میں نے جب انہیں گھر سے نکالا تو وہ اداس دکھتی تھیں
کھوئی کھوئی سی، گمشدہ
بے گھری کے خوف سے سہمی ہوئی، مہر بہ لب
میری رفیق، میری ہمدم، میری دوست
ایک ایک کی رخصتی سمے ، میں نے انہیں دز دیدہ نگاہوں سے دیکھا
کئی ایک کو تو میں نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا
حالانکہ یہ بات خلافِ آداب ِ محبت ہے
ان کے اجلے بھیترے اپنا من اور ذہن روشن نہ کرسکی تھی
ایک ایک کو بھیجتے سمے ، میری کوکھ سے درد اٹھا
ہاتھ، پیر، انگلیاں ، جیسے کٹ کے گرنے لگیں
دل پر غیرےت کے سیاہ بادل چھا گئے
آخر جدائی وصال کا مقدر کیوں ہے
اب نہ جانے کس حال میں ہوں گی وہ
کس طاق پر آراستہ ، کس کے لمس کی منتظر
کون سی نئی محبت چھُوئے گی انہیں
کچھ تو میری اپنی تھیں، کچھ میری پُرکھوں کی چھوڑی ہوئی
میں انہیں آنے والے وقت کی زندہ بہتی ندیا کے حوالے کرکے مطمئن ہوں
کم از کم میرے بعد وہ لاوارث تو نہ ہو ں گی
فٹ پاتھ پر سجی
رّدی مارکیٹ میں زمین پر گری پڑی
گاہکوں کے انتظار میں تن کھولے
جو اُن کے حصول کے لےے بھاﺅ تاﺅ کرتے
انہیں بار بار اٹھاتے ، پھر زمین پرپٹخ دیتے ہوں گے
میرے کلیجے کے ٹکڑے لےے تو جارہے ہو
لائبریری والے …….. سنو،
انہیں پیار سے رکھنا، خیال رہے،
وقت کی دوڑ
اور دیمک کی بھوک بہت تیز ہوتی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے