رقص کرتے ہیں اب مرے سائے
کیوں مجھے روشنی میں لے آئے
اُس کی سانسوں سے جو ہوا مہکی
کوئی اُس میں جئے کہ مر جائے
جال میں ایک مسکراہٹ کے!
ہم نے دکھوکے بھی کم نہیں کھائے
زندگی اک حسین خیال سہی
موت نے بھی تو خواب دکھلائے
اپنی آنکھوں کے احتساب میں ہوں
آئینے میں نہ روپ بہکائے
زعمِ شہرت میں جس نے گھر چھوڑا
دشتِ وحشت میں وہ بھی گھبرائے
حرف اور صوت کی کشاکش میں
میری آواز ہی نہ تھراّئے
شہرِ عرفان کے قول فیصل میں
کیا ہوں میں اور کیا مری وائے