رواں ماہ ’ماہتاک سنگت‘ کا سالنامہ ہے ۔ سالنامہ سالگرہ ہی تو ہے اور میں سالگرہ نہیں مناتا ۔ کیوں؟ کیونکہ غریب سالگرہ کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ غریب کے لیے سالگرہ ایسا مذاق ہے جیسے سرمایہ دار پرولتاریہ کے سر پردستِ شفقت رکھے یا سردار علا قے میں سکول کا افتتاح کرے۔ سالگرہ غریب کےلئے ایسے ہی ناممکنات میں سے ہے۔ اگر ممکن ہو بھی جائے تو کتنی خوشی اور کتنی دیر تک۔ بالکل اسی طرح سے ہوتی ہے سالگرہ کی خوشی بھی۔ بھلے کتنا اچھا پروگرام ہو مگر صاحب کو جاتی عمر کا احساس تو ہوتا ہے اور اگر سالگرہ کسی صاحب کی بجائے صاحبہ کی ہو توآپ احساس ہی نہیں کر سکتے اِس چھپے غم کا جو صاحبہ کو ہے یا پرولتاریہ کو یا سردار کے ماسٹر کو۔ محدود سے لوگ ہوتے ہیں کیونکہ غریب کی سالگرہ نہیں ہوتی اور امیر کی اشتراکی سالگرہ ہو نہیں سکتی اور سالگرہ بھی محدود عرصے کےلئے منائی جاتی ہے زیادہ سے زیادہ ۰۷-۰۶ سال لیکن آخر کب تک ۔ ایک دن سالگرہ برسی میں بدل جائے گی۔ بس یہی وجہ ہے ہم سالگرہ نہیں عید مناتے ہیںاور یہ عید ”ماہتاک سنگت“ کی عید ہے۔عید سب مناتے ہیں اور بہ نسبت سالگرہ کے عید اشتراکی ہوتی ہے اور حسبِ توفیق سب خوشی مناتے ہیں۔ تو ہم اسی لیے سنگت کے سالنامہ پر عید مناتے ہیں۔
فرض کریں ایک غریب بچہ ہے ۔ننگے پاو¿ں عمر گزارتا ہے، ننگے پاو¿ں ہی کھیلتا ہے، بھوک اُسے ستاتی ہے اور روٹی کی آس لیے پھرتا ہے۔ کبھی چاند کو روٹی سمجھتا ہے اور اندر کہیں نہ کہیں خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ دن گزرتے جاتے ہیں ۔غربت کا خوردبین احساس کو مزید بڑھاتا رہتا ہے کہ اچانک ایک دن اس کے لیے جوتے لائے جاتے ہیں ،کپڑے سلتے ہیں، پیٹ بھر کھانا بھی ملتا ہے۔ کسی امیر کی زکواة اُس کی عیدی بن جاتی ہے تو کچھ مٹھائی بھی لیتا ہے۔ تو بچے کی خوشی دیدنی ہوتی ہے اُسے معلوم ہوتا ہے کہ آج عید ہے۔ ہاں اسی غریب بچے کی طرح ہم بھی معاشرے کی غریب بچے ہیں۔ہمارا ذہن بھی بچے کے پیٹ کی مانند خالی ہے۔ چند بے نام سے خواب ہیں اور تنہائی کا احساس اور اس وقت جب ہم سنگت کو پڑھتے ہیں تو عید مناتے ہیں۔ سنگت کا لفظ لفظ ہمارا لبادہ ہے اور سنگت کا اداریہ ہماری عیدی ہے۔
جس طرح عید ہر سال میں ہر حال میں آتی ہے ۔سنگت بھی ہر حال میں ہر سال میں چھپتا رہتا ہے۔ اگر اخباروں میں مسخ شدہ لاش بلکہ لاشوں اور ہر طرف عزیزوں کی قبروںبلکہ اجتمائی قبر ہو تب یہ عید آتی ہے اور لاشوں کو لفظوں کا کفن پہناتی ہے۔ جب طالبات کی بس میں دھماکہ ہوتا ہے، جب پھول روندے جاتے ہیں، جب ڈائری میں لکھے بچپن کے خواب راکھ ہو جاتے ہیں جب کٹے ہاتھ پہ لگی مہندی سے لاش پہچانے جاتے ہوں جب سَکھی سہیلیاں سوکھ جاتی ہوں۔ یہ عید تب بھی آتی ہے اور ڈائری کے لفظوں کو زندہ کرتی ہے سوکھی سہیلیوں کو پھر سے سکھی کرتی ہے۔
یہ عید تب بھی آتی ہے جب کوئی لڑکی تیزاب پھینکے جانے کے ڈر کے ساتھ بازار جاتی ہو جب وہ رسموں کی قیدی ہو اور زبردستی کسی کے ساتھ نتھی ہونے کا سوچتی ہو۔لورالائی میں سنگسار ہونے والی کی سہیلی ہو یا نصیرآباد میں زندہ درگور ہونے والی کی بھابھی ہو یا خود غیرت کے نام پہ قتل ہونے والی ہو تب یہ عید آتی ہے درگوروں پر لفظوں کا پھول چڑھاتی ہے۔ جملوں سے رسموں کی زنجیر توڑتی ہے اور قیدی کو آزادی دیتی ہے تب سب عید مناتے ہیں۔ جب کوئی عباس بازار جاتا ہے اور ٹارگٹ ہونے کے خوف سے زینب مختلف بہانوں سے ا±سے بار بارکال کرتی ہے تب ”سنگت “ا±سے سہارا دیتا ہے اور عید مناتے ہیں۔
جب ا±ستاد چھینے جاتے ہوں، دشتیاری قتل کرائے جاتے ہوں یا کمیل گھر بدر ہوتے ہوں تب ’ماہتاک سنگت‘ آتا ہے استادوں کا سنگت بنتا ہے اور ہم عید مناتے ہیں استادوں سے ملتے ہیں۔ جب کوئی جوان آوارہ ہو یا لفظ لفظ لیے شاعرہ ہو۔ جب فاطمہ کراچی سے آتی ہواور فہمیدہ کو ساتھ لاتی ہو تب سب مل کر لفظ لفظ کھیلتے ہیں اور عید مناتے ہیں۔ جب شیرانی کو یاد کرنا ہو یا ماما کے پاس جانا ہو اور طریر کی” آدھی آتما“ سے ملنا ہو تب سنگت کے سنگت آتے ہیں اور عید مناتے ہیں ۔جب ’مست ‘کے’ سموں‘ سے ملنا ہو یا ’ترہ کئی‘ کے افغان کو جاننا ہو اور داس کیپیٹل کے پیغمبر تک پہنچنا ہو یا سپارٹیکس کے جذبوں کو جاننا ہو تب ہم عشاق کے قافلے کے ساتھ چلتے ہیں تب ہم عید مناتے ہیں اور یوں ہم عید مناتے ہیں۔