چاروں جانب سے آتی ہوئی
سڑکوں کے مِلن مقام پر
ہرے پتّوں سے بھرا
ایک تناور درخت تھا
بدن کی تھکن پی کر
جواں ہو چکی تھیں شاخیں اس کی
گول دائرے میں کھڑی
عمارتوں کی آڑی ترچھی
دیواروں کی پوشاکیں
اُتار دیں تھیں سمندر کی خنک ہوا نے
سود و زیاں کی بھول بھلیوں سے ناآشنا
زندگی کے بَیل کو ہانکتے تھے مکیں اُدھر کے
چوراہے کی ایک نکڑ پر ہوتا تھا چائے خانہ
جہاں شام اُداسی
ڈُوبی جاتی تھی چائے کی پیالی میں
جھوٹ فریب اور دغا جیسے لفظوں کا
کوئی وجود نہ تھا
بس حرف کی پہچان رکھنے والے
کچھ سیانے لوگ تھے وہاں
آج بلیئرڈ کلب ہے
اسی چوراہے پر چائے خانے کی جگہ
کچھ بھی تو نہیں بدلا ہے
بس پیڑ کی شاخیں پیاسی ہیں