لنگڑاہٹ سے ظاہر ہوا کرنا تھا۔ وہ ہمیشہ تھکا تھکا ، اُداس اُداس اور بیمار سا لگتا ۔ دیکھو تو ترس آجائے۔
وہ ہماری گُڈز آفس میںسِیل مین(Seal Man) تھا ۔ اس کی عمر بیس اکیس برس کے قریب ہوگی۔ مسکین سی صورت، چھوٹا قد ، لاغر بدن اور دبلا پتلا سا…….. دور سے دیکھو تو یوں لگے جیسے چودہ برس کا لڑکا آرہا ہے ۔ تمام دن گدھے کی طرح محنت و مشقت میں جُتا رہتا، جھڑکیاں کھاتا اور گالیاں سنتا رہتا۔
” ارے او نظامو کے بچے ! جا ایک آنے کا برف لے آ۔ ارے اور سیل مین ! کہاں مر گیا ؟ یہ لو پیسے ، فَٹ سے دو لفافے لے آ……..“۔
ہمارے دفترمیں اور کوئی چپڑاسی نہیں تھا، اسی لےے تمام کام اسے ہی کرنا پڑتا۔ وہ ایک کام سے فارغ ہوتا تو دوسرے کے پیچھے بھاگا بھاگا جاتا۔
” ابے او حرامی ! کہاں مر گیا تھا ، جایہ میمو دے آ ’ سی۔ ٹی ۔ او‘ کو اور ایک دوائی ایف او ، کو اور واپسی میں میرا کھانا لیتے آنا۔ ابے او مردود ! یہ کیسے چلتا ہے تم، جلدی جاﺅ، سالا ایک میمو دینے میں سارا دن لگا دیتا ہے “۔
بارش ہورہی ہو، آسمان آگ برسا رہا ہو یا کوئی طوفان اٹھا ہو ، وہ تمام دن یارڈ کے اندر لنگڑ۔ لنگڑ، لنگڑاتا چلتا رہتا اور بوگیوں پر لیبل لگا کر انہیں سیل کرتا رہتا۔ یہاں تک کہ رات کے دس گیارہ بج جاتے ۔
میںنے کئی مرتبہ اسے اپنے میلے تولیہ ( جسے وہ گرمی میں سر ڈھانپنے کے لےے استعمال کرتا) سے کمر باندھتے ہوئے دیکھا۔ اگر پوچھ لو کہ ارے یہ تولیہ کیوں اس طرح باندھ رکھا ہے ؟ تو جواب میں کہے گا ، ” یونہی ۔ پیٹ میں تکلیف ہے نا “۔ کبھی کبھی تو پورا دن پیٹ کے درد کے سبب کراہتا اور بل کھاتا رہتا۔ پتہ نہیں اسے کیا بیماری تھی کہ دن بدن کمزور ہوتا جارہا تھا۔ میرے ساتھ اُس کا یارانہ تھا۔ اس لےے اگر کچھ پوچھنا ہوتا یا گھر سے آیا ہوا کوئی خط و غیرہ پڑھوانا ہوتا تو اوروں کو چھوڑ کر میرے پاس آجاتا۔ دفتری معاملات میں بھی میرے ساتھ کھل کر گفتگو کرتا ۔ اس کے دل میں کوئی بھی بات ہوتی تو گھوم پھر کر میرے پاس ہی آتا اور میرے ساتھ اپنا غم ہلکا کرلیتا ۔”” بابو جی! یہ ریلے اوورٹائم کیوں نہیں دیتے؟ دیکھو نا ، صبح آٹھ بجے آتا ہوں، رات کے گیارہ بجے جاتا ہوں۔” یا پھر کہتا ، ” بھائی ! یہ کک آﺅٹ کے کیا معنی ہیں؟ بڑا صاحب جب بھی مجھ سے ناراج ہوتا ہے ۔ کہتا ہے کک آ¶ٹ کردوں گا“۔ کبھی کبھی ایسے سوال کرتا کہ مجھے ہنسی آجاتی اور یوں بھی ہوتا کہ میں اس کے کئی سوالوں کے جواب نہ دے پاتا۔
ایک دن وہ مجھے بہت خوش نظر آیا۔ وہ تنخواہ کا دن تھا۔پتہ نہیں کس نے اس کے دماغ میں یہ بات بٹھادی کہ تنخواہ بڑھ گئی ہے اور وہ پھول کی طرح کھل اٹھا ۔ کہہ رہا تھا ، ” بھائی ! آج تو فلم دیکھیں گے ۔” سنا ہے “ ٹیکسی ڈرائیور “ بڑی اچھی فلم ہے“۔ اور کچھ دیر بعد جب تنخواہ لے آیا تو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے سب کچھ لٹا کے آیا ہو ۔ پتہ نہیں کن خیالات میں ڈوبا، غوطے کھا رہا تھا۔” بھائی یہ میرے دو روپے کیوں کاٹ دےے؟ میری تو سبھ حاجریاں تھیں “۔میں نے اُسے بتایا کہ دوماہ سے جو واشنگ الا¶نس مل رہا تھا وہ بھی کاٹ لیا ہے ۔ لیکن ا س بچارے کو کیا پتہ کہ واشنگ الا¶نس کس بلا کا نام ہے۔دفتر میں سب کا خیال تھا کہ اسے تپ دق ہے ، اس لےے دفتر کے مٹکے سے پانی پینا اس کے لےے ممنوع تھا۔ لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اسے ٹی بی یا اس قسم کی کوئی اور بیماری نہ تھی۔ میں کیا ، سب کو پتہ تھا کہ اسے کیا بیماری لاحق ہے اور اس کا علاج کیا ہے ، لیکن ہم نے کبھی اس کے متعلق غور کیا ہی نہ تھا ۔ ہم سب اسے مشورہ دیا کرتے کہ کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کرواﺅ نہیں تو مر جاﺅ گے ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ میں جب بھی اس کے پیٹ پر تولیہ باندھا دیکھتا تو مجھے بھی اس کی صورت سے ڈر لگتا۔ میں ڈرتا کہ کہیں قرضہ نہ مانگ لے۔ کیونکہ میرے سوا وہ کسی کے ساتھ اتنی حجت نہیں کرتا تھا ۔ ” بھائی ! آج تو بڑے جور کی بھوک لگ رہی ہے ، چارآنے دو ، تنکواہ کے روج دے دوں گا“۔ وہ ایسی مسکین اور معصوم صورت بنا کر کہتا کہ غصہ کے بجائے ترس آجاتا اور وہ پھر مطلوبہ رقم تنخواہ کے دن ضرور لوٹا دیتا۔
ایک دن ہمارے دفتر کا عملہ نماز جمعہ پڑھنے گیا اور ہم دونوں دفتر میں رہ گئے۔مجھے اور کوئی کام نہیں تھا، اس لےے دفتر کے بینچ پر مزے کے ساتھ ٹانگ پر ٹانگ رکھے سگریٹ کے کش مار اور اخبار پڑھ رہا تھا۔ وہ اپنے خیالات میں گم بیٹھا بلٹیوں کی کتاب پر مہریں مار رہا اور ٹھنڈی سانسیں بھر رہا تھا ۔ میں سمجھ گیا کہ آج اسے پھر کوئی ڈانٹ پڑی ہے ۔ لیکن یہ میرے لےے کوئی نئی بات نہ تھی ۔ بھلا کون سا ایسا دن تھا کہ اس کو ڈانٹ نہ پڑتی ہو۔ وہ خود ہی شروع ہوگیا :
” بھائی! اب تو اس نوکری سے جی کھٹا ہوگیا ہے ۔آج پھر بڑے صاحب نے چارج چھیٹ دے دیا ہے ۔ بھلا میں کوئی پڑھا لکھا ہوں جو روج روج بیٹھا چارج چھیٹ کا جواب لکھوں“۔
” کس بات کی چارج شیٹ ہے ؟“۔ میں نے پوچھا۔
”آج بڑے بابو نے مجھے روئی کے بوروں میں سوتا دیکھ لیا۔ دیکھو بھائی! میں بھی انسان ہوں۔ صبح آٹھ بجے کام پہ آتا ہوں، رات کو دس دس، گیارہ گیارہ بجے جاتا ہوں۔ تم اپنے ایمان سے کہو ، کبھی یہ لوگ مجھے چین سے بیٹھنے دیتے ہیں ؟ اورتو اور اتبار کے روج بھی کام پہ آنا پڑتا ہے۔ پھر بھی اگر کسی روج تھوڑا سا دیر سے آجاﺅں تو یہ لوگ ہجار باتیں سناتے ہیں اور چارج چھیٹ تھما دیتے ہیں ۔سچ……..میں تو روج روج کے جھگڑے سے تنگ آگیا ہوں ۔ سوچتا ہوں ، نوکری چھوڑ دوں“۔
” پھر کیا کرو گے؟“۔
اُس نے میری بات کا جواب نہیں دیا ۔ پتہ نہیں کسی سوچ میں گم تھا ۔ میں اس کے گھریلو حالات سے واقف تھا ۔ میں ہی اس کے گھر سے آئے ہوئے خط اس کو پڑھ کرسناتا تھا۔ میں نے اسے کہا، ”پگلے ! ایسا خیال کبھی دل میں نہ لانا۔ نوکری بڑی مشکل سے ملتی ہے اور پھر تم اکیلے تو ہو نہیں ، تمہارے پیچھے پورے سات افراد کھانے والے ہیں ۔ ان کا کیا ہوگا؟“۔
” پھر یہ لوگ مجھے چین سے رہنے کیوں نہیں دیتے؟“۔
” بھائی! تم نہیں جانتے ، میں پہلے ہی کتنا دکھی ہوں“۔
اس نے سر جھکا کر میز پہ رکھ لیا اور اپنا چہرہ باز میں چھپا لیا۔ وہ آنسو نہیں بہا رہا تھا، سسکیاں نہیں بھر رہا تھا لیکن وہ رو رہا تھا ۔ وہ ایسے ہی روتا …….. ہمیشہ روتا رہتا تھا۔
اس بات کے دوسرے دن مجھے ایک ضروری کام کے سلسلہ میں حیدر آباد جانا پڑ گیا اور تین دن کے بعد جب میں صبح سویرے دفتر آیا تو نظاموں کی جگہ ایک دوسرے لڑکے کو میز کرسیاں صاف کرتے دیکھا۔ میں نے سوچا، کوئی نیا بھنگی ہے ، جھاڑو دینے کے ساتھ ساتھ آفس کی میز کرسیاں جھاڑنا بھی اپنی ڈیوٹی سمجھتا ہے ۔ اس لےے دھول سے بچنے کے لےے میں آفس کے باہر چہل قدمی کرنے لگا۔
مجھے بعد میں پتہ چلا کہ نظامو کو ڈسچارج کیا گیا ہے ۔ اس نے کسی تاجر سے سیل لگانے کے پیسے مانگے تھے اور اس کی اور بھی کوئی شکایتیں ہوئی تھیں، اس لےے اسے نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔
جب میں نے افسوس کا اظہار کیا تو ہمارا ایک بابو ناراض ہوگیا، کہنے لگا:” ارے ! تم نہیں جانتے وہ سالا کتنا حرامی ہوگیا تھا۔ میاں! وہ ہم تم سے زیادہ کمالیتا تھا۔ خدا کی قسم ، سیل لگانے کے بعد ایک روپے سے کم نہیں لیتا تھا“۔
” کہاں یار! وہ بچارہ تو پورا دن بھوکا مرتا تھا“۔ میں نے کہا۔
اس پر میرا ایک اور ساتھی بھڑک اٹھا:” ارے تمہیں کیا معلوم ! وہ سالا تو میری لوڈنگ کے پیسے بھی کہا جاتا تھا۔ جو نیا تاجر آتا، اسے کہتا، پیسے نکالو تو تیرا مال جلدی گاڑی میں بھجوادوں گا۔ جبھی تو مبین سالے سے جلتا تھا۔ سالا حرامی ، کم ذات “۔
بات یہاں تک آگئی تو ہمارے ایک پنجابی بابو سے بھی رہا نہیں گیا۔ اس نے فوراًکہا، ” اجی! اس دی گل کردے او ۔ اوتے ساڈا وی باپ بن گیا سی ۔ مینوں کہدا سی، بابو جی ! تسی اتنے پیسے کماندے او، کدی سانوں وی چائے پانی کرائیونیں ! میں سالے دے منہ تے چٹاخ سے چاٹا ماریا تے سالے دامنہ ئی لال ہوگیا ۔ سور دی اولاد“۔
اس بات پر ہنسی کا پھوارہ پھوٹ پڑا۔ سب نظامو کو گالیاں دے کر اپنی اپنی بھڑاس نکال رہے تھے ۔ اس کے بعد وہ مجھے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ۔ ہاں اس کے جانے کے بعد جلد ہی اس کا ایک خط مجھے ملا، جو ابھی تک میرے پاس رکھا ہوا ہے ۔ کہتے ہیں دوسروں کا خط پڑھنا اخلاقی جرم ہے۔ لیکن میں آپ سے چھپاتا نہیں۔ میں نے اس کے نام آیا ہوا خط پڑھا ہے ۔ ویسے بھی اس کے خطوط اسے میں ہی پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔ شاید یہی سبب تھا کہ اس کا خط پڑھتے ہوئے مجھے میرے ضمیر نے کوئی ملامت نہیں کی ۔ وہ خط میں آپ کو بھی سنانا چاہتا ہوں۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ میں آپ کو یقین چلاتا ہوں کہ اس خط میں ایسی کوئی بات نہیں جسے سننے کے لےے آپ کا ضمیر آمادہ نہ ہو۔ یہ ایک ماں کی ٹیڑھی میڑھی لکھائی میں تحریر شدہ خط ہے ۔ ایک سیدھا سادھا خط …….. ہمارے ملک کے کروڑوں انسانوں کی درد بھری کہانی، جسے ہم اچھی طرح جانتے ہیں لیکن اس پر کبھی غور نہیں کرتے۔ نظاموں کو ماں کی طرف سے لکھے ہوئے اس خط کی عبارت کچھ یوں ہے:
” نور چشم نظام الدین! خدا تجھے سلامت رکھے!“۔
اس سے پہلے بھی اےک خط تجھے بھیج چکی ہوں۔ لیکن تم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں یہاں سخت پریشان ہوں ۔ تمہارے چھوٹے بھائی کی طبےعت بہت خراب ہے ۔ اسے معیادی بخار ہوگیا ہے ۔ ڈاکٹر کہتا ہے کہ ٹیکے لگیں گے ، نہیں تو…….. میرا تو کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔ میرے لال ! کسی بھی طرح ادھار و دھارلے کر بیس روپے بھیج دو۔ بیماری الگ ہے اور گھر کا حال یہ ہے کہ رات کا آٹا نہیں ہے ۔ دکاندار نے ادھار دینے سے جواب دے دیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس مرتبہ کچھ بچت کرنا ، صرف دوکاندار کے ہی 45 روپے ہوگئے ہیں، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ لینا دینا ہے ۔ تمہاری بڑی بہن کی قمیص پھٹ کر لیروں لیر ہوگئی ہے ۔ اسے دیکھ کر تو میرا دل پھٹنے کو ہوتا ہے ۔ تمہاری چچی نے بھی ہم سے سگائی توڑ کر غیروں سے کرلی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ پچھلے خط میں تم نے لکھا تھا کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، ان دنوں سے میرا آرام جاتا رہا ۔
میرے پیارے بیٹے! آج کل کی بیماریاں بہت خطرناک ہوتی ہیں ۔ اپنے دوادارو کا خیال رکھو اور تجھے دیکھے بھی بہت دن ہوگئے ہیں۔ اگر تمہاری تنخواہ نہ کٹے تو کبھی آکر چہرہ دکھا جاﺅ۔ اب تمہارے لےے میری روح تڑپ اٹھتی ہے ۔ اپنی صحت کے متعلق ضرور لکھنا تاکہ میرے دل کو کچھ تسلی نصیب ہو۔ دوسرا یہ کہ تجھے کوارٹر کب ملے گا؟ اس بات کا خاص خیال رکھنا اور اس خط کو تار سمجھنا ، کسی بھی طرح بیس روپے بھیجنا۔ خدا کرے تمہارے روزگار میں برکت ہو۔
”فقط تمہاری ماں……..“۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے