کاندید کو پڑھنے کے بعد ول ڈیورانٹ کے اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکے گا کہ ”یہ نہ سمجھا جائے کہ والٹیر اور روسو انقلاب فرانس کے اسباب تھے بلکہ انہوں نے احساس اور فکر کو ایک سمت فراہم کی ، ذہن انسانی کو نئے تجربوں اور نئی تبدیلیوں کے لیے تیار کیا۔“۔
کہتے ہیں لوئی شانزدہم نے زنداں میں جب والٹیر اور روسو کی تصانیف دیکھیں تو کہا ”ان دو آدمیوں نے فرانس کو تباہ و برباد کردیا۔“۔
اور لوئی شانزدہم اپنی جگہ بالکل صحیح کہہ رہا تھا کیونکہ والٹیر کا اپنا قول ہے کہ ” دنیا پر کتابوں کی حکومت ہے کم از کم ان قوموں کے متعلق تو یہ بات سچ ہے جو فن تحریر سے آشنا ہیں ماسوائے ان کے جو فن تحریر سے نا آشنا ہیں۔
دنیا کا شاہکار طنز ”کاندید “کو لکھنے والا والٹیر یہ بتانا چاہتا ہے کہ اگر ایک مرتبہ قومی شعور بیدار ہوجائے تو پھر اسے دوبارہ ہرگز سلایا نہیں جاسکتا۔
کاندید ہزار بار مصیبتوں کا شکار ہوتا ہے ، انسان کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی کا نام غلطی سے زندگی پڑگیا ہو اسے تو بدل کر مصیبتوں کا مجموعہ رکھ دینا چاہےے۔
کسی فلسفی نے کہا تھا کہ والٹیر کی تحریروں میں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے قلم رو بھی رہا ہو اور ہنس بھی رہا ہو۔
کاندید کی ملاقات ایک مارٹن نامی بزرگ سے ہوتی ہے۔
کاندید گویا ہوتا ہے۔ ” آپ کیا کہیں گے۔ کیا انسان ہمیشہ سے آج کی طرح ایک دوسرے کے خون کا پیاسا رہا ہے؟ اور ایک دوسرے کو تڑپاتا رہا ہے۔ کیا انسان جھوٹا، فریب کار، دھوکا باز، ناشکرگذار، سازشی ، بدمعاش، شرابی ، حاسد ، بدکار رہا ہے؟
مارٹن کا جواب بھی ذرا سنیے۔۔۔۔ ”آپ کا کیا خیال ہے کہ شکروں کو کبوتر ملے ہیں تو انہوں نے ہمیشہ کھا لیا ہے انہیں“۔
کاندید نے کہا۔ بے شک۔
مارٹن نے کہا ” اگر شکروں نے اپنی فطرت نہیں بدلی تو انسان کیوں بدلے؟“۔
کاندید اس سے اتفاق نہیں کرتا اور شکروں و انسان میں زمین آسمان کا فرق بتاتا ہے۔
پنگلاس مابعد الطبیعاتی دینیات کا استاد تھا۔ ا±س کا ماننا تھا کہ ”دنیا میں ہرچیز اپنی جگہ برابر ہے اور اپنے منصب کے حوالے سے لوازمات پورے کررہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ناک کا منصب یہ ہے کہ اس پر چشمہ رکھ دیا جائے۔ پتھر کا کام قلعوں کی تعمیر میں کام آنا ہے۔ پنگلاس مانتا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے ،یا ہوتا ہے اس سے زیادہ بہتر تصور میں آہی نہیں سکتا۔
کاندید دکھ پہ دکھ برداشت کرتا ہے۔ اپنے محبوب کے بغیر اسے ایلڈوراڈو کی زندگی بھی نہیں بھاتی۔
آخر وہ کاشتکاری کا پیشہ اختیار کرلیتا ہے اور یہیں پہ والٹیر اپنے لازوال طنز کا اختتام کرتا ہے۔
پنگلاس کہا کرتا تھا کہ۔ ”اِس عالم سے زیادہ بہتر عالم نہ ہی تصور میں آسکتا ہے ، نہ ہی انسان سے بہتر مخلوق کوئی ہوسکتی ہے ، واقعات ایک سلسلے کے پابند ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر تمہیں اپنے شاندار قصر سے دھکے دے کر نکلوا نہ دیا جاتا۔۔۔ اگر تمہیں عدالت مذہبی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اگر تم نے امریکہ پیدل سفر نہ کیا ہوتا۔ اگر تم نے اپنا تمام سونا کھویا نہ ہوتا تو آج تم میوے نہ کھا رہے ہوتے“۔
کاندید کہتا ہے۔”یہ تو درست ہے لیکن آئیے ذرا باغ میں کاشتکاری کریں۔“۔
حوالہ جات۔۔۔۔
کاندید۔۔۔ (والٹیر)۔
داستان فلسفہ۔۔۔ (ول ڈیورانٹ)۔۔