ہم آج اپنے ہی خون میں
تر بہ تر کھڑے،
اک قبیح منظر کے سامنے ہیں
ندامتوں کا پہاڑ سر پر اٹھائے
اب تک نہیں تھکے ہیں
ہوس کے دلدل میں دھنس رہے ہےں
دلوں میںنفرت کی شعلگی سے
ہماری صورت پگھل رہی ہے
یہ کیسی آتش ہے؟
کیسا لاوا ؟؟
کہ ہر تعصب کی شکل،
سیل رواں میں ڈھل کے
ہماری را ہوں کے
نقش، سارے مٹارہی ہے
یہ کیسی وحشت ہے!
کیا جنوں ہے!!
جو دہشتوں کو فروغ دے کر
ہمارے مابین
فاصلوںکو بڑھا رہا ہے
ہمارے چہروں کو نوچتا ہے
کھروچتا ہے!
ہماری پہچان مٹ رہی ہے!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے