ولا دیمیر نامی ٹاﺅن میں ایک آئیون دیمیترج ایکسی نوف ف نامی تاجر رہتا تھا۔
وہ دو دکانوں اور ایک گھر کا مالک تھا۔ ایکسی نوف ایک خوش شکل ، خوبصورت بالوں اور خمیدہ سی وضع کے سر کا مالک تھا۔ خوش باش اور گانے بجانے کا شوقین آدمی ۔ جب نوجوانی کے آغاز میں وہ شراب پینے لگا تھا تو کبھی زیادہ نشے کے عالم میں ہنگامہ بھی کر بیٹھتا تھا۔ لیکن شادی کے بعد اُس نے شراب سے رغبت بہت کم کردی تھی اور صرف کبھی کبھار ہی اُس کو منہ سے لگاتا تھا۔
ایک موسمِ گرما میں ایکسی نوف ، نزہینی نام کے میلے میں شرکت کے لےے جانے کے لےے اپنے گھر کے افراد کو خدا حافظ کہہ کر جانے لگا تو اُس کی بیوی نے اُس سے کہا : ’ آئیون دیمیترج ۔ تم آج نہ جاﺅ ، کیوں کہ میں نے تمہارے بارے میں بہت خراب خواب دیکھا تھا‘۔
ایکسی نے یہ سن کر ہنس کر جواب دیا : ” تم کو شاید خوف ہے کہ میں وہاں پہنچ کر پھر شراب پی کر موج مستی کرنے لگوں گا؟“۔
اس کی بیوی نے جواب دیا : ”مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ مجھے کیا خوف ہے ۔ لیکن میں اتنا جانتی ہوں کہ میں نے ایک خراب سا خواب دیکھا تھا۔ وہ یہ تھا کہ جب تم ٹاﺅن سے گھر واپس آئے اور تم نے اپنی ٹوپی اتاری تو میں نے دیکھا کہ تمہارے بال بھورے رنگ کے ہوگئے ہیں“۔
ایکسی نے اس پر قہقہہ لگایا اور کہنے لگا ۔ یہ تو بڑا اچھا شگون ہے ۔ لگتا ہے کہ میں اپنا سارا سامان میلے میں فروخت کر ڈالوں گا اور وہاں سے کوئی اچھا سا تحفہ تمہارے لےے بھی لاﺅں گا‘۔
اس طرح اُس نے گھر والوں کو خدا حافظ کہا اوراپنی گھوڑا گاڑی پر سفر پر چل پڑا۔
جب وہ آدھی مسافت طے کر چکا تو اس کی ایک تاجر سے ملاقات ہوئی، جس کو وہ پہلے سے جانتا تھا اور دونوں نے رات کو ایک ہی سرائے میں قیام کیا۔ دونوں نے ایک ساتھ چائے پی اور اس کے بعد برابر برابر والے اپنے کمروں میں سونے کے لےے چلے گئے۔
ایکسی نوف کی دیر تک سونے کی عادت نہیں تھی اور پھر اس کی خواہش بھی یہی تھی کہ ٹھنڈے، ٹھنڈے ہی سفر جاری رکھا جائے۔ اس لےے اس نے صبح ہونے سے پہلے ہی اپنی گاڑی بان کو اٹھا دیا اور اس کو ضروری تیاری کے بعد گھوڑوں کو گاڑی سے جوتنے کی ہدایت کردی۔
اس کے بعد اس نے سرائے کے مالک ( جو سرائے کے پیچھے ہی ایک کاٹیج میں رہتا تھا ) کے پاس جا کر اس کو اپنے قیام کے تمام اخراجات ادا کردےے اور اس طرح وہ ایک بار پھر سفر پر چل پڑا۔
جب وہ پچیس میل دور پہنچا ہوگا تو اس کو اپنے گھوڑوں کو چارہ دینے کے لےے رکنا پڑا۔ ایکسی نوف نے اس دوران ایک دوسری سرائے کی راہداری میں آرام کیا۔ پھر وہ ڈیوڑھی میں پہنچ گیا اور سماو ار کو گرم کرنے کی ہدایت دینے کے بعد اپنے گٹار کو نکال کر بجانے لگا۔
اچانک اس کو ایک تین گھوڑوں والی گاڑی کی گھنٹیوں کی آواز سنائی دی اور اس میں سے ایک سرکاری اہلکار اپنے پیچھے دو سپاہی لےے ہوئے نمودار ہوا۔ وہ ایکسی نوف کے پاس آ پہنچا اور اس سے سوالات پوچھنے لگا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے ۔ ایکسی نوف کے نے پورے طور پر اپنے بارے میں تفصیل بتائی اور اخلاقاً اس سے بولا : ’ میرے ساتھ چائے نہیں پیئیں گے آپ؟‘۔
لیکن اہلکار بدستور اس سے تفتیشی انداز میں سوالات کرتا رہا۔ ’تم نے اس تاجر سے آج صبح کے بعد بھی ملاقات کی ہے ؟ اور تم نے صبح ہونے سے پہلے ہی وہ سرائے کیوں چھوڑی تھی؟‘۔
ایکسی نوف کو تعجب ہورہا تھا کہ وہ اس قسم کے سوالات اس سے کیوں کررہا ہے ۔ لیکن پھر بھی وہ سفر کے دوران جو کچھ اس نے دیکھا، یا کیا تھا، اُس کی تفصیل سچائی سے بتاتا رہا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے پوچھا۔ ’ آپ مجھ سے اس طرح کی تفتیش کیوں کررہے ہیں، جس طرح کہ کسی چور، ڈاکو کے ساتھ کی جاتی ہے ۔ میں اپنے کاروبار کے سلسلے میں سفر پر ہوں اور اس لےے اس قسم کے مجھ سے سوالات کرنے کی آپ کو کیوں ضرورت پڑ رہی ہے؟‘۔
اس پر سرکاری اہلکار نے اپنے سپاہیوں کو اپنے قریب آنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا : ’ میں اس ڈسٹرکٹ کا پولس افسرہوں۔ اور میں اس لےے تم سے جرح کررہا ہوں کہ جس تاجر کے ساتھ تم نے رات بھر کی تھی ، وہ اپنا گلا کاٹ دےے جانے کی وجہ سے مردہ حالت میں پایا گیا ہے ۔ اس لےے ہمیں تمہارے سامان کی تلاشی لینی ہے‘۔
چنانچہ سرائے میں داخل ہونے والے سپاہیوں اور پولیس افسر نے ایکسی نوف کا سارا سامان کھول لیا اور اس کی تلاشی لینی شروع کردی۔ پھراچانک افسر نے اس کے ایک تھیلے سے ایک چاقو کھینچ کر نکالا اور درشت آواز میں چیخ کر بولا:’ یہ کس کا چاقو ہے ؟‘۔
ایکسی نوف نے خون کے دھبوں سے آلودہ اس چاقو کو دیکھا تو خوف کے مارے اس کے ہوش اڑ گئے۔
’ اس چاقو پر خون کے دھبے کہاں سے آئے ہیں؟‘۔
ایکسی نے افسر کے سوال کا جواب دینا چاہا لیکن ایک لفظ بھی اس کے منہ سے نہیں نکل رہا تھا۔ پھر بڑی مشکل سے ہکلانے کے انداز میں وہ صرف یہ کہہ سکا :’ میں …….. مجھے نہیں…….. معلوم …….. میرا نہیں یہ ‘
اس پر پولیس افسر بولا:’ جیسا کہ میں نے تمہیں بتایا ، آج صبح وہ تاجر اپنے بستر پر مردہ پایا گیا ہے۔ گلاکٹی ہوئی حالت میں ۔ لگتا ہے کہ تم ہی وہ شخص ہو ، جس نے یہ کام کیا ہے ۔سرائے اندر سے بندتھی اور وہاں تمہارے علاوہ اس وقت کوئی نہیں تھا۔ اور تمہارے بیگ میں سے یہ خون کے دھبوں والا چاقو بھی نکلا ہے۔ اس کے علاوہ تمہارے چہرے اور حرکات سے بھی جرم کا احساس ہورہا ہے۔ اس لےے صاف بتادو کہ تم نے کس طرح اس کو قتل کیا اور کتنی رقم تم نے اس سے چرائی؟‘۔
ایکسی نوف نے قسمیں کھائیں کہ اس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے اور یہ کہ اس نے اس کے ساتھ چائے پینے کے بعد اُس کو دیکھا تک نہیں تھا ۔ اور اس کے پاس اپنے آٹھ ہزار روبلز کے سوا کچھ نہیں۔ اور یہ کہ چاقو اس کا نہیں۔ لیکن یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھرارہی تھی۔ اور اس کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا اور وہ خوف سے اسی طرح بری طرح کانپ رہا تھا کہ جیسے حقیقت میں وہ کوئی مجرم ہی ہو۔
پولیس افسر نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ایکسی نوف کورسیوں سے باندھ کر گھوڑا گاڑی میں سوا رکردیا جائے۔ چنانچہ جس وقت اس کے پاﺅں ایک دوسرے سے باندھ کر اس کو گاڑی میں پھینکا گیا تو الیکسی نوف گڑی ، مڑی ہوکر زارو قطار رونے لگا ۔ اس کا سامان اور اس کی رقم اس سے چھین لی گئی اور اس کو قریب ترین قانونی قید خانے میں بند کردیا گیا ۔ اس دوران ولا دیمیر ٹاﺅن سے اس کے چال چلن کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں۔ اس ٹاﺅن کے تاجروں اور دوسرے رہنے والوں نے تصدیق کی کہ ماضی میں وہ کثرت سے شراب پیتا اور اپنا وقت برباد کرتا تھا۔ لیکن اب بہر حال وہ بہت اچھا انسان تھا۔ عدالت میں اس پر مقدمہ شروع ہوا۔ اس پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس نے ریاضاں نامی مقام کے ایک تاجر کو قتل کیا تھا۔ اور اس کے بیس ہزار روبلز لوٹ لےے تھے۔
اس کی بیوی سخت پریشانی میں مبتلا ہوگئی۔ اس کے بچے ابھی چھوٹے، چھوٹے ہی تھے۔ایک تو ابھی تک دودھ پیتا تھا۔وہ اپنے ان تمام بچوں کو لے کر ایک دن اسی ٹاﺅن میں پہنچ گئی، جہاں جیل میں اس کا خاوند بند تھا۔پہلے تو بے چاری کو اس سے ملنے ہی نہیں دیا گیا ، لیکن پھر بہت منتوں ، سماجتوں کے بعد وہ سرکاری افسروں کی طرف سے اس سے ملنے کی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اور یوں اس کو اپنے خاوند کے پاس لے جایا گیا۔ لیکن جب اس نے اسے قیدیوں کے لباس اور زنجیروں میں دیکھا تو وہ صدمے سے بے ہوش ہوکر گرپڑی اور کافی دیر تک ہوش میں نہیں آئی۔ پھر جب و ہ ہوش میں آئی تو اپنے بچوں کو سمیٹ کر اپنے شوہر کے پاس آبیٹھی اور اس سے پوچھنے لگی کہ اس کے ساتھ یہ کیا ماجرا ہوا ہے اس نے پورے واقعات بیوی کو بتائے، جنہیں سن کر اس نے پوچھا کہ ، ہم لوگ اب کیا کرسکتے ہیں؟‘۔
’ ہم کو اب بادشاہ سلامت زار کو ایک درخواست دینی چاہےے ، جس میں اس سے التجا کی جائے کہ ایک بے گناہ آدمی کو سزائے موت سے بچانے کے وہ احکامات جاری کرے‘۔
اس پر بیوی نے جواب دیا کہ اس نے یہ درخواست پہلے ہی زار کو دی تھی ، لیکن وہ منظور نہیں ہوئی۔
ایکسی نوف یہ سن کر کوئی جواب دینے کے قابل نہ تھا، کیوں کہ اس کے چہرے پر حد درجے ملال کے اثرات ابھر آئے تھے۔
پھر اس کی بیوی گویا ہوئی: ’ میں نے تمہارے گھر سے چلتے وقت ایسے ہی نہیں کہا تھا کہ میں نے خواب دیکھا تھا کہ تمہارے بال بھورے ہوگئے ہیں۔ یاد ہے نا تم کو ؟ تم کو اس دن روا نہ ہی نہیں ہونا تھا۔ ” پھر اُس نے اپنے شوہر کے بالوں میں ہاتھ پھیرے ہوئے پوچھا :’ پیارے وانیا ۔ اپنی بیوی سے تو سچ کہو کہ کیا تم نے یہ جرم نہیں کیا تھا؟‘۔
’ اس کا مطلب ہے کہ تم بھی مجھ پر شک کررہی ہو !‘ یہ کہہ کر ایکسی نوف نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں لے کر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا۔ اسی دوران ایک سپاہی اس حکم کے ساتھ آگیا کہ ان کی ملاقات کا وقت ختم ہوگیا ہے ۔ اور بیوی بچوں کو اب چلے جانا چاہےے۔ چنانچہ ایکسی نوف نے اپنی فیملی کو خدا حافظ کہہ دیا۔
جب وہ لوگ چلے گئے تو ایکسی نوف کو رہ رہ کر تھوڑی دیر پہلے کی تمام باتیں یاد آنے لگیں۔ خاص کر اس کی بیوی کا اس سے وہ سوال کہ جس سے ظاہر ہوتاتھا کہ اس کو بھی اس کے مجرم ہونے کا شبہ ہے۔ اس نے دل میں کہنا شروع کیا : ’ اس کا مطلب ہے کہ حقیقت کا علم صرف خدا کو ہوتا ہے اور اس لےے صرف اسی سے ہم فریاد کیا کریں اور اس سے ہی رحم و انصاف کے طالب ہوں‘۔
اس کے بعد بہر حال ایکسی نوف نے کئی درخواستیں حکام بالا کو دیں ، لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ چنانچہ اس نے امید کا دامن چھوڑ دیا اور صرف خدا کے آگے گڑگڑاتا رہا۔
پھر ہوا یہ کہ ایکسی نوف کو موت کی سزا تو نہیں ہوئی، لیکن کوڑوں کے علاوہ اس کو سائبیریا بھیجے جانے کی سزا ضرور ہوئی۔ چنانچہ کوفناک کوڑے لگانے کے بعد اس کو دیگر مجرموں کے ساتھ سائبیریا روانہ کردیا گیا۔
اس طرح چھبیس سال ایکسی نوف مجرم کی حیثیت میں سائبیریا میں رہا ۔ اس کے بال برف کے گالوں کی طرح سفید پڑ گئے اور اس کی داڑھی بھی لمبوتری اور بھورے سے رنگ کی ہوگئی۔ اس کے چہرے کی تمام رونق پھیکی پڑ گئی اور اس کی کمر بھی جھک گئی ۔ اس کے چلنے کی رفتار میں دھیما پن آگیا، اور بہت کم اسے بولتا ہوا دیکھا جانے لگا ۔ ہنسی تو اس کے چہرے سے جیسے ہمیشہ کے لےے رخصت ہوگئی تھی ۔ لیکن خدا کی عبادت میں وہ اکثر مصروف رہتا تھا۔
یہاں قید خانے میں رہتے ہوئے ایکسی نوف نے جوتے بنانے سیکھ لےے تھے ، جس سے اس کو کچھ آمدنی ہونے لگی تھی ، اتنی کہ وہ ” اللہ کے ولی‘ نامی کتاب خریدنے کے قابل ہوگیا۔ جب کبھی بھی قید خانے میں اس کو کافی روشنی ملتی تو وہ اس کے اسباق پڑھتا ، اور اتوار کی چھٹیوں میں وہ جیل خانے میں بنے ہوئے چرچ میں جا کر اس اسباق کو پڑھنے کے علاوہ دوسروں کے ساتھ مل کر مناجات گاتا ، کیوں کہ اس کی آواز میں ابھی تک جان تھی۔
جیل کے حکام ایکسی نوف کی انکساری اور فرماں برداری سے بہت متاثر تھے ۔ اور اس کے مجرم ساتھی بھی اس حد تک اُس کی عزت کرتے تھے کہ اس کو ” دادا ابّا‘ اور ’ اللہ کا ولی‘ تک کے نام سے پکارتے تھے ۔ جب کبھی ان کو جیل کے حکام کے آگے اپنی شکایات پیش کرنے کی ضرورت ہوتھی تھی تو وہ ایکسی نوف کو ہی بات چیت میں اپنا نمائندہ بناتے ۔ اور جب قیدیوں میں آپس میں جھگڑے، فساد ہوجاتے تو وہ اس کے پاس بگڑی ہوئی صورت حال کو سنبھالنے اور کسی بھی تنازعے کا فیصلہ کرنے کے لےے اسی کو منصف بناتے۔
اس دوران ایکسی نوف کو اپنے گھر کی کوئی اطلاع نہیں ملی اور اس کو یہ بھی علم نہیں ہوا کہ اس کے بیوی، بچے ابھی تک زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
ایک دن جیل میں کچھ مجرموں کی نئی ٹولیاں داخل ہوئیں۔ چنانچہ شام کو پرانے سزا یافتہ لوگ نئے لوگوںکے گرد جمع ہوگئے اور وہ ان کے اور ان کے شہروں، گاﺅں کے ناموں کے ساتھ ان کے جرائم کی تفصیل معلوم کرنے لگا۔ دوسرے پرانے قیدیوں کے ساتھ ایکسی نوف بھی ان جیل کے باسیوں کے قریب بیٹھا ہوا تھا اور اپنی نیچی نظریں کےے ہوئے ان لوگوں کی باتیں سن رہا تھا۔
اس دوران ایک تقریباً ساٹھ سال کی عمر کا لمبا تگڑا ، اچھی طرح تراشی ہوئی داڑھی والا آدمی سب کو اپنے جرم کی داستان سنا رہا تھا۔
دوستو! میں نے ایک گھوڑا کھولا تھا، جو ایک برف گاڑی سے بندھا ہوا تھا۔ اسی لےے مجھے اس کی چوری کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ۔ میں نے کہا بھی کہ مجھے گھر پہنچنا بہت ضروری تھا اور یہ کہ میرا ارادہ تھا کہ وہاں پہنچتے ہی اس گھوڑے کو آزاد کردوں گا۔ اور پھر کو چوان ویسے بھی میرا ذاتی دوست بھی تھا۔ اس لےے میں نے جو کچھ کیا، وہ جرم نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے جواب دیا :’ نہیں۔ تم نے اس کو چراہا تھا۔ لیکن میں نے گھوڑے کو کہاں سے چرایا تھا، اس کا ان کو خود بھی علم نہ تھا۔ لیکن ایک بار تو میں نے واقعی جرم کیا تھا اور قانون کی گرفت میں آتا تو کہیں پہلے میں یہاں آگیا ہوتا۔ لیکن کوئی بھی میرے جرم کا پتہ نہ چلا سکا اور نہ مجھے پکڑا سکا ۔ لیکن اب ایک معمولی بات پر دھرلیا گیا ہوں۔ لیکن یہ سب کچھ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں پہلے بھی اس سائبیریا میں بھیجا جاچکا ہوں۔ لیکن زیادہ عرصہ یہاں نہیں ٹھہرا‘۔
’ تمہارا تعلق کہاں سے ہے ؟ ، کسی نے اس سے سوال کیا۔
’ ولا دیمیر سے ۔ میرے پورے خاندان کا تعلق بھی اسی ٹاﺅن سے ہے۔ میرا نام ما کر ہے اور مجھے سیمیﺅنچ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے‘۔
’ یہ سن کر ایکسی نوف نے اپنا سرا ٹھایا اور گویا ہوا :’ سیمیﺅنچ ۔ کیا تم ولادیمیر کے تاجر ایکسی نوف کے گھرانے کے بارے میں بھی جانتے ہو؟ یہ لوگ اب زندہ بھی ہیں؟‘
’ جانتے ہو ؟ ارے ان کو تو میں اچھی طرح جانتا ہوں ۔ یہ ایکسی نوف لوگ توبڑے دولت مند ہیں۔ حالانکہ لگتا ہے کہ اُن کا سربراہ ایکسی نوف ہماری طرح کا مجرم و گہنگار ہونے کی وجہ سے سائبیریا بھیجا گیا تھا!۔ اور دادا ابّا آپ کا یہاں کیسے آنا ہوا؟‘۔
ایکسی نوف اپنی بدقسمتی کی روداداس سے بیان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لےے صرف ٹھنڈی سانس بھر کے اس نے جواب دیا۔
’میرے اپنے گناہوں کی وجہ سے میں چھبیس سال سے قید بھگت رہا ہوں‘۔
’ کون سے گناہ ؟‘ ماکر سیمیﺅنچ نے تفصیل بیان کرنے پر اصرار کیا۔
لیکن ایکسی نوف نے اس کو ٹالتے ہوئے جواب دیا ۔’ کیا کہوں ۔ بس سمجھو کہ میں سزا کے قابل ہی تھا! ‘ اس سے آگے اس کا کچھ کہنے کا ارادہ نہ تھا، لیکن اس کے پرانے ساتھیوں نے اپنے نئے ساتھیوں کو بتاہی دیا کہ ایکسی نوف کی سائبیریا میں سزا کاٹنے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے ایک تاجر کو قتل کردیا تھا اور اپنے بیگ کی چیزوں میں سے آلہ قتل یعنی چاقو برآمد ہونے کی وجہ سے وہ پکڑا گیا تھا۔ لیکن اس سارے معاملے میں وہ بالکل بے گناہ تھا اور قاتل کوئی اور شخص تھا، جس نے قتل کرنے کے بعد یہ چاقو اس کے بیگ میں چھپا دیا تھا، جس کی وجہ سے یہ بدقسمت انسان ناانصافی کے ہاتھوں بھینٹ چڑھ گیا۔
جب ماکر سیمیﺅنچ نے یہ سب کچھ سنا تو اس نے ایکسی نوف کو گھور کے دیکھااور اپنے گھنٹوں پر زور سے ہاتھ مار کے چیخ کر بولا:
’ارے ۔ یہ تو بڑی حیرت کی بات ہے ! بڑی حیرت کی بات ! لیکن تم کتنے بوڑھے ہوگئے ہو اس عرصے میں دادا ابّا!‘۔
دوسرے لوگوں نے اس سے دریافت کیا کہ اس کو آخری اتنی حیرت کیوں ہورہی ہے اور یہ کہ اس نے ایکسی نوف کو اس سے پہلے کہاں دیکھا تھا ؟ لیکن ماکر سیمیﺅنچ نے ان سوالات کا جواب نہیں دیا۔ اس نے بس یہ کہا : ؛ بڑی ہی حیرت اور خوشی کی بات ہے کہ ہم دونوں کی پرانے شناساﺅں کی اس طرح اتفاقاً ملاقات ہوگئی ہے، میرے ساتھیو!‘۔
اس کے ان الفاظ سے ایکسی نوف کو گمان ہوا کہ شاید یہ آدمی جانتا ہو کہ تاجر کا قتل کس نے کیا تھا۔ اس لےے اس نے دریافت کیا : سیمیﺅنچ شاید تم نے اس واقعے کے بارے میں پہلے سے سن رکھا ہوگا۔ یا تم نے مجھے اس سے پہلے کہیں دیکھا ہوگا؟‘۔
’ میں اس بارے میں کس طرح سننے سے محروم رہ سکتا تھا؟ ۔دنیا ہمیشہ سے افواہوں سے بھری رہتی ہے۔ لیکن کافی عرصہ بیت چکا ہے اور مجھے اس کی تفصیل اب بالکل یاد نہیں ۔ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے تم کو کہاں دیکھا تھا‘۔
’ شاید تم نے سنا ہوگا کہ تاجر کو کس نے قتل کیا تھا؟‘
ماکر سیمیﺅنچ نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور کہنے لگا :’ یہ وہی شخص ہوسکتا ہے، جس کے بیگ سے یہ چاقو نکلا تھا! اگر کسی دوسرے شخض نے اس چاقو کو اس کے بیگ میں چھپایا تھا تو جیسا کہ قانونی طور پر کہا جاتا ہے ، چور اسی وقت چور کہا جاسکتا ہے ، جب وہ چوری کرتے ہوئے پکڑا جائے‘۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ اس بیگ کو اپنے سر کا تکیہ بنائے سورہے ہوں، تو کوئی آپ کو جگائے بغیر کیسے اس بیگ میں چاقو رکھ سکتاہے ؟‘
جب ایکسی نوف نے یہ الفاظ سنے تو اس کو یقین ہوگیا کہ یہی شخص ہے ، جس نے تاجر کا قتل کیا تھا۔ اب یہ ہے کون ، خود اس کو یاد نہیں پڑ رہا تھا۔ بہر حال، مزید بات کےے بغیر وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ پھر وہ پوری رات سو نہیں سکا۔ وہ شدید غم کی کیفیت میں مبتلا رہا اور اس کے دماغ میں ہر طرح کے عجیب و غریب تصورات بری طرح گردش کرتے رہے۔ اس کے ذہن میں بیوی کا تصور تھا، اس ہوبہو حلےے میں، جو اس کے میلے کو روانہ ہوتے وقت تھی، اس کو محسوس ہوا کہ اس لمحے وہ اس کے پاس موجود ہے ۔ اور وہ اس کے چہرے اور آنکھوں کو اپنی جانب مرکوز دیکھ رہا ہے۔ اس کی باتیں سن رہا ہے ، اس کو ہنستے ہوئے دیکھ رہا ہے ۔ پھر اس کو اپنے بچے تصور میں نظر آئے۔ بالکل ننھے۔منے ، جو اس وقت تھے۔ایک کے اوپر چھوٹا سا لبادہ ہے۔ دوسرا اپنی ماں کے سینے سے چمٹا ہو ، دودھ پی رہا ہے۔ پھر اس کو خود اپنا بھی ان دنوں کا تصور یاد آیا۔ ایک نوجوان آدمی۔ خوشیوں سے سر شار ۔ اس کو وہ دن بھی یاد آیا ، جب وہ سرائے کی پورچ میں اپنا گٹار بجا رہا تھا ۔ اور اسی وقت اس کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اور اس طرح وہ اس سے پہلے کے اپنے تمام آرام و سکون سے ہمیشہ کے لےے محروم ہوگیا۔ پھر اس کے ذہن میں اس جگہ کا درد ناک منظر بھی آیا، جب بڑی بے رحمی سے اس پر کوڑے برسائے گئے۔ جلاد کے چہرے کے علاوہ جمِ غفیر لوگوں کے چہرے بھی اس کی نظروں کے سامنے تھے، جو زنجیر میں بندھے ہوئے مجرموں، جس میں وہ بھی شامل تھا، کوڑا برسائی کا منظر دیکھ رہے تھے۔پھر اس کے تصور میں قید خانے کی چھبیس سالہ زندگی تھی، جس میں وہ وقت سے کہیں پہلے بوڑھا ہوگیا تھا۔ ان تمام بھیانک تصورات کے شدید کرب کی وجہ سے اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس وقت خودکشی کرلے۔
’ اور مجھ پر یہ سب عذاب اس ولیئن کی کارستانی کی وجہ سے آیا ہے ‘۔ ایکسی نوف کو رہ رہ کر یہ بھی خیال آرہا تھا ۔ اور اس کے دل میں ماکر سیمیﺅنچ پر اس کا غصہ اس قدر شدید نوعیت کاہوگیا تھا کہ اس نے اس سے انتقام لینے کا ارادہ کرلیا ، چاہے اس میں اس کی جان بھی چلی جائے۔ اس نے رات بھر خدا کی عبادت بھی کی،لیکن ذہنی سکون اس کو نہ مل سکا۔ دن کو وہ نہ تو ما کر سیمیﺅنچ کے قریب بھٹکا اور نہ ہی اس کی طرف نظر دوڑانے کی اس نے زحمت کی۔
اسی طرح پندرہ دن گذر گئے۔ ایکسی نوف کو نہ تو راتوں کونیند آتی تھی اور نہ ہی ذہنی خلجان میں کوئی تدبیر سوجھتی تھی کہ وہ کیا کرے۔
ایک رات جب وہ جیل خانے کے چکّر لگا رہا تھا تو اس کو قیدیوں کے سونے کے کیبنوں میں سے ایک میں سے کچھ مٹی لڑھک کر باہر آتی ہوئی نظر آئی۔ وہ یہ دیکھنے کے لےے کہ یہ کیا چیز ہے ، اپنی جگہ کھڑا ہوگیا۔ اچانک اس نے دیکھا کہ ماکر سیمیﺅنچ کیبن کے نیچے سے کھسکتا ہوا باہر نکلا ہے۔ایکسی نوف نے اس پر نظریں ڈالے بغیر وہاں سے جانا چاہا ۔ لیکن ما کر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگا کہ اس نے دیوا رمیں کھدائی کرکے ایک سوراخ بنا لیا ہے اور اس عمل میں نکلنے والی مٹی کو مسلسل اپنے لمبے لمبے بوٹوں کے اندر بھر کے اس سڑک پر خالی بھی کردیا ہے ، جس پر قیدیوں کو کام پر لگایا گیا تھا۔
’ بڑے میاں۔ بس چپ رہنا ۔ تم کو بھی فرار ہونے کا موقع دوں گا۔ اگر تم یہ راز کسی پر اگلوگے تو مجھے اتنے کوڑے لگائے جائیں گے کہ میرا دم نکل جائے گا۔ لیکن اس سے پہلے میں تمہیں ختم کردوں گا ‘۔
ایکسی نوف یہ سن کر اپنے دشمن کی طرف دیکھ کر غصے سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ اپنے اس دشمن کے ہاتھ سے چھڑایا اور کہنے لگا :’ میرا یہاں سے فرار ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اور تم کو میرے قتل کرنے کی بھی ضرورت نہےں، کیوں کہ تم مجھے برسوں پہلے ہی قتل کرچکے ہو! اور جیسا کہ تم کہہ رہے ہو۔ میں اس پر عمل کروں گا یا نہیں، اس کا فیصلہ خدا تعالیٰ کرے گا‘۔
دوسرے دن جب قیدیوں کو کام پر لے جایا گیا تو کانوائے کے سپاہیوں نے دیکھا کہ کسی قیدی نے اپنے بوٹوں کے اندر کی مٹی سڑک پر خالی کی ہے۔ چنانچہ پورے جیل خانے کا فوری طور پر معائنہ کیا گیا۔ اور فرار ی سرنگ دریافت کرلی گئی۔ اس کی اطلاع پر فوراً گورنر بھی آگئے اور تمام قیدیوں سے پوچھ گچھ شروع کی گئی کہ یہ سوراخ دیوار میں کس نے بنایا ہے ۔ سب نے ہی اس سلسلے میں لا علمی کا اظہار کیا۔ اگر کسی کو معلوم بھی تھا تو وہ ماکر سیمیﺅنچ کا نام بتانے پر تیار نہیں ہوا، کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ اس کو اتنے کوڑوں کی سزا ملے گی کہ وہ شاید زندہ نہ رہ سکے گا۔ آخر میں گورنر نے ایکسی نوف کا رخ کیا، جس کو وہ ایک نڈر اور سچے آدمی کے طور پر جانتا تھا۔
’ تم ایک قابل ِ اعتبار شخص ہو۔ خدا کو حاضر و ناظر جان کر بتاﺅ کہ دیوا رپر سوراخ کس نے کیا ہے؟‘۔
ماکر سیمیﺅنچ اس دوران اس طرح بے تعلق سا کھڑا تھا کہ جیسے اسے کچھ بھی فکر نہ ہو۔ اس کی نظریں اس وقت گورنر کی طرف جمی ہوئی تھیں ۔ اور ایکسی نوف کی طرف تو وہ محض کبھی کبھار ہی ترچھی نظروں سے دیکھ لیتا تھا۔ اس وقت ایکسی نوف کے ہونٹ اور ہاتھ کانپ رہے تھے اور کافی دیر تک اس کے منہ سے کچھ نہ نکل سکا۔ وہ اس دوران سوچ رہا تھا:’ میں اس کی پردہ پوشی کیوں کروں ، جس نے میری زندگی تباہ کردی ہے؟ اس نے مجھ کو جو جسمانی اور روحانی آزار دیا ہے ، اس کا بدلہ تو اس کو ضرور ملنا چاہےے۔ لیکن اگر میں سچائی سے اس کا نام لے دوں گا تو شاید وہ اس پر کوڑے برسا کر اس کی جان لے لیں گے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ درحقیقت تاجر کا قاتل ہی نہ ہو اور میں اس پر ناحق شبہ کررہا ہوں۔ پھر حقیقت کچھ بھی ہو، سچ بولنے سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟‘۔
’ بڑے صاحب۔ خاموش کیوں ہو۔ مجھے سچ سچ بتا دو کہ کس نے دیوا رمیں کھدائی کرکے سوراخ بنایا ہے ؟‘ گورنر نے سوال دہرایا۔
’ ایکسی نوف نے ما کر سیمیﺅنچ کو اچٹتی نظروں سے دیکھا اور پھر کہنا شروع کیا ۔’ عالی مرتبت۔ میں اس بارے میں کھ بھی نہیں کہہ سکتا ہوں ۔یہ خدا کی مرضی ہے کہ میں اس سلسلے میں کچھ نہ بولوں !آپ کو اختیار ہے کہ میرے ساتھ کوئی بھی سلوک کریں۔ میں آپ کے شکنجے میں ہوں‘۔
اس کے بعد گورنر نے ہر ممکن کوشش کرڈالی، لیکن ایکسی نوف ٹَس سے مَس نہ ہو ا اور خاموشی اختیار کےے رہا۔ چنانچہ معاملہ وہیں کے وہیں ر ہ گیا۔
اس رات جب ایکسی نوف اپنے بستر پر لیٹ کر سونے کی تیاری کرہی رہا تھا کہ کوئی دبے پاﺅں آیا اور خاموشی سے اس کے پاس بستر پر بیٹھ گیا۔ ایکسی نوف نے اندھیرے میں ہی بڑے غور سے دیکھا تو اس کو پتہ چل گیا کہ وہ ما کر ہی ہے!
’ اب اس سے زیادہ مجھ سے تم کیا چاہتے ہو؟‘ ایکسی نوف نے دریافت کیا ۔ ’ تم اب میرے پاس کیوں آئے ہو؟‘۔
ماکر سیمیﺅنچ خاموش رہا ۔ اس لےے ایکسی نوف خود ہی بستر پر بیٹھ گیا اور پھر کہنے لگا ۔’ میں پوچھتا ہوں کہ اب تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ یہاں سے فوراً چلے جاﺅ، ورنہ میں گارڈ کو بلاتا ہوں؟‘
ماکر سیمیﺅنچ قریب ہو کر ایکسی نوف کے اوپر جھک گیا اور سرگوشیوں میں بولا : ’ آئیون دیمیترج ۔ مجھے معاف کردو!‘۔
’ کس وجہ سے ؟ ‘ ایکسی نوف نے پوچھا۔
’ یہ میں ہی تھا ، جس نے تاجر کو قتل کیا تھا اور میں نے ہی قتل کے بعد اپنا چاقو تمہارے بیگ کے سامان میں چھپا دیا تھا۔ دراصل میں تمہیں بھی قتل کرنا چاہتا تھا، لیکن میں نے باہر کچھ شور سنا۔ اس لےے بس جلدی میں یہ چاقو تمہارے بیگ میں چھپا کر کھڑکی سے کود کر فرارہوگیا‘۔
ایکسی نوف سن کر خامو ش رہا ، کیوں کہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے ۔ ما کر سیمیﺅنچ اب بیڈ شیلف سے اتر کر فرش پر آکر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا تھا ، یہ کہتے ہوئے :’ معاف کردو مجھے آئیون دیمیترج ، معاف کردو! خدا سے اگر لگاﺅ ہے تو اس کی ہی خاطر مجھے معاف کردو! میں اقرار کرلوں گا کہ میں نے ہی تاجر کو قتل کیا تھا۔ اس طرح تم کو رہائی مل جائے گای اور تم اپنے گھر کو لوٹ کر جاسکتے ہو‘۔
’ تمہارا یہ کہنا تو آسان ہے ‘۔ ایکسی نوف بولا۔ ’ لیکن میں نے تمہاری وجہ سے چھبیس سال اتنے پہاڑ جیسے دکھ جھیلے ہیں ۔اور اب میں کہاں جاسکتا ہوں؟ ۔ میری بیوی کا انتقال ہوچکا ہے اور میرے بچے بھی مجھے یکسر بھلا چکے ہیں۔ اب میرے جانے کی کہیں بھی تو جگہ نہیں ہے‘۔
ماکر سیمیﺅنچ نے اس دوران فرش سے کھڑے ہونے کی بجائے اس پر اپنا سردے مارنا شروع کردیا۔’ آئیون دیمیترج مجھے معاف کردو !‘ وہ چیختا رہا۔ ’ انہوںنے ہیبت ناک کوڑے میرے اوپر مارے تھے تواس وقت مجھے اتنے ناقابلِ برداشت نہیں محسوس ہوئے تھے ، جتنے کہ آج ہوسکتے تھے ۔ لیکن اس کے باوجود تم نے مجھ پر رحم کھایا اور میرا نام نہیں لیا۔ یسوع مسیح کی قسم، مجھے معاف کردو۔ معاف کردو۔ میری اب پچھتاوے کی اذیت سے بہت بری حالت ہے!، یہ کہہ کر وہ پھوٹ، پھوٹ کر رونے لگا۔
جب ایکسی نوف نے اس کے رونے کی آواز سنی تو وہ بھی سسکیاں لینے لگا۔
’ خدا تم کو معاف کرے گا!‘اس نے اس دوران کہنا شروع کیا ۔’ حالانکہ ہوسکتا ہے کہ میری حالت تم سے بھی سو گنا زیادہ خراب ہورہی ہو‘۔ اور ان الفاظ کے ساتھ ہی ایکسی نوف نے محسوس کیا کہ اس کے دل کا تمام غبار نکل چکا ہے اور اس کو اپنے گھر واپس جانے کی رہی سہی بھی کوئی تمنا نہیں رہی ہے۔ بلکہ اس کی جگہ اس خواہش نے لے لی ہے کہ وہ اس قید خانے میں ہی رہے ۔ اور امید کرتا رہے کہ اس کے آخری دن جلد ہی آجائیں گے۔
ادھر ایکسی نوف کے موجودہ حالات میں اس کو ایک طرح سے بے سود عمل قرار دینے کے باوجود ما کر سیمیﺅنچ نے اپنے قتل کے جرم کا اقرار کرلیا ۔ لیکن جس وقت تک ایکسی نوف کی رہائی کے احکامات آتے ، اس وقت تک وہ اس دنیا سے کوچ کر چکا تھا۔