شوکت محمود شوکت کادوسرا شعری مجموعہ —- ایک فکری و فنی شاہکار
”رقصِ شرر“۔۔۔پروفیسر شوکت محمود شوکت کا دوسراشعری مجموعہ ہے جوحال ہی میں منصہ شہود پر آیا۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ”زخمِ خنداں“ 2003ءمیں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ ”زخم خنداں“ کی اشاعت کے بعدگیارہ سال پر محیط، شوکت محمود شوکت کے فکری و فنی ارتقا کا جائزہ لیا جائے تو ”رقصِ شرر“ میں پہلے سے کہیں زیادہ پختگی اور بالیدگی دکھائی دیتی ہے ۔ان کے ہاں عمیق اور بسیط نوعیت کا احساس سپاس گزاری پایا جاتا ہے جو عبدیت کی عمدہ دلیل ہے۔ ان کے افکار کی تطہیر کا اور تصوف و معرفت کی طرف رجحان کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ”زخم خنداں“ کا منظوم انتساب نبی کریمﷺ کے نام تھا جب کہ ”رقص شرر“ کامنظوم انتساب اللہ تعالیٰ کے نام ہے۔ یعنی وہ معرفت کے سفر کو منزل در منزل طے کر رہے ہیں:
ترا پاک نام لے کر میں جو کام کر رہا ہوں
اسے منتسب خدایا ترے نام کر رہا ہوں
تری یاد کے سہارے مرے دن گزر رہے ہیں
یوں ہی صبح ہو رہی ہے یوں ہی شام کر رہا ہوں
معرفت کے سفر میں عشق رسولﷺ بھی ایک تلازمہ ہے جس کے بغیر منزل کا حصول ناممکن ہے۔ خدا کی محبوب ہستی سے پیار کیے بغیر اس کا پیار حاصل نہیں ہوسکتا۔ عشق چاہے خدا سے، نبیسے یا ولی سے یا جس ذات سے بھی ہو جائے، عشق گہری احتیاط اور ادب و احترام کا تقاضا کرتا ہے۔نعت گوئی کا فن اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے۔ کیوں کہ شاعری صرف مرصع لفظوں، مترنم ردائف اور مسجع تراکیب کا گورکھ دھندا نہیں بلکہ تخیل کی پرواز، جذبے کی سچائی اور احساس کی گہرائی سے عبارت ہے، جس کی ضرورت دوسری اصناف سخن کے برعکس نعت میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ نعت شاعر سے تخیل کی صداقت، جذبے کی پاکیزگی، احساس کی شدت اور بیان کی تاثیر کے ساتھ ساتھ دلِ گداختہ کا بھی تقاضا کرتی ہے۔ شوکت محمود شوکت نعت کے حوالے سے ایک معتبر نام کے ساتھ ابھرے ہیں۔”رقصِ شرر“ میں پانچ نعتیں شامل ہیں جن کا معیار رسمی نعتوں سے بلند اور ارفع ہے :
دیکھا ہے کیف و وجد وہ ذکر رسول میں
عالم تمام حلقہ دامِ اثر میں ہے
عشقِ رسول باعث تنظیم ہست و بود
عشقِ رسول جلوہ نما بحرو بر میں ہے
دیارِدل میں جو تیرا خیال دیکھتا ہوں
فراق و ہجر میں لطف ِ وصال دیکھتا ہوں
”رقص شرر“ میں دو سلام بحضور امامؑ عالی مقام شامل ہیں۔ ”نذر حسینؑ“ غزل کی طرز پر ہے جب کہ دوسرے کا انداز مخمس ہے جس کا ٹیپ کا مصرعہ عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے:
حسینؑ رب کا برگزیدہ، حسین ؑ زندہ ہے، معتبر ہے
شوکت محمود شوکت غالب اور اقبال کو اپنا روحانی پیشوا مانتے ہیں۔ اسی حوالے سے انہوں نے ”نذرغالب“ اور”نذر اقبال“ میںبھرپور انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔”رقصِ شرر“ میںشامل نظمیں موضوعاتی اور فکری لحاظ سے منفرد ہیں۔ اُن کی نظمیں ”سال نو مبارک، صاحب نظر، عدوئے جاں، اعادہ، مشورہ، ویران ساعتیں، السلام اے میری ماں“ اس بیان کی دلیل ہیں۔ان کی شاعری میں موضوعات قدرے بولتے نظر آتے ہیں۔وہ لفظوں سے مصوری کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کے استعارے بڑے واضح اور خیال ابلاغ کی بھرپور صلاحیت لئے ہوئے ہیں۔ ”رقص شرر“ میںایک بھی نظم تجریدی یا قاری کے سر کے اوپر سے گزر جانے والی نہیں ۔ ”رقصِ شرر“ میں شامل نظم ”ویران ساعتیں“ اکتوبر2005ءمیں آنے والے زلزلے کے تناظر میں لکھی گئی۔ یہ نظم پروفیسر بشیر احمد سوز نے اپنی کتاب ”روتی ہیں ہوائیں“ میں بھی شامل کی۔ان کی ایک اور نظم ”استغفار“ کربل نجف پر حملے کے تناظر میں لکھی گئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ شوکت محمود شوکت اپنے اطراف سے صرفِ نظر کے قائل نہیں:
فضائے شہرِ کربل کا مقدر آتش و آہن
خدا نا کردہ ہوجائے نجف مسمار، استغفار
شوکت محمود شوکت نے کئی اصناف سخن میں خامہ فرسائی کی ہے لیکن غزل ان کا مستقل حوالہ ہے۔ ”رقصِ شرر“ میں شامل غزلیات کے بین السطور سب سے بڑا وصف یہ دکھائی دیتا ہے کہ شدید فکری، ذہنی اور اعصابی تناﺅ کی فضا ہوتے ہوئے بھی موضوع، مواد، ہیئت، فطرت پرستی اور فکری و فنی پختگی کا روحانی نظام قائم رہتا ہے۔عام طور پر اردو غزل شاعر کے اندر ہی کی طرف گرتی ہے لیکن شوکت محمود شوکت نے خارجی مظاہر سے جو تشخص اپنی غزلوں سے برآمد کیا ہے وہ داخل اور خارج کے غیر منقسم نقطہءتقسیم کا ایک قبول ترین عمل ہے۔چوں کہ شاعر ایک پیکرِاحساس ہوتا ہے وہ اپنے فکری و فنی ادراکات کا مکمل شعور رکھتے ہوئے کبھی اپنے اطراف سے چشم پوشی کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ شوکت محمود شوکت بھی سماجی نارسائیوں اور ناہمواریوں سے صرفِ نظر نہیں کرتے جس کے شواہد ان کی غزلوں میں جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں:
سلا دیتی ہے جو غیرت کو شوکت
کبھی ایسی ضرورت جاگتی ہے
غریب شہر کا سردی سے شوکت
دسمبر میں ٹھٹھرنا جرم ٹھہرا
شوکت محمود شوکت کے کلام میں سماجی رویّوںکے ساتھ ساتھ سماجی کرب بھی فکر انگیز اور درد انگیز انداز میں پایا جاتا ہے۔ ان کے کلام میں ایک ہمہ گیری اور پہلوداری پائی جاتی ہے۔ ان کے خیالات آفاقیت کا مظہر ہےں۔ انہوں نے اپنی غزل کے ایک شعر میں ایک روائتی المیے کو یوں روائتی انداز میں بیان کیا ہے:
عجب اک دور شوکت آگیا ہے
میرا بچہ مجھے سمجھا رہا ہے
سماج کے سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھانا بھی خردمندی کی دلیل ہے۔ اس سے اس امر کی صراحت ہوتی ہے کہ شوکت محمود شوکت انسانی نفسیات کا عمیق ادراک رکھتے ہیں۔ وہ اطاعتوں میں بھی بغاوتوں کے رنگ مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان کا اظہار فطری نوعیت کا ہے:
ہم سے امیرِ شہر کا ہوگا نہ کچھ لحاظ
ہم سے کرے وہ بات ذرا منہ سنبھال کے
ہر ایک بات پہ قسمیں کسی نے کھائیں مگر
یقین مجھ کو کسی بات پر نہیں آیا
تصوف کا اثر شوکت محمود شوکت کی شاعری پر نمایاں طور پر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ دبستان منصور سے گہری عقیدت رکھتے ہیں۔ہمہ اوست کا فلسفہ ان کے کئی اشعارسے مترشح ہے۔ کہیں کہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ملامتیہ فرقے سے تعلق رکھتے ہیں:
مسلکِ عشق ہے کیا؟ راہ طریقت کیا ہے؟
فکرِ منصور ہے کیا؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟
منصبِ عشق و جنوں پر ہیں وہ فائز شوکت
جن کو معلوم نہیں سنگِ ملامت کیا ہے؟
شوکت محمود شوکت کا اسلوب جگہ جگہ اپنی بہار دکھاتا نظر آتا ہے۔ جہاں فکری تقاضے پورے ہو رہے ہیں وہاں فنی امور کی پاسداری بھی اپنے کروفر کے ساتھ قابل مشاہدہ ہے۔عصر حاضر میںجب شعرا سہل پسندی کا شکار ہورہے ہیں یا مغرب کی تقلید کارفرما ہے جس کے تناظر میں آزاد نظم فروغ پا رہی ہے، ایسے میں شوکت محمود شوکت نے خود پر اضانی پابندیاں لگاتے ہوئے ایسے فن کا مظاہرہ کیا جو بڑے بڑے اساتذہ کے کلام میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ ان کی ایک غزل کے چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ ہوں جس میں انہوں نے دو قوافی اور دو ردائف کا اس خوبصورتی سے استعمال کیا کہ حسنِ تغزل کوکسی طور مجروح نہیں ہونے دیا:
ہم کو ہمارے پیار کی نادانیاں بہت
اجڑے ہوئے دیار کی نادانیاں بہت
ہر سمت حسن یار کے جلووں کی شکل میں
ہیں عمر ِ مستعار کی حیرانیاں بہت
اس کے علاوہ ایک نعت اور غزل میں دوہرا قافیہ برتا ہے:
میرا خیال تھا اس کو بھلا دیا جائے
صدائے دل تھی نہ یہ فیصلہ کیا جائے
یادجب مجھ کو مدینے کا سفر آتا ہے
چین کس طور مر ا دردِ جگر پاتا ہے
ان کے دربار میں حالت یہ خطا کار کی ہے
لفظ لرزاں ہیں، قلم عجز سے تھرّاتا ہے
یہ اشعار جس نعت سے لیے گئے ہیں اس میں شوکت محمود شوکت نے نہ صرف دوہرا قافیہ برتا بل کہ کچھ اشعار میں قافیہ کو تحلیل کرکے ردیف میں استعمال کیا ہے۔ اوپر دیے گئے آخری مصرعے میںشوکت محمود شوکت نے ایک لفظ ”تھرّاتا“ سے دو قوافی کا کام لیا ہے۔شوکت محمود شوکت صنعت تضاد، تجنیس، اور لف و نشر کا استعمال کرنے سے بھی گریز نہیںکرتے۔ اس شعر میں صنعت تضاد کا استعمال ملاحظہ ہو:
کرتا ہوں رقص درد کی لے پر اسی طرح
جوشِ جنوں میں آج بھی تیرا خیال ہے
صنعت تجنیس کا استعمال:
مری گندم کی ہر بالی، مٹائے بھوک آنکھوں کی
کسی کا ہاتھ نہ پہنچے کبھی کانوں کی بالی تک
صنعت لف و نشر:
سنے سب طنز یاروں کے، رقیبوں کے سنے طعنے
تری چاہت میں مجھ سے مہرباں، نا مہرباں الجھا
اگر ٹی۔ایس۔ایلیٹ کی اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ ”عظیم شاعری روایت سے جڑی ہوتی ہے“ تو ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیںکہ جس سخن ور کا روایت سے کوئی تعلق نہیں اورجس کے افکار و خیالات بنیاد سے محروم ہیں تو وہ فطری شاعر نہیں کیوں کہ روایت کسی بھی سخن ور کے کلام میں فطری طور پر رچی بسی ہوتی ہے۔ شوکت محمود شوکت ایک روایت پسند شاعر ہیں۔انہوں نے اردو غزل کا روائتی انداز بہت دل کش انداز میں برتا ہے۔ ان کے کلام پر قدیم اساتذہ کاروائتی رنگ غالب نظر آتا ہے:
کبھی الجھا نہ تھا ظالم جو الجھا تو کہاں الجھا
تری زلفوں کے پیچ و خم میں قلب ناتواں الجھا
ادھر بھٹکا، ادھر بھٹکا، یہاں الجھا، وہاں الجھا
بہ یادِ رفتگاں میرا تخیل رائگاں الجھا
روایت کا اثر کیوں نہ ہو، وہ بیعت میر کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
بیعت میر پہلے کی شوکت
شعر گوئی کو تب شعار کیا
القصہ، ”رقصِ شرر“ فکری و فنی حوالے سے ایک ایسا شاہکار ہے جو شوکت محمود شوکت کو تخلیقی سفر میں ایسی ابدیت عطا کر جائے گاجو عصرِ حاضر کے بہت سے بازار کے بھاﺅ چلنے والے شعرا کا مقدر نہیں۔