یہ اُس انوکھے اور منفرد قبیلہ کا آخری فرد تھا جو 8دسمبر2014 کی سرد صبح کے وقت سندھ کے بیابان میں سو گیا اور صدیوں کی سیاسی ، علمی اور نظریاتی ذہانت اپنے وجود کے اوراق میں لپیٹ کر لاڑکانہ کے شمشان گھاٹ میں روشن ہوگیا۔ وہ اپنی 95 سالہ زندگی میں ” روشنی کے سفر“ میں ہی رہا۔
اس کا قبیلہبے حد کم افراد پر مشتمل تھا جو آہستہ آہستہ وداع ہوتے رہے ۔ ان میں حیدر بخش جتوئی، جی ایم سید، کامریڈ غلام محمد لغاری اور قاضی فیض محمد کے نام شامل ہیں۔ یہ تمام لوگ جزیرہ سندھ میں پیدا ہوئے اور دریائے سندھ کے سینہ پر رہتے ہوئے اپنے اپنے انداز کے بیڑے بنا کر سیاسی سمندر میں چپّو چلائے ، خطرات سے بھرپور سفر کو بڑی ہمت سے طے کیا تھا۔
اس قبیلہ کے آخری فرد کا نام ”سوبھراج“ تھا جسے تمام دنیا کے لوگ ، علم و ادب اور سیاست اور مارکسی فکر سے منسلک لوگ ” سوبھوگیانچندانی“ کے نام سے جانتے تھے۔
میں اس عظیم انسان کے گاﺅں کا بھی تھا اور اس کی شفقت کی چھایا میں ہم دھوپ سے بچے ہوتے تھے۔ کامریڈ سوبھوگیانچندانی کو وہ موسم ملا، جواب سندھ میں موت کا موسم سمجھا جاتا ہے۔ جس میں13 دسمبر کو سندھی زبان کے بہترین شاعر تاجل بیوس ، 14 دسمبر کو بہترین افسانہ نگار سائیں ایاز قادری ، 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو اور 28دسمبر کو بھٹائی کے بعد سندھی زبان کے سب سے بڑے شاعر شیخ ایازنے الوداع کہا تھا۔
اس موسم میں جب سوبھوگیانچندانی نے صبح نو بجے کے قریب اپنی آنکھیں بند کیں تو یوں محسوس ہوا کہ صدیوں کی تاریخ نے آنکھیں بند کرلی ہیں ۔صرف اس کی آنکھوں کے پپوٹے بند نہیں ہوئے بلکہ کئی امیدیں اور ارمان کہیں بند ہوگئے۔
وہ ایشیا کے اس خطے میں آخری سینئر بالشویک تھے جو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مزید مضبوط ہوگئے تھے ۔ وہ اپنے تمام تر اوصاف میں جمیل آدمی تھے، اپنی تمام تر صورتوں میں ایک مکمل انقلابی تھے، دانشور تھے، عالم تھے، ایک عظیم اور باکردار انسان تھے۔
سندھ کامریڈ سوبھوگیانچندانی کو ایک ایسے عظیم انسان کے روپ میں دیکھتی ہے ، جس کے پاس کوئی تفریق نہ تھی، کوئی چھوت چھات نہ تھی…….. اور اگر کوئی فرق رکھتا تھا تو وہ صرف یہ کہ اس کا کہنا تھا ، ایک استحصالی طبقہ ہے، دوسرا استحصال زدہ، ایک ظالم طبقہ ہے دوسرا مظلوم ، ایک جبر کرنے والا طبقہ، دوسرا جبر میں پِسنے والا، ایک ناانصافی کرنے والا طبقہ ہے دوسرا ناانصافی کا شکار، ایک آقا ہے اور دوسرا رعایا۔ اس لےے ان دونوں طبقوں کے درمیا ن جو بھی فرق موجود ہے ، اسے ختم کرنے کے لےے وہ کمیونسٹ بنا، انقلابی ہوا، رُوپوش رہا، جیلوں میں گیا، نظر بند رہا، لیکن اس نے اپنی وہ سوچ عمر کے آخری لمحات تک نہیں بھولی۔
اس نے اپنی پوری زندگی جو اس نے لگ بھگ1942 سے شروع کی ، کامیاب گزاری، اس نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ ثابت قدم کس طرح رہا جاتا ہے ۔ اس نے برصغیرکے ساتھ دنیا کی انقلابی تحاریک اورترقی پسند ادب کی تاریخ رقم کرکے بتایا کہ ایک آدمی، اگر چاہے تو کتنا بڑا کام کر جاتا ہے، کتنا بڑا کردار ادا کرجاتا ہے۔ سوبھوگیانچندانی کو سندھ کے لوگوں نے اس انداز سے نہیں جانا، جیسا اور جتنا اُسے جاننا چاہےے تھا۔ لیکن قصور باشندگانِ سندھ کا بھی نہیںہے ،کیونکہ وہ ابھی تک اپنے آپ کو بھی نہیں پہچان پائے۔
سائیں سوبھو کے دیہانت کے وقت لاڑکانہ کے راستے چھوٹے پڑ جانے چاہےے تھے اور انہیں ایک قومی اعزاز کے ساتھ الوداع کہنا چاہےے تھا۔لیکن اس طرح نہ ہوسکا ۔ اور اس بات پر دکھ اس لےے بھی، کسی کو بھی نہیں ہے کیونکہ کامریڈ سوبھو کے بچھڑنے کا دکھ باقی تمام دکھوں سے عظیم ہے۔ بہر حال ایسے لوگ پھر نہیں آئیں گے تبھی تو شیخ ایاز نے کہا تھا، ” وری نہ ایندو و نڑجارو“( یہ بنجارہ پھر نہیں آئے گا)۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے