ہلکی ہلکی بونداباندی سے بھی اچھا خاصا کیچڑ پیدا ہوگیا،حالانکہ یہی بوندا باندی کسی ہموارجگہ یا بہترین سیوریج والے علاقے میں بھی بیک وقت ہو رہی تھی،مگر وہاں فضا خوشگوار تھی۔اور شہر کایہ علاقہ نسبتاً نشیبی بھی تھا۔اور نظر انداز بھی۔لہذاٰ یہاں کے مکینوں نے بھی اس کے ساتھ سوتیلی اولاد والا سلوک کیا ہوا تھا۔
شاپر ،پلاسٹک بیگ ،ٹکی ،ٹافی کے ریپرز غرض کہ ہرکچرا یہاں مصیبت میں گھرا نظر آ رہا تھا،کیونکہ جگہ جگہ ذرا سی اینٹ کے ٹکڑے سے لپیٹ کر پیچھے سے آنے والے پانی کے بہاﺅ میں جذباتی طریقے سے روکاوٹ ڈال کر پوری سڑک کو اشک بار کئے جارہے تھے۔بارش جو بوندا باندی کی صورت جاری تھی،ذرا دیر کو رُک گئی،مگر سردی میں بے حد اضافہ ہوگیا۔
گیس کا پریشر بھی کم سے کم ہو کر موم بتی جتنی حرارت دینے لگا۔اس نے مسلسل ہیٹر کے آگے ہاتھ رکھا ہوا تھا۔
بے خیالی میں ہیٹر کی جالی سے اُنگلیاں جا ٹکرائیںتو اُف کر کے ایک دم سے ہاتھ کھینچ لیا۔اور اپنی اُنگلیوں کو مسلنے لگا،تاکہ چھالہ نہ پڑ جائے۔
اسے دادی کی بات یاد آگئی،جو بچپن میں اس کی شرارتوں کی وجہ سے ہاتھ جل جانے پر یوں ہی جلدی جلدی جلی ہوئی جگہ کو مسل کر چھالہ بننے سے روک لیتی تھی۔اور اس کا ننھا ہاتھ کافی دیر تک اپنی گود میں رکھے آنکھوں میں آئے آنسو پونچھتے اس کو دلاسہ دیتی رہتی۔
یادیں جب پیچھا کرنے لگیں تو اس کو فرار کا راستہ نہیں ملتا۔ اس نے یادوں سے پیچھا چھڑانے کے لئے کمرے میںگول گول چکر لگانے شروع کر دئیے۔بار بار بوسیدہ سی گھڑی پر ٹائم دیکھنے لگا۔گھڑی کا چمڑا کا پٹہ جگہ جگہ سے مسک گیا تھا،دو جگہ سے موچی کے پاس سے مضبوط دھاگے سے ٹانکہ بھی لگایا۔وہ گھڑی اور بھی لے سکتا تھا،پٹہ بھی بدل سکتا تھا،مگر یہ دادی کا تحفہ تھااس میں دادی کے ساتھ بیتے سب وقت تھے۔۔۔
پانچ بجنے میں دس منٹ باقی تھے،وہ انتہائی بے زاری محسوس کرنے لگا۔دوپہر کا کھانا اور تندوری روٹی جو آدھے اخبار میں آدھ لپٹیی اور آدھ باہر جھانکتی بے زاری کا شکار ہو کر اکڑ گئی تھی۔
اس نے دوپہر کے کھانے کو ہاتھ تک نہ لگایا،پریشانی بڑھتی جا رہی تھی،اچانک دروازے پر تین بر ہلکی سی اور چوتھی بار زور سے دستک نے اسے اشارہ دے دیا کہ مطلوبہ بندہ آگیا ہے،اوربڑھ کر دروازہ کھول دیا تو وہ شخص جلدی سے اندر آگیا ایک لفافے میں لپٹا مطلوبہ سامان اسے تھما کر چلتا بنا۔وہ بھی کچھ دیر بعد خود کو بوسیدہ سی چادر میں لپیٹ کر باہر نکل آیا۔ہوا کے ٹھنڈے جھونکے نے اس کا استقبال کیا تو اس نے چادر سر تک اوڑھ لی،اور مرکزی بازار کی طرف رُخ کر کے تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔بازار میں حسبِ معمول چہل پہل کافی تھی۔عصر ہو چکی تھی،مگر دھوپ ابھی تک ڈھلی نہیں تھی،اس کی تمازت ابھی تک بر قرار تھی ۔
ساڑھے پانچ ہو چکے تھے ۔ وہ مطلوبہ جگہ کی تلاش میں یہاں وہاں دیکھ رہا تھا،بے مقصد جُرابوں ،بنیان کی جگہ آکر اُلٹ پلٹ کر کے جُرابوں کو دیکھنے لگا،اور قیمت پتہ کرنے لگا۔اب گاڑیوں میں آنے والوں کا بھی ہجوم بڑھنے لگا۔اس نے جلد پلٹنے کی کوشش کی مگر دو چار بندوں سے ٹکرا گیا،واپسی پر اےک رکشے کو ہاتھ دیا اور چلتا بنا۔اےک دھماکہ ہوا اور سارا شہر لرز گیا۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے دو دھماکے مختلف جگہوں پر ہوئے،چیخ و پُکار،بھاگ دوڑ،مغرب کا وقت ہو چلا،اندھیرا پھلنے لگا۔ رکشہ والا نسبتاً کم خطرے والی سڑک سے اُسے گھر تک چھوڑنے آیا ۔سارے رستے رکشے والا خوف کے مارے بم والوں کو گالیاں دے رہا تھا۔اس کے ساتھ ڈیڑھ سو روپے کرایہ طے ہوا مگر گھر تک چھوڑنے کے بعد رکشے والے نے کہا بھائی اس مصیبت میں ہم تم سے بھائی بندی نہیں کرے گا تو ہم سے بڑا خبیث کوئی نہیں،تم بھی پریشان ہم بھی پریشان ،بس اللہ کی حفاظت میں گھر جاﺅ کوئی کرایہ نہیں۔ وہ سُن دماغ کے ساتھ رکشے سے اُتر گیا۔
فروری کا آخیر تھا،لوگوں کی ہلاکت اس لئے بھی زیادہ ہوئی تھی کہ لوگ اپنے بچوں کو سکول کی کتابیں ،کاپیاں اور یونیفارم دلوانے آئے ہوئے تھے۔ شہر کے سب اسپتالوں میں ایمر جنسی قائم کر دی گئی۔ میڈیا،اخبار اور سب ہنگامی صورتِحال سے باخبر کر رہے تھے۔حکومت امدادی کاروائیوں کا جائزہ لے رہی تھی۔
اچانک اس کو تھکاوٹ کا احساس ہونے لگا،بجلی آنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔مگر اس نے بے چینی سے ٹی وی کا سوئچ آن کر رکھا تھا۔ٹی وی کی کالی سکر ین میں اپنے چہرے کا عکس تک دیکھ نہ پا رہا تھا۔بار بار گھڑی دیکھتا ،کمرے کے کونے میں پڑے ہیٹر پر چائے چڑھا رکھی تھی۔جس کا پانی سوکھتا جا رہا تھا ،شاں شاں کی آواز نے اس کی توجہ چائے کی کیتلی کی طرف گئی،اُٹھ کر مزید پانی ڈالا۔اور کھڑکی کھول کر باہر دیکھنے لگا۔اس کے کمرے کی کھڑکی پچھواڑے کے میدان میں کھُلتی تھی جہاں بچے کرکٹ کھیلتے تھے،اب اندھیرا ہو چُکا تھا،مگر اکا دُکا لڑکوں کی ٹولیاں میدان کے چار جانب بنی ادھ پونی دیوار پر ٹانگ لٹکائے بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے،اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں ان کے ہیولے نظر آرہے تھے۔
اس نے بے زار ہو کر کھڑکی کے پٹ بند کر دئیے فروری کی راتیں ابھی تک سرد تھیں۔اس نے اپنے پاﺅں ہیٹر کی جانب کر کے سینکنے شروع کر دئیے ۔دادی کی یاد پھر آگئی،جو اس کو نہلا کر ہیٹر کے قریب بٹھا دیتی تھی،اور صدیوں پُرانے لوک گیت سناتے ہوئے اسے سُرمہ لگاتی،بالوں میں تیل لگاتی،اماں کو چھوٹے بھائی سے فرصت ہی نہ تھی،تبھی دادی نے بڑے پوتے کی ذ مہ داری لے لی،ویسے بھی دادی کا بہت لاڈلا تھا۔اس کو آنکھوں میں سُرمہ لگانا بالکل پسند نہ تھا،آنکھیں میچ کر وہ سُرمہ نہ لگانے کی ضد کرتا،مگر دادی اپنی پُرسوز آواز میں گیت گاتی،اسے بہلاتی،سرمہ لگا ہی دیتی۔پھر گود میں ڈال کر تھپک تھپک کر لوری سُناتی،دادی کی آواز ابھی تک کانوں میں گونجتی تھی،جب بھی نیند نہ آتی ہو تصوّر میں اسی آواز کے مدھر پن کو محسوس کرتا اور سوچتا اب بھی دادی قریب ہی کہیں بیٹھی لوری دے رہی ہے۔
لوری اور دادی کا ساتھ سکول کے زمانے تک رہا،حالانکہ وہ آٹھویں جماعت کا بڑا سا بچہ تھامگر دادی کے معاملے میں وہ بالکل فرمابردار تھا،حالانکہ اماں ،ابا کو وہ بالکل خاطر میں نہ لاتا تھا۔اماں اکثر اس کے ڈھیٹ پن اور بے جا لاڈ پر گالیاں دیتی کہ بڑا آیا دادی کا بیٹا،نخرے باز،کم بخت وغیرہ وغیرہ،مگر اس کے کان پہ جوں تک نہ رینگتی۔ اس عمر میں بھی سکول سے آکر دادی کی گود میں سر رکھ کر لیٹ جاتا اور دن بھر دادی نے جو ٹکی ٹافی خریدی ہوتی،اسے کھول کھول کر پیار سے کھلاتی جاتی۔اب تو لاڈ کی یہ حد ہوگئی کہ دادی گرمیوں کی دوپہر میں بھی اسے نہانے کو کہتی صاف کپڑوں کا جوڑا نکال کر دیتی اور کھانا کھلا کر اپنے کمرے میں چٹائی پر سلاتی اور پاس بیٹھ کر لوری دیتی جاتی۔اس کے چھوٹے بہن،بھائی کمرے میں قدم تک نہ رکھ سکتے کہ بھائی سو رہا ہے۔اماں بھی دن بھر کی تھکی ہوئی دادی کے پاس چلی آتی،دونوں بیٹھ کر کڑھائی کرتی رہتیں۔دادی اس کے لئے رومال ضرور بناتی،اُس پر کڑھائی بھی کرتی۔ وہ ہمیشہ نیلے رنگ کا رومال پسند کرتاتھا،اور اُس پر پھول بھی نیلے رنگ کا دادی کاڑھتی تھی۔
شام جب جاگتا تو دادی اس کے لئے قہوہ کے ساتھ بیکری کے بسکٹ ضرور کھلاتی۔ منہ ،ہاتھ دھو کر کھاتا پھر مدرسے جاتا ،پڑھائی اور مدرسے کا لائق بچہ تھا،پھر ٹکی،ٹافی کے بنا اس کا گزارا نہ تھا۔مدرسے، سکول جاتے یا کھیلنے سے پہلے دادی اپنے کھسّے سے ٹکی،ٹافی نکال کر دیتی،پھر یہ کوئی کام کرتا ۔
چائے کا پانی دوبارہ خشک ہونے لگا،تو اس نے اُٹھ کر دودھ ڈالا اور دو تین جوش آنے کے بعد پتی سمیت مگ میں ڈال کر ہیٹر کے قریب آ بیٹھا،اس کے کمرے میں بلا کی خاموشی تھی۔اتنی خاموشی کہ اسے وحشت ہونے لگی۔اس نے خاموشی توڑنے کے لئے دو تین بار گلا کھنکھارا۔
کسی سے اس کا تعلق نہ تھا۔ یہ دو کمروں پر مشتمل گھر ویسے بھی باقی گھروں سے نسبتاً دور تھا،نہ کوئی آتا نہ جاتا،یہ اکیلا پڑا رہتا۔بس دادی کے ساتھ گذرے دن یاد کرتا رہتا۔
اتنی زیادہ تنہائی کا وہ عادی نہ تھا۔دادی کی خوشبو سب سے الگ تھی،بچپن سے وہ دادی کی اس خوشبو کو پہچانتا تھا۔دادی اس کا دل بہلانے کے لئے اس کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلتی ۔باہر صحن میں جب یہ بیٹ پکڑے کہتا،دادی او دادی!،بالنگ کراﺅ۔ تو دادی کڑھائی کرتی ہوئی بال اُٹھا کر یوں پھنکتی کہ وہ بیٹ سے بال کو شاٹ لگا سکے۔اور وہ خوش ہوتا کہ اس نے چھکا ،چوکا لگالیا۔دادی اس کی اس ننھی سی کامیابی پر بہت خوش ہوتی بس اسے خوش دیکھنا چاہتی۔
کوئی بھی اچھا کھانا ملے دادی اس کا حصّہ ضرور رکھی۔خود نہ کھاتی اسے دے دیتی۔
آٹھویں کے امتحانوں کے بعد نویں،دسویں کے لئے محلے سے زرا دُور سکول میں داخلے کی بات پر دادی نے خوب احتجاج کیا کہ بچہ چھوٹا ہے کیسے آئے جائے گا؟؟؟مگر اماں،ابّا نے کہا کہ بڑا ہو گیا ہے دادی تم بھی بس اس کو دو ماہ کا بچہ سمجھتی ہو،مگر دادی نے اپنی جمع پونچی سے اُسے سائیکل لے دی۔ وہ اور بھی خوش ہوگیا۔اب سکول کی جب تک وہ وردی پہنتا،دادی اس کی سائیکل صاف کرتی،اور ٹکی،ٹافی اس کی جیب میں ڈال کر ڈھیر ساری دُعا دے کر بھیجتی۔
چند ماہ بعد اس کا دل پڑھائی سے ہٹنے لگا،دادی نے محسوس کیا کہ وہ اس کے پاس بھی نہیں بیٹھتا،سکول سے آکر دوپہر کی لوری بھی نہ سُنتا،بس کتابیں پھینک کر چلتا بنتا۔مغرب کے بعد آتا اور دو نوالے زہر مار کر کے سو جاتا۔
دادی کی گود میں سر رکھے اسے کتنے دن ہوگئے،دادی جیسے دیکھتی وہ تکیے پر سر رکھ کر سونے لگا تو خود بخود بیٹھی لوری گنگنانے لگتی۔
اس کو بھی لوری کی عادت تھی،اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے،مگر دادی کو ظاہر نہ کرتا،اور جھوٹا موٹا سوتا بنا رہتا۔
پھر وہ کچھ دن کے لئے غائب ہو گیا،دادی غم سے بستر سے جا لگی،اماں،ابا پاگلوں کی طرح ڈھونڈتے رہے،اےک روز بارش تھی رات کے سمے وہ اچانک آگیا،سب اس کو حیرت سے دیکھتے رہے،پوچھتے رہے۔دادی کے قریب آکر وہ دادی سے لپٹ گیا۔
دادی کے سینے پر سر رکھ کر روتا رہا،دادی کے اس کے مٹی دھول سے اس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیر کر بخار کی خالت میں انتہائی کمزوری سے اُکھڑتی سانسوں سے پوچھا؟ تھک گئے ہو؟
آو¿ لوری سناﺅں اور لوری سناتے سناتے دونوں سو گئے۔اگلی صبح ذرا تازہ دم ہوا دادی میں بھی جانے کہاں سے طاقت آگئی اور اس کے لئے ناشتہ بنایا،اسے نہانے کو کہا اور صاف کپڑے نکالے۔جب وہ تازہ دم ہو کر ناشتہ کرنے لگا تو دادی نے پیار سے پوچھا کہ کہاں چلے گئے تھے۔
اس نے کہا دادی دوستوں نے کہا گھر سے اجازت نہ ملے گی۔چلو زیارت چلتے ہیں واپس آکر گھر والوں کو بتا دیں گے،ہم تین دوست گئے تھے،معاف کرنا آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔مجھے افسوس ہے کہ آپ کو ان دنوں سخت تشویش رہی اور آپ بیمار بھی ہو گئیں۔
دادی نے اس کے بیان پر کچھ نہ کہا،بس چہرے پر پڑی جھُریوں میں اک آدھ جھُریوں کا اضافہ فکر کی لائن بن پر اُبھرا اور وہیں ٹھہر گیا۔
دن گذرتے چلے گئے۔دادی کی لوری اور ٹکی،ٹافی اس کی زندگی لازمی حصّہ بنے،ساتھ ساتھ چلتے رہے،جن دنوں یہ غائب ہوا تھا تو دادی نے بتایا کہ میں نے ٹکی،ٹافی لینی نہیں چھوڑی ،معمول کے مطابق لیتی رہتی تھی،دیکھ تو کتنی ساری جمع ہوگئیں۔پھر دادی نے لفافہ دکھایا،تو ڈھیر ساری ٹافیاں دیکھ کر وہ ہنس پڑا تھا۔
دادی نے کہا میں روز ڈبل ٹافیاں لیتی ۔ روز باہر بچوں کو بھی دیتی اور اللہ سے دعا کرتی تو خیریت سے لوٹ آئے اب یہ دوسو روپے کی ٹافیاں الگ رکھی ہیں جا باہر جا کر اپنے ہاتھوں سے بچوں میں بانٹ آ ۔
اتنے میں بجلی آ گئی اور کمرے میں ٹی وی پر چلتی خبروں کے شور نے اسے یادوں سے کھینچ باہر نکالا ۔
بے ہنگم ایمبولینس کے ہارن اور پولیس کی گاڑیوں کے شور میں خبروں کے نمائندے بم کی جگہ دکھا رہے تھے ۔کچھ چینل نقصان زدہ گاڑیوں کے کلوزاپ لے رہے تھے کچھ جاں بحق اور زخمیوں کا بتا رہے تھے کافی تعداد میں ہلاکت کے باعث آیندہ دو روز تک سوگ میں دفاتر ، تعلیمی ادارے بند ہونے کا اعلان ہوا ۔
اس نے جلدی جلدی چینل بدلے ایک جیسی خبریں دیکھ کر ُاکتا کرآواز بند کردی اتنے میں روز آنے والے نے آ کے کھانا اُسے پہنچایا اور چلا گیا۔یہ دو کمروں پر مشتمل گھر اس کے اپنے گھر کے پچھواڑے دو گلی چھوڑ کر تھا مگر کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ یہاں پر ہے۔
اس نے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اچانک آواز بند ٹی وی پر ایک خبر دیکھ کرآواز بلند کی ۔تو اک نیوز رپورٹر ہسپتال میں زخمیوں کے انٹرویو لے رہی تھی تو اچانک بولی یہ ایک ڈیڈباڈی ہے اس کی مٹھی میں ٹکی ٹافیاں ہیں جو مرتے دم اس نے سختی سے بھنیچ لی تھیں ۔یہ بدنصیب بھی کسی کے لیے ٹافیاں خریدنے آئی تھی کوئی بوڑھی خاتوں ہیں۔ بہت افسوس کی بات ہے۔ بم بلاسٹ کرنے والے بے قصور لوگوں کے مارتے وقت ذرا بھی احساس نہیں کرتے کہ ان بزرگوں کا کیا قصور؟؟؟؟؟ یہ کہہ کر وہ ایک بچے کی لاش پرایسی ہی باتیں کہنے لگی عجیب درد ناک منظرتھا اس کے کھانے کی طرف بڑھتے ہاتھ رک گئے کمرے میں چاروں طرف لوری کی آواز بلند ہونے لگی اتنی بلند ، اتنی بلندکہ چیخوں اور سسکیوں میں بدل گئی ۔وہ بھی زور زور سے چیخنے لگا بال نوچنے لگا اور تیوراکر گر پڑااور بے ہوش ہو گیا ۔
اگلی روز صبح چہ میگوئیاں ہورہیں تھیں کسی نے دروازہ توڑا تو اس کی لاش برآمد ہوئی لاوارث جان کر ہسپتال اس کی لاش لے جا رہے تھے کہ ابا نے قریبی دوکان سے دہی لیتے ہوئے دوکان دار سے پوچھا کہ کیا ہوا ؟
کوئی اکیلا پردیسی نوجوان تھا رات کمرے میں گیس بھرنے سے دم گھٹ کر ہلاک ہوگیا دوکاندار نے بتایا۔
ابا جو پہلے ہی دادی کے فوت ہوجانے پر رنجیدہ تھے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے پاس سے گذرتی ایمبولینس کو دیکھ کر گھر چلے گے۔ ایمبولینس کے دروازے کے قریب اس کا نیلا رومال گر پڑا تھا اس کی لاش اٹھا کر جب ایمبولینس میں ڈال رہے تھے تب اس کی جیب سے گرا تھا۔
اس کے جنازے پر ہسپتال کے چند افراد تھے کلمہ شہادت کی آواز کے ساتھ لوری کی واضح آواز میں وہ دفن ہوگیا۔ اگر لوری کی آواز ساتھ نہ ہوتی تو اُسے آج رات دائمی نیند کیسے آتی؟؟؟؟؟؟؟

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے