ڈاکٹر ماموں کے ساتھ گہرے رشتے کی بنیاد ہیں کچھ پرانی کلاسیکل فلمیں ، گیت ، تصاویر، کتابیں اور ہندو باغ سے جُڑی ہوئی اُن کی انمول یادیں۔
اب کے برس، دسمبر میں اک گہری ہوتی رات میں آدھی صدی کے بعد بوڑھی آنکھوں میں یاد کے آنسو جھلملانے لگے۔ آنکھوں میں تیرتے اُن پانیوں میں عکس تھا، اکتوبر1963 کی چمکتی سُنہری دھوپ کا ۔ جہاں ہندو باغ کے اکلوتے سکول میں صاف ستھرے کپڑے پہنے دو ننھے مُنے گورے چٹے بچے اپنے سائنس کے اُستاد سے ، اپنی ماں کی جانب سے درخواست کررہے ہےں کہ وہ انہیں پی سی ایم کالونی میں واقع اُن کے گھر آکر کچھ دنوں کے لےے ٹیوشن پڑھادیا کریں…….. صاف ستھرا ڈرائینگ روم، تہذیب، رکھ رکھاﺅ، شرافت اور اپنا پن۔
خاتونِ خانہ کے موجودہ شوہر نے اپنے بڑے بھائی کو اس لےے شرافت، رتبے اور نیک نامی کی آڑمیں قتل کروادیا تھا کیونکہ وہ اپنی جوان خوبصورت بھابھی سے شادی رچانا چاہتا تھا …….. انکار کی صورت دوسرا قتل کوئی کارِ دشوار نہ تھا۔ اور آخر ! آخر حاکم، مضبوط مرد جیت گیا۔
شوہر کے قاتل شوہر کے ساتھ زندگی نہ جانے کس جانب بڑھ رہی تھی۔
لیکن؟ …….. ٹیوٹر، ہندو باغ کی یخ بستہ ہواﺅں ( جنوری ۔ فروری) میں بھی دو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے دوست سے مانگے ہوئے سُہراب سائیکل پر ٹیوشن پڑھانے بِلا ناغہ جاتا رہا۔ مروت کے مارے ٹیوٹر نے کبھی اپنے معاوضے (Tution Fee) کا ذکر تک نہ کیا۔
آنکھوں میں شرم تھی، حیا تھی، اپنائیت تھی۔ چاہت تھی، مجبوری تھی، التجا تھی، پیغام تھا…….. اور نہ جانے کیا کیا تھا…….. شائد سب کچھ تھا۔
ایک ٹھہرتی صبح جب ٹیوٹر پی سی ایم رہائشی کالونی پہنچا تو بنگلے کے مرکزی پُرانے مضبوط لکڑی کے دروازے پر ایک موٹا سا تالا، اُسے کسی انہونی کی خبر دے رہا تھا…….. کئی سال بعد سکول کے پتے پر سائنس ٹیچر کے لےے ایک بے رنگ چٹھی آئی ……..جس میں آنسوﺅں سے بھیگا صرف یہ نغمہ تحریر تھا۔
آنسو بھری ہیں یہ جیون کی راہیں
کوئی اُن سے کہہ دے ہمیں بھول جائیں….
اور اب پچاس سال بعد ستر سال کے بوڑھے کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے۔