بہت سال پہلے 1992ءکی بات ہے کہ ، جب میں حیدرآباد کے ایک اخباری گروپ کے ایک ماہنامہ جریدے ”ہزار داستان“ کے ادارتی حصے میں کے فرائض سرانجام دیتا تھا، اور میں کامریڈ سوبھوگیانچندانی سے انٹرویو لینے کیلئے لاڑکانہ گیا ۔یہ نہ صرف میری کامریڈ سوبھو سے پہلی ملاقات تھی، بلکہ میرا لاڑکانہ کا بھی پہلا سفر تھا۔ کامریڈ سوبھو سے پانچ گھنٹے کے طویل انٹرویو کے آخر میں ، میں نے اُن سے پوچھا ”آپ وکیل بھی ہو ، دانشور بھی، سیاستدان اور لکھاری بھی، آپ کیا چاہیں گے کہ آپ کو کس حیثیت سے یاد رکھا جائے“؟
جواب میں انہوں نے کہا ”میں سب سے پہلے انقلابی ہوں، میری خواہش ہے کہ مجھے آخر دم تک اپنا ساتھی، دوستوں کا دوست اور مظلوموں کا ہمدرد سمجھا جائے“۔
یہ وہ دور تھا ، جب سوشلسٹ بلاک بکھر چکا تھا،لیفٹ کی پارٹیاں اور انقلابی تحریکیں بحران کا شکار تھیں۔ سرمایہ دار دنیا اور مغربی میڈیا سوویت یونین کے خاتمے پربغلیں بجا رہا تھا۔ کچھ مغربی دانشور اس کو تاریخ کا خاتمہ قرار دے رہے تھے۔ امریکا سپر طاقت کی حیثیت سے دنیا کے معاملات کو اپنی مرضی سے چلانے لگا تھا۔ یہاں لوگ ان حالات کا سائنسی انداز سے تجزیہ کرنے اور اپنی صفیں درست کرنے کے بجائے سوویت یونین کے بکھرنے کی عجیب اور غیر منطقی تاویلات کرتے اور اپنے ماضی پر شرمساری کا اظہار کرتے پھرتے تھے۔ کچھ لوگ لیگی تو کچھ تبلیغی بن گئے۔ مگر ہمارے سوبھو نے انقلاب اور سوشلزم کا علم بلند رکھا۔ وہ مایوس نہیں ہوا۔ اسی سال جب لاڑکانہ میں سندھی ادبی سنگت سندھ کی طرف سے کامریڈ کے ساتھ شایان شان پروگرام منعقد کیا گیا تو کامریڈ سوبھو نے اپنی تقریر کا اختتام کرتے ہوئے کہا تھا”میرا سوشلزم پر پختہ یقین ہے ، یہی وہ نظریہ ہے جو نجات کا راستہ ہے۔ سوشلزم زندہ باد“۔
سوبھو گیانچندانی رابیند رناتھ ٹیگور کے تعلیمی تعلیمی ادارے شانتی نکیتن میں پڑھا۔ اور آگے چل کر سوبھو کو ”مین فرام موھن جو دڑو “ کے نام سے پکارا۔ سوبھو وہاں گیا تو تعلیم حاصل کرنے تھا مگر جب لوٹا تو تعلیم کے ساتھ ایک انقلابی بن کر لوٹا۔ ایک ایسا انقلابی، جس کی آنکھوں میں برصغیر کی آزادی اور سارے جہاں کی خوشحالی، آزادی اور مساوات کے خواب تھے۔ شانتی نکیتن میں پڑھنے کے دوران سوبھو کی ملاقات ایک بڑے انقلابی اور کمیونسٹ پنالال گپتا سے ہوئی۔ جس نے سوبھو کے دل میں انگریز حکمرانوں کے خلاف نفرت کی آگ کو اور زیادہ بھڑکادیا اور ملک میں پھیلی ہوئی بھوک ،بیماریاں ، امیری غریبی میں امتیاز کومٹانے کا جذبہ بھی بیدار کیا۔ پنا لال گپتا سے سوبھو نے سوشلزم کے درس لیے۔جس نظریہ کو اس نے دنیا کی نجات اور خوشحالی کا ذریعہ سمجھا، آخر تک اس پر قائم رہا اوراور ایسے ہی کامریڈوں اور دوستوں سے وابستہ رہا۔ اسی انٹرویو میں کامریڈ سوبھو نے کہا ”میں نے دیکھا کہ بہترین کام کرنے والے، پر خلوص اور انتھک اور تربیت یافتہ لوگ کمیونسٹ ہی ہیں۔ اور آج تک میری یہی رائے ہے کہ بہترین پڑھنے والے، سوچنے والے،محنتی اور انٹرنیشنل آﺅٹ لک رکھنے والے لوگ کمیونسٹ ہی ہیں۔ میں نے کمیونسٹ تحریک سے جو وابستگی رکھی تھی وہ میں آج بھی رکھتا آرہا ہوں۔ کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ سے زیادہ شائستگی، محبت اور وسیع النظری ، قوموں کی تکالیف اور معاملات کا حل، زبانی ادب ،لگن اور فضیلت اس فکر سے وابستہ طبقے والے لوگوں میں ہے “۔
سٹوڈنٹس تحریکوں ، ٹریڈ یونینز میں سرگرم ہونے اور انقلابی جدوجہد میں حصہ لینے اور کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے کامریڈ سوبھو کو کئی مرتبہ قید و بند کی مصیبتیں جھیلنا پڑیں۔ سوبھو پاکستان بننے سے پہلے بھی جیل میں گیا اور پاکستان بننے کے بعد تو وہ کئی مرتبہ جیل میں ڈال دئیے گئے اور اس کو اپنے انقلابی راستے سے ہٹانے کی بھی کوششیں کی گئی۔ اس کو جیل سے زبردستی بھارت بدر کرنے کی تیاریاں بھی کی گئی، مگر اس وقت پاکستان میں مقرر انڈین ہائی کمشنر سری پرکاش کی مداخلت کی وجہ سے سوبھو زبردستی ملک بدر ہونے سے بچ گیا۔سری پرکاش نے یہ موقف اختیار کیا کہ بھارت ان لوگوں کو قبول کرے گا، جو اپنی مرضی سے بھارت جانا چاہتے ہیں، مگر سوبھو رضا و خوشی سے نہیں جارہا ہے ، بلکہ اس کو زبرستی بھیجاجارہا ہے اس لیے بھارت قبول نہیں کرے گا“۔ سوبھو سے پہلے سوبھو کے کئی کامریڈ دوستو ،حشو کیول رامانی، کیرت بابانی، گوبند مامالھی اور دوسروں کو اپنی جنم بھومی سندھ سے زبردستی بھارت بھیج دیا گیا تھا۔ جب سوبھو کو اپنی اس جنم بھومی سندھ سے بھارت جانے کو کہا گیا تو اس نے جواب دیا ”سندھ میری دھرتی ہے، اس کو چھوڑ کر جانے کا میں سوچ بھی نہیں سکتا“۔ اس نے اس وقت کے وزیر داخلہ شہاب الدین کو کہا ”آپ پاکستان میں مہاجر ہو میں سندھ کی پیدائش ہوں اور کئی نسلوں سے یہاں آباد ہوں، میں سندھ نہیں چھوڑ سکتا۔ میں سندھ نہیں چھوڑوں گا“۔
کامریڈ سوبھوکی طرف سے اس وقت کے حکمرانوں کو ایسا جواب دینا کامریڈ کے اندر کے جذبات کو ظاہر کرتا ہے۔ کامریڈ سوبھو نے جیل سے سیدھا بھارت جانے کی بجائے دوسرے قسم کی سزا کو آنکھوں پر رکھا۔ بقول علی احمد بروہی ”حالانکہ اس کو پتہ تھا کہ ”جہل کے دیس میں اس کا کیا حشر ہوگا“۔
کامریڈ نے اپنی قید کا عرصہ پہلے لاہور کے قلعے سمیت ملک کے مختلف جلوس میں کاٹا پھر آپ کو اپنے گاﺅں ”بنڈی “ضلع لاڑکانہ میں نظر بند کیا گیا۔
کامریڈ سوبھو اگرسندھ چھوڑ کر بھارت چلا جاتا تو یقینا بھارت میں اس کی بڑی قدر ہوتی۔ سوبھوکو ”فریڈ م فائٹر“ کا درجہ دے کر آپ کی عزت افزائی کی جاتی جیسے سوبھو گیانچندانی کے ایک دوست اندر کمار گجرال کا ہوا۔ گجرال لاہور کا باسی تھا او ر بٹوارے کے بعد وہ بھارت چلا گیا تو وہ وہاں صف اول کے سیاسی قائدین میں شمار ہوا اور پہلے بھارت کا وزیر خارجہ، پھر وزیر اعظم بنا۔ مگر سوبھو سندھ بدر نہ ہوا، وہ تو سندھ دھرتی کی مٹی تھا۔ اس کاانگ انگ سندھ سے جڑا ہوا تھا ۔ اگر وہ سندھ چھوڑ کر چلا جاتا تو ایسا ہوتا کہ جیسے جسم سے روح جدا ہوجاتی۔ سندھ سوبھوکے لیے جنت تھی۔ اس ہی انٹرویو میں کامریڈ سوبھو نے کہا تھا ”میرے لیے سندھ اور ماں ہم معنیٰ ہیں۔ آج بھی میںاپنی ماں کا دودھ پی کر ہی بہتر سال کا جوان ہوں۔ میں میدان چھوڑ کر بھاگوں گا نہیں“۔
کامریڈ سوبھو نے اپنی ساری زندگی عظیم آدرشوں کے تحت بسر کی، اس کا ہر عمل ، ہر قدم، ہر لفظ اپنے آدرشوں اپنے نظریئے اور انقلاب کے لیے تھا۔ انہی آدرشوں کی تکمیل کے واسطے وہ ہمیشہ جدوجہد کے میدان میں رہا ، اس نے کبھی بھی انسان ذات کی عزت، آبرو اور خوشحالی کے خواب کو دھندلانے نہیں دیا۔ آج جبکہ کامریڈ سوبھو جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں ہے۔ مگر اس کی شکل میںبہت سارے لوگ اسی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں ، ان ہی آدرشوں میں، اسی نظریئے میں ، سوبھو گیانچندانی زندہ رہے گا اور ایک دن سوبھو کا خواب ضرور تعبیر پائے گا۔ سوبھو، جس نظریئے کا پیروکار تھا ، اس سے زیادہ خوبصورت اور اچھا نظریہ اور کوئی نہیں۔ آج بھی ساری دنیا میں سوبھو کے لاکھوں ہم خیال اور فکری ساتھی اس نظریئے کو عملی صورت دینے کےلئے جدوجہد کے عمل میں مصروف ہیں۔ آدمی مرجاتا ہے، مگر اس کا خواب کبھی نہیں مرتا جیسے ولڈیو رانٹ نے کہا ”آدمی مرجاتا ہے ، مگر زندگی ان خوابوں کو مرنے نہیں دیتی اور ایک دن وہ ضرور تعبیر پالیتے ہیں“۔
کامریڈ سوبھو کی پہچان ایک افسانہ نویس کی بھی تھی۔ اس نے افسانے لکھے کچھ سندھی میں اور کچھ انگریزی میں۔ جن کو پھر 1992ءمیں ترتیب دیکر کڈھن بھار ایندو (کب بہار آئے گی) کے نام سے کتابی صورت میں چھاپاگیا اور یہ کتاب میں نے اپنے ادارے کی طرف سے شائع کی اور میں خوش نصیب ہوں کہ کامریڈ کی سب سے پہلی کتاب میں نے ہی چھاپی۔ کامریڈ سوبھو کے یہ افسانے سند ھ کے اوائلی ترقی پسند افسانوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ کامریڈ نے اپنا پہلا افسانہ ”ڈھائی روپے“کے عنوان سے لکھا جو اس کے پاس محفوظ نہیں رہ سکا۔ پھربہتر سالوں کے بعد وہی افسانہ دوبارہ لکھا اور اس کے تعارف میں لکھا ۔ ”میں نے یہ افسانہ 1938ءمیں اس ہی عنوان سے لکھا تھا، تقریباً ستر سالوں کے بعد90 سال کی عمر میں اپنا یہ افسانہ دوبارہ لکھا ہے۔ اب جب یہ سارا واقعہ یاد آتا ہے تو میں بہت حیران ہوتا ہوں کہ وہ بھی کیسا عجیب دور تھا، جب مظلوم کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا احساس نہیں تھا اور ظالم کو بھی یہ خیال نہیں ہوتا تھا کہ وہ ایک انسان کو خواہ مخواہ لوٹ رہا ہے“۔
سوبھو نے جو دوسرا افسانہ لکھا کہ وہ ”اکھری جو ٹٹن“(گھونسلے کا ٹوٹنا) تھا۔ یہ افسانہ دیہات سے شہر وں میں نقل مکانی کے بارے میںہے۔ اس دور میں دوسری عظیم جنگ جاری تھی اور سماجی اور رہائشی زندگی میں بڑی الٹ پلٹ شروع ہوگئی تھی۔ اگرچہ سوبھو نے مسلسل افسانے نہیں لکھے۔ مگرجب بھی اس نے کوئی افسانہ لکھا تو اس افسانے نے سندھی افسانوں میں اچھا مقام پایا۔ سوبھو گیانچندانی کے افسانوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایاز قادری نے لکھا ہے ”کامریڈ سوبھو اُن افسانہ نگاروںکی طرح نہیں ، جنہوں نے اپنا سارا دھیان افسانے لکھنے کی طرف دیا ہے۔ کیونکہ وہ ادب کی دنیا کا ایک اچھا قاری ہے، جس کا مطالعہ وسیع ہے اور وہ اپنے سندھ کے خراب حالات اور مختلف مسائل سے وقت بوقت متاثر ہوتا رہا ہے۔ اس لئے جب بھی کسی مخصوص واقعے، معاملے، یا مسئلے نے اس کے دل پر چوٹ کی تو اس کے اندر بے چینی پیدا ہوئی اور اُس نے بے بس ہوکر اس واقعے کو افسانے کا روپ دیا۔ کامریڈ سوبھو کے افسانوں کے کردار ہمارے معاشرے کے زندہ کردار ہیں۔ جن کی معرفت اس نے اپنے ترقی پسند خیالات و نظریات کا اظہار کیا ہے“۔
کامریڈ سوبھو گیانچندانی ترقی پسند فکر کا لیجنڈ کردار تھا۔ اس کی جدائی پر سرخ سلام پیش کرتے ہوئے اس وعدہ کو دوبارہ دہراتے ہیں کہ ہمارا ہر عمل ، ہر قدم اور ہر لفظ مظلوموں اور محکوموں کی حمایت، ظالم اور استعماری قوتوں کے خلاف اٹھے گا۔