محترم آغا گل
آداب
آپ کا بھیجا ہوا سنگت ملا۔ پڑھ کر بہت لطف آیا۔ سبھی تحریریں جاندار اور اہم ہیں۔ نجیبہ عارف، انوار احمد، طاہرہ اقبال …….. سبھی درخشندہ ستارے موجود ہیں او رکوئٹہ کے پھولوں کی مہک بھی آتی ہے۔ ہمارے ملک کے حالات ایسے خونیں ہوگئے ہیں کہ کوئی بھی خوبصورت بات یا ہر لطف احساس احساسِ جرم میں مبتلا کردیتا ہے ۔کہ انہوں نے ہم سے بولنے کی صلاحت بھی چھین لی ہے۔ پشاور کے بچوں کے صدمے نے دل چیر کر رکھ دیا ہے۔ سب اہل قلم کو چاہےے اسے نہ بھولےں۔ وقتاً فوقتاً اس کو یاد کرتے اور کرواتے رہیں ۔ہم لوگ یہی کرسکتے ہیں اور کیا کریں ۔ہم بچوں کے خون سے وضو کو جائز نہیں سمجھ سکتے۔ بس دل بجھا ہوا ہے۔
وسلام
نیلم احمد بشیر
————————————————-
محترم ڈاکٹر شاہ محمد مری
سلام و خلوص!
ڈاکٹر صاحب میں سوبھو گیانچندانی کی کتاب جو انہوں نے سندھی زبان میں آج سے بارہ سال پہلے مجھے بھیجی تھی، میں نے وہ کتاب اسلم راحیل میرزا کو ترجمے کے لےے دی تھی۔ اس کتاب کے کچھ مضامین مرزا صاحب نے مختلف جرائد میں شائع کےے تھے۔ اب یہ مکمل کتاب 2 سال کے بعد فکشن ہاﺅس نے بڑی مشکل سے شائع کی ہے۔
کامریڈ سوبھو کی آپ بیتی کیا اردو میں شائع ہوگئی ہے ؟ کس ادار ے نے شائع کی ہے ؟ سید سطب حسن کے آپ کے پاس جوخطوط ہوں ان کی فوٹو کاپی پہلی فرصت میں مجھے ارسال کردیں۔ عین نواز ش ہوگی۔ میری طرف سے تمام دوستوں اور خاص کر ماما عبداللہ جان جمالدینی کو سلام!
کامریڈ تنویر احمد خان ۔ لاہور
————————————————-
مکرمی آغا گل
اسلام علیکم ۔ آپ کی نوازش سے سنگت ملا ۔ بہت شکریہ ۔ ماہنامہ دیکھا۔ پڑھا، سوچا ، اس میں ادب بھی ہے۔ زندگی کی جھلک بھی ہے۔ آواز بھی ہے۔ احتجاج بھی ہے اور فریاد بھی ہے۔ بلاشبہ ان سب کی ضرورت ہے۔ آپ کو۔ مجھے ، وقت کو، ہمارے معاشرے کو۔شاہ محمد مری صاحب کی جرات اور خلوص سے مجھے اسی قسم کی توقعات ہیں ۔ جن پر وہ بھی پورے اترے ہیں۔ اور آپ نے بھی اپنے مضمون میں اپنا رنگ قائم رکھاہے۔
سوچتا ہوں تحسین کہوں یا نہ کہوں۔ کیونکہ پاکستان میں ایسی تحسین صدیوں سے بے اثر ہی رہی ہے۔ چنانچہ غیر موثر تحسین اور مبارک کی بجائے دل کی بات کہنے کی جسارت کروں گا۔
یوں لگتا ہے کہ سنگت کا فوکس صرف بلوچستان پر ہے ۔ حالانکہ سارے پاکستان میں وہی کچھ ہورہا ہے۔ طبقاتی قبضہ گروپ اور ان سے نجات پانے کی خواہش ہر جگہ ہے ۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں عوام کی محرومی اور نارسائی ایک جیسی ہے۔بالکل ویسی ہی جیسی کبھی مشرقی پاکستان میں تھی۔ کہ عوام کو امور مملکت سے بے دخل اور تعلیم سے محروم رکھا جائے۔ بلوچستان کے سردار سرحد کے خان ، سندھ اور پنجاب کے وڈیرے اس مہم میں خود تو متحد ہیں۔ مگر ایک صوبے کو دوسرے صوبے کے خلاف اکسا کر عوام کو آپس میں لڑاتے رہتے ہیں۔ اور پچھلی نصف صدی سے بے حد کامیاب ہیں۔
اصلی مسئلہ بلوچستان اور پنجاب کے درمیان امتیازی سلوک کا نہیں بلکہ ملک بھر کے عوام اور چاروں صوبوں کے خواص کے مابین ایک نا ہموار بندھن کا ہے۔ جس کے منفی حربے علاقائی مٹی کے ساتھ ساتھ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے رہتے ہیں ۔ مگر الزام ہر جگہ دوسرے صوبے پر دھرتے رہتے ہیں۔
لیکن اس میںکچھ قصور پاکستانی عوام کا بھی ہے ۔ جس قسم کی سیاسی پارٹیاں انہیں بار بار ڈستی رہتی ہیں۔ وہ اسی قسم کی دیگر اور نئی پارٹیاں بناتے رہتے ہیں۔ اور ویسی ہی قیادت کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ پھر اگلی دفعہ اسی انداز میں ڈسے جانے پر ویسی ہی فریاد اٹھاتے ہیں۔ ……..
بات لمبی ہوتی جائے گی اس لےے اجازت چاہوں گا ۔ اور آپ کی وساطت سے شاہ محمد مری سے درخواست کرتا رہوں گا کہ سنگت جاری رکھیں۔ میری تحسین ہو یا نہ ہو۔ ان کا کام قابلِ تحسین ہے ۔زرِ سالانہ کا چیک منسلک ہے۔
سنگت میں تمام شرکاءکی خیریت کے لےے دعاﺅں کے ساتھ۔
واسلام
مسعود مفتی۔ اسلام آباد