جب پوری قوم رو رہی تھی….بادشاہ ہنس رہا تھا۔
یہ عام ساواقعہ تو نہ تھا۔بہت بڑا قومی سانحہ تھا۔دہشت گردوں کی بھیانک واردات….کوئی صبح کے دس بجے ہوں گے۔ پھولوں کے شہر پشاور میں،آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں نے حملہ کردیا تھا۔یہ محض ظالمانہ اور سفاکانہ کاروائی نہ تھی بلکہ سکول کے احاطے میںآناً فاناً قیامت پرپا ہوئی تھی۔ہنستے مسکراتے….شوخیاں….شرارتیں کرتے ،پھول سے بچے مسلے گئے تھے ۔سکول کے اندر کا منظراگرچہ ہولناک تھا لیکن باہر کی صورت حال بھی کچھ تسلی بخش نہ تھی۔بین کرتی ماﺅں کی جگردوز چیخیں ….بچوں کے عزیز واقارب کی آہیں اور سسکیاں، بھلا سینے میں دل رکھتے کس انسان سے دیکھی جا سکتی تھیں۔آن ہی آن میںایک سو بتیس بچوں سمیت ایک سو اکتالیس افراد شہید کر دیے گئے تھے۔
حادثے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا تھا کہ بادشاہ سمیت ملک کے سب بڑے ،ایک جگہ سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔ دہشت گردوں کی بھرپور مذمت کی گئی تھی۔اگرچہ یہ اس ملک کا نائن الیون تھا۔مگراس میں بادشاہوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ،کسی مریم نواز ….حمزہ شہباز….اور بلاول….بھٹو….زرداری کی موت تو واقع نہ ہوئی تھی،جس پر فوری ردِعمل ہوتا ۔ پاک فضائیہ کے طیارے افغانستان کے علاقے کنٹرکی فضا میں منڈلانے لگتے،جہاں سے اس واردات کو آپریٹ کیا گیا تھا۔یہ توخاک بسر قوم کے غریب بچے تھے،جن کے لیے، ماضی کی طرح، اعلیٰ قسم کی ساکھ رکھتی کمیٹی جوڑی گئی تھی۔پھر ایک سال ….دو سال….پانچ سال ….!!!بس نتائج آنے کی دیر تھی….
عین اسی لمحے،جب اس اعلیٰ سطح کی میٹنگ کا اختتام ہو اتھا ….پوری قوم اس سانحے پر پھوٹ پھوٹ کررو رہی تھی۔
بادشاہ جگت بازی کر رہا تھا؛”اگرمجھے بچوں کی عیادت پر نہ جانا ہوتا….تو میں اِس کے ساتھ کنٹینر پر جاتا۔“ اُس نے حزبِ اختلاف کے ایک بڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے از راہِ مذاق کہا تھا۔
پھر کیا تھا….؟ میٹنگ میں شریک مداریوں کے زوردار قہقہے پھوٹے تھے۔اوربادشاہ بھی ہنسا تھا۔
بادشاہ کتنا دلیر تھا…. ؟؟؟اور مسخرہ بھی….؟؟؟

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے