سمو مست توکلی کی محبوبہ تھی۔ مست کے عشق اور اس کی شاعری نے سمو کو چار چودہار مشہور کردیا۔ مگر یہ نام ویسے بھی بلوچوں میں ایک مقبولِ عام نام ہے ۔ میں اس نام کا لفظی مطلب ڈھونڈنے نکلا۔ اس کا مطلب ظہور شاہ ہاشمی نے اپنی ڈکشنری میں ”ملوک ، شرفدار،خانوادہ ، نازک، اچھا “لکھا ہے ۔ غنی پرواز کے خیال میں سمو کا مطلب ہے جور، یعنی زہر۔ نیز سمل، سایہ دار درختوں پر لگی پھلی کو بھی کہتے ہیںجو کہ سرسبزی ،خوشحالی اور سیر سالی کی علامت ہوتی ہے۔مگر جن عام بلو چوں سے میں نے اس نام کا مطلب پوچھا،وہ ایک لمحے کو توگہری سوچ میں پڑ کر ارشمیدس بن جاتے ،ا ور اس کے بعدبڑی ہزیمت کے احساس کے ساتھ اپنی لا علمی مان لیتے ۔ مگر اس کے باوجود ہزاروں بچیوں کے نام ”سمّی“ ہیں۔
مست نے اپنی شاعری میں اپنی سمو کو سمی ، سمو ، اور سمل جیسے پیار کے ناموں سے بھی پکارا ہے ۔ بلوچ، توکلی کی سمو کے کرامت بھرے نام کے آخر میںےا تو ”مائی “کا لفظ لگا کر اُسے تکریم دیتے ہیں، یا پھر سمو ، اِس انداز میں کہتے ہیں کہ خود اس لفظ کے تلفظ سے احترام ، ادب اور عقیدت کے جذبات ٹپکتے محسوس ہوتے ہیں۔
مست کی سمّو کا سن پیدائش اور سنِ وفات نامعلوم ہیں۔بلوچوں میں ویسے ہی سالگرہ اور ہیپی برتھ ڈے نہیں ہوتا، نہ مرد کا، نہ عورت کا۔کوئی جشن کوئی میلہ اس حوالے سے موجود نہیں رہا۔ ( پنجابیوں سندھیوں پشتونوں میں بھی نہیں ہوتا)۔لہٰذا نہ سمو کی تاریخ پیدائش معلوم ہے اور نہ ہی توکلی مست کی۔( اور یہ کتنی اچھی بات ہے۔ عرس ، اگربتی سے خدا نے اِن کی جان چھڑائی )۔
سمّو، بلوچوں کے مری قبیلے میں کلوانڑیں شاخ سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ قبیلہ آبادی کے لحاظ سے مری کا سب سے بڑاقبیلہ ہے اور اسی قبیلے کے تصرف میں مری کے علاقے کا سب سے بڑا رقبہ بھی ہے ۔ اونچے قد والے، گورے چٹے اور موٹی آنکھوں والے کلوانڑیں۔یہ لوگ مری قبیلے میں غالباً سب سے خوبصورت لوگ ہیں ۔ یہ لوگ مویشی پالتے ہیں اور زیادہ تردریائے بیجی کے کناروں میں کاشت کاری کرتے ہیں ۔دیگر قبائل کی طرح مری قبیلے کا یہ ذیلی فرقہ بھی بہت ڈسپلن والا ہے۔
سمو کے والد کا نام ”بشکیا“ تھا (بخشا ہوا، نجات یافتہ)۔ سمو کے ایک بھائی کا نام بھی معلوم ہو سکا ہے ، ”دلمراد“ ۔بس، ہماراعلم یہیں تک۔ان دوکے علاوہ سمو کے دیگر عزیزوں رشتہ داروں کے بارے میں ہم کچھ بھی معلوم نہ کرسکے۔
یہ کلوانڑیں خاتون،مری کے ایک اور ذیلی فرقے”پروئی“ میں دلّازئی سجوانڑیں طائفے میں بیورغ نامی ایک شخص کے ساتھ بیاہی گئی تھی ۔ یہ جاننا مشکل ہے کہ محبت کی اس دیوی کالب کیا تھا ۔ اورنہ ہی یہ معلوم ہو سکا ہے کہ اس کے لب کی رقم بیورغ نے نقد اداکی تھی یا پھروہ مال مویشی کے عوض‘ پرائے گھر روانہ کی گئی تھی ۔مست کی شاعری میں شاید لب کا تصورموجود نہیں ہے ۔تو کیامری قبیلے میںدوسوبرس قبل”لب “ موجود نہیں تھا ؟۔
کیا یہ قبیح رواج یہ بعد میں آیا؟۔
پروئی کے بارے میں یہ بتادوں کہ تعداد کے اعتبار سے یہ کوئی بہت بڑی شاخ نہیں ہے ۔ اپنے دیگر ہم قبیلہ مریوں کی طرح یہ لوگ بھی بھیڑ پال معیشت سے وابستہ ہیں اور خشک آبہ کی کاشتکاری بھی کرتے ہیں ۔ ان کا علاقہ ماوند سے 30-25 میل مشرق کی جانب ہے ۔سچی بات یہ ہے کہ اس قبیلے میں خواہ جتنا مشہورومعرو ف انسان پیدا ہو، سمو جتنا بڑا نہیں ہو سکتا؟۔ اسی لیے ازل تک پروئی ،محترمہ سمو ہی کی وجہ سے جانا جاتا رہے گا ۔ اور پروئی ہی کیوں؟ ۔ سارامری قبیلہ اسی ہستی کی وجہ سے پہچانے جانے کے قابل ہوا ۔ میں ، میرا دادا شادیھان ، میرے بزرگ بلوچان ، میرے محترم بہار خان ، عمر خان ، میرا ماوند، میرے تدڑی ، رسترانی ،میرا دودا ، میراگزین، میرا جمال خان لیغاری ، ۔۔۔۔۔میرا نصیر خان نوری۔۔۔۔ سب سمو کے حوالے ہی تو ہیں ۔
واضح رہے کہ توکلی کو،مستیں توکلی بنانے والی سمو، کے اپنے بارے میں ہماری تقریباً ساری معلومات حبیبِ سمو،مست ہی کے توسط سے ہیں۔ یوں سمجھو سمو ، مست کی عکس ِ ہنر ہے۔
ایک اور بات پہ بھی توجہ رہے کہ جس وقت مست کی سمو سے جان پہچان ہوئی اُس وقت سمو اپنے والدین کے گھر میں کوئی اَن بیاہی دو شیزہ نہ تھی۔ وہ تو اُس وقت ایک شادی شدہ، گھر بار والی خاتون تھی۔ روایتیںسمو اوربیورغ کا ایک بیٹابھی بتاتی ہیں جو لڑکپن میں ہی مر گیا ۔ کہتے ہیں کہ ان کی دو بیٹیاں سندھ میں محنت کش مریوں میں بیاہی ہوئی تھیں۔ مگر جب خود سمو کے بارے میں معلومات نہیں ہیں تو اُس کی اولاد وغیرہ کے بارے میں کیا معلومات ہوں گی۔
سمو انیسویں صدی کی بلوچ عورت تھی۔ وہ کیا کرتی تھی، کس طرح زندگی گزارتی تھی…….. بھئی جیسی آج کی بلوچ عورت ہے ۔بلوچ عورت تو دو صدیوں بعد بھی اپنی اسی زندگانی میں جی رہی ہے ۔ لوگو،سمو اب تک چرواہا ہی ہے ۔جی ہاں، مرشد سمو کو دو سو برس گزر گئے مگراب بھی اُس کی رعیت کا بڑا حصہ مال مویشی چراتی ہے ۔ انہیں پینے کا صاف پانی گھر میں نصیب نہیں اور وہ اب بھی دور دراز فاصلوں سے گندہ اورکیڑوںاورجراثیم آلود پانی مشکیزوں ، گھڑوں ، بالٹیوں میں سر پر رکھ کر ڈھو کر لاتی ہیں ۔ آج بھی ”سمو کی قوم “ کی اکثریت پاپوش سے محروم ہے اور ننگے پیر بھیڑ بکریوں کے پیچھے ٹھوکریں کھاتی رہتی ہے ۔سیاہی سیاہ کاری، لب و فروخت ، غیرت و پابندی کی اسیر سمو کی یہ رعایا کسی ایسے نجات دہندہ مست کی منتظر ہے جو اپنی بڑی او ر منظم عوامی مدد سے مساوات اور عدل پہ مبنی معاشرہ قائم کرے ۔ سمو کی رعیت کے گلے میں اب بھی کوئی ” برگڑی “ نہیں ہے۔ اُس کی ناک میں سونے کی ” پُلڑی“ اب بھی نہیں ہے۔ اُس کے سر پہ ” چنڑی“ اور پاﺅں میں ” جتڑی“ نہیں ہے۔ یہ سب علامتی خواہشیں مست اور اس کے پیروکاروں کے دل میں ہیں۔ یہ سمو کی رعیت کو آزادی دلانے والی تحریک کا ابھی محض منشور ہیں۔
ٍ مست توکلی کی محبت میں بندھ کر سمو کا مقام ایک عام عورت کا نہ رہا۔ توکلی بھی پھر عام توکلی نہ رہا۔وہ ”سمو بیلی“ بن گیا۔ ابتدائی دس بارہ برسوں کے لڑکپن کے جوانی میں ڈھلنے کے بعد اُن دونوں کی آئندہ زندگی انفرادی زندگی کے بجائے اُن کی مشترک داستان بن گئی۔ اس لےے ہم آئندہ کی قسطوں اور صفحوں پہ اس باہم ضم شدہ ” واحد“ زندگی کو بیان کرتے رہےں گے۔