نیک دل، نیک خیال شخص عمر کے کسی حصے میں ہو وہ اپنی معصومیت سے دلوں کو موہ لیتا ہے اور اس سے ایک ہی ملاقات برسوں کے یارانہ کا پتہ دیتی ہے۔ افغانستان نژاد بلوچ ادیب عبدالستار پردلی بھی ایک ایسی شخصیت ہیں جو بچوں کی طرح میٹھی زبان بولتے ہیں جو اپنی ذات میں بلوچی ادب کا پورا جہاں آباد کےے ہوئے ہیں۔
اسے اپنے آپ سے اپنے خاندان سے محبت ہے۔ اس لےے وہ سب سے محبت کرتے ہیں۔ بلوچی زبان کا یہ ادیب افغانستان کے حالات پر آنسو بہاتا ہے ۔ بلوچوں کی محرومیوں پر کھولتا ہے۔زبانوں سے بے غرض تعلق پر بے تھکان بولتا ہے ۔ دنیا جہاں کے مظلوم انسانوں سے ہمدردی رکھتا ہے ۔ اس کی یک رنگی گلاب کی طرح خوشبودار ہے ۔ تتلی جیسے نازک وجود میں حصہ دار ہے ۔ انسانوں کی بے ترتیب ہجوم میں نامدار ہے ۔ ایک بہترین انسان کے طرح لچکدار ہے خلوص پر مقرر تقسیم کار ہے ۔
ابھی حال ہی میں کوئٹہ میں منعقدہ میر گل خان نصیر بین الاقوامی کانفرنس میں ایران ، تاجکستان، جاپان، افریقہ و دیگر ممالک کے علاوہ ملک و بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے آنے والے مختلف زبانوں کے نامور ادباءو شعراءکے کاروان میں شریک اس مندوب کے ساتھ ایک غیر رسمی نشست ہوئی جس میں ڈاکٹر شاہ محمد مری اور راقم الحروف نے ان سے زبان و ادب کے حوالے سے گفتگو کی۔ بعد میں ڈاکٹر سلیم کرد ، سعید کرد اوراخبار تلار کے ایڈیٹر عبدالرزاق ابابکی بھی ملاقات کی غرض سے آنے پر شریک گفتگو ہوئے۔ اس دوران انہوں نے بتایا کہ میں کافی عرصے کے بعد ایک سنجیدہ سیمینار میں شرکت پر بے حد خوش ہوں۔ کاش اس روایت کی تاریخ تسلسل کے ساتھ پرانی ہوتی ۔ بہر حال موجودہ صوبائی حکومت کا یہ کارنامہ قابل تعریف ہے ۔ اور وہ اقوام خوش نصیب ہیں جنہیں میر گل خان نصیر جیسی شخصیت کے نام جمع ہونے کا موقع ملتا ہے ۔ ترتیب و تربیت بڑے لوگوں کا خاصا ہوتا ہے ۔ بڑے لوگوں کی غیر موجودگی سے قومیں بے ترتیب اور تربیت سے محروم رہتی ہیں۔ میر گل خان نصیر مظلوم و محکوم اقوام کے لےے مشتعل راہ ہیں۔ انسانی جنگ و قتال کو روکنے کے لےے ادبی مباحث سے انکار ممکن نہیں ۔ اس تعلق کا سہارا پہلے سے کہیں زیادہ ناگزیر ہے اور انسانی بقاءکے لےے ہر قسم کی دراندازی سے اجتناب ہی میں قوموں کو عافیت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ اس وقت افغانستان کی موجودہ حکومت اقوام اور ان کی زبانوں کی قدر دانی میں مثالی کردار ادا کررہی ہے ۔ افغانستان کی 30لاکھ بلوچوں کی سرزمین سے گہری وابستگی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ شعر و ادب پر کسی قسم کی پابندی نہیں۔ بلوچی زبان و ادب کے فروغ میں وہاں کی سرکار سنجیدہ ہے۔ قوموں کے استحصال کی ابتداءہی ان کے وجود سے انکار سے ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں زبانوں کے ادب اور ثقافت کے فروغ کو اہمیت دی جارہی ہے ۔ جہاں ایسا نہیں وہاں بے شمار مسائل جنم لے رہے ہےں اور وہاں استحصالی نظام کو تقویت مل رہی ہے جس وجہ سے ناانصافی اور بدامنی جیسے معاملات گھمبیر صورتحال اختیار کررہے ہےں ۔ اور ایسا پسماندہ ممالک میں ہی ہورہا ہے جس کا سد باب نا گزیر ہے۔ بلوچستان کی موجودگی صوبائی حکومت کی میر گل خان نصیر اور یہاں کی زبانوں کے لےے مثبت پالیسی قابل تقلید ہے اگر اس ڈگر پر پورا ملک چل پڑے تو علمی استقامت کے ساتھ ساتھ احترام آدمیت میں پیدا شدہ خلل کا ازالہ ہوسکے گا۔
ستار پردلی جو بلوچی ، فارسی اور پشتو ادب میں اس مقام پر فائیز ہیں جس پر ایک مخلص انسان اور ادیب کو سننے کا حوصلہ چاہےے اور اس کے تجربات ، مشاہدات اور کام کو پذیرائی ملنی چاہےے۔ اسی تناظر میں انہوں نے عبداللہ جان جمالدینی کو حوالہ بناتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے اردگرد زندہ بڑی شخصیات کا احترام کرنا چاہےے اور ان کو ان کی زندگیوں میں علم و ادب کے لےے قربانیوں کا محبتوں کی صورت میں صلہ ملنا چاہےے۔ انہوں نے باتوں باتوں میںخطے میں موجودہ شورشوں پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ۔ ہم نے دوبارہ انہیں بلوچی زبان و ادب پر گفتگو کے لےے کہا ۔ انہوں نے کہا کہ سرزمین سے محبت کا فلسفہ کوئی ہم سے سیکھے۔ ہم جہاں رہتے ہیں اخلاص کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس بات کا اعتراف افغان حکومت کرتی ہے جبھی وہ بلوچی اور براہوئی بولنے والے بلوچ قوم کے ساتھ محبت کا جذبہ رکھتے ہیں۔اسی طرح عرب امارات و دیگر ممالک میں آباد بلوچوں نے محبت، جانفشانی اور خلوص سے زندگی گزارنے پر انہیں اپنا گرویدہ بنا لیا ہے ۔ ایران اور پاکستان میں ان کی حیثیت اور حقوق نے انہیں استحصالی طبقوں کے خلاف آواز اٹھانے پرمجبور کردیا ہے ۔ البتہ اب پاکستانی عوام اور میڈیا اس بات کا برملا اظہار بھی کررہے ہےں کہ بلوچوںکے ساتھ ماضی میں بڑا ظلم ہوا ہے اللہ کرے ایران کے ارباب اختیار کو بھی ہوش آئے اور وہ انسانی حقوق کا احترام کریں تاکہ خطے میں امن و آشتی ہو۔ اور یہ بات بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ قوموں کے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ نہیں کیا جاسکتا ۔ بلوچ قوم کا اتحاد ہی اس کا تہذیبی حسن ہے۔ جو دیگر اقوام کے لےے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں پاکستان کے ترقی پسند ادیبوں نے اہم کردار ادا کیا ۔ اگر اس تسلسل کو قائم و دائم رکھا جاتا تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ بھائی بھائی کا دشمن نہ ہوتا۔غیر انسانی افعال کا کسی کو سامنا نہ کرنا پڑتا ۔ خطے میں گریٹ گیم کھیلنے کی گنجائش نہ ہوتی۔ اب بھی وقت ہے کہ گمراہی کی راہ پر چلنے والوں کا محاسبہ کیا جائے اس کے لےے ادب کا سہارا لیا جائے۔ معصوم ذہنوں پر طاری خوف کو کم کرنے کے لےے تفریح کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کےے جائیں۔ امن کے گیت لکھے جائیں ۔ قلم اور کتاب دوستی کو اولیت دی جائے۔
اس کے اگلے روز بلوچی ڈیپارٹمنٹ بلوچستان یونیورسٹی کے میر گل خان نصیر چیئر کی جانب سے عبداللہ جان جمالدینی کو لائف اچیو منٹ ایوارڈ دینے کی تقریب منعقد ہوئی جس میں میر گل خان نصیر سیمینار میں شریک ملکی و غیر ملکی دانشوروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ان کی علالت کی وجہ سے یہ تقریب ان کے گھر پر منعقد کی گئی ۔انہوں نے اس موقع پر ماما عبداللہ جان جمالدینی کی بلوچی و براہوئی زبانوں کے لےے خدمات کو سراہا ۔ ان کی صحت یابی کے لےے دعا بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ میر عبداللہ جان جمالدینی امن و آشتی کے پیامبر کے طور پر ایک زندہ مثال ہیں۔ انہوں نے نہ صرف بلوچ ادیبوں کو زندگی بھر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے رکھا بلکہ دیگر زبانوں کے ادب کی حوصلہ افزائی کی اور تمام ادیبوں کو محبت اور امن کی بالادستی کے لےے ایک ساتھ رکھا ۔ جن کی بیٹھک آج تک ایسے افراد سے ہمیشہ بھری رہتی ہے جو ایک خوبصورت زندگی کا خواب لے کر اس کی تعبیر کی جستجو میں مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں محبت اور امن کے اس استعارہ کی پیروی ہر بلوچ فرزند کا فرض ہے ۔ انہوں نے کہا دنیا میں جہاں جہاں بلوچ آباد ہیں وہ میر گل خان نصیر اور عبداللہ جان جمالدینی سمیت ان تمام ادیبوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جو بلوچی زبانوں کے ذریعے ادب کی ترقی و ترویج کو مقدم جانتے ہیں۔ اور ثابت قدمی سے جھوٹ اور ریاکاری کا مقابلہ کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اسلاف کی قربانیاں ضائع ہوتے نظر نہیں آتیں۔ بلوچی ادب کا مستقبل تابناک ہے۔ بلوچی انداز فکر میں انسانی ترقی اور انسانی اقدار کے استحکام کا پیغام ہر دورمیں زندہ و تابندہ رہا ہے۔
اس تقریب میں بلوچی براہوئی علاوہ دیگر مہمانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔