(جنہیں 25 اکتوبر 2014 کو ایران میں پھانسی دیدی گئی)
ماںتم تو جانتی ہو نا ں
مجھے زندگی سے کس قدر پیار ہے
وہ دن یاد ہے تمہیں
جب کِچن مےں اےک کاکروچ آےا
تُم خوف اور کراہت سے چیختی ہوئی
مجھ سے ٹکرائی
اور میرے ہاتھوںسے
میریے بچپن کی گڑیا گر کر ٹوٹ گئی
تم مسلسل چیختی رہی
ماردو،مار دو، زہریلا ہے یہ
مگر میں نے ہنس کر اُسے
آرام سے اپنی ہتھےلی پر رکھ لیا
اورباہر درختوں میں چھوڑ آئی
تم تو جانتی ہو ماں مجھے زندگی سے کس قدر پیار ہے
پھر اچانک ایک دن ایک شریر کاکروچ
زندگی کے پاکیزہ بدن میں
اپنی ساری گندگیوں کا زہر اُنڈیلنا چاہتا تھا
میں روکتی رہی،روکتی رہی۔۔۔۔۔۔
پھر نجانے کیسے میری بے بسی نے
اُس زہریلے کاکروچ کا خاتمہ کردیا
ماں آج مجھے تم بہت یاد آرہی ہو
جانتی ہو کیوں۔۔۔۔۔
آج مجھ سے کہا گیا ہے کہ
جس کا تم سات سالوں سے مر مر کر انتظار کر رہی ہو
کل کا سورج وہ پَل اپنے ساتھ لائے گا
میں کال کو ٹھری کے ایک کونے میں
دیوار سے اس طرح چمٹ کے بیٹھی ہوں
جیسے میں اس دیوار میں پیوست کوئی خشت ہوں
اور کوٹھری سے باہر کا منظر
ایک جسیم کاکروچ میں تبدیل ہو کر
اپنی لمبی لمبی مونچیںاوپر نیچے ہلاتے ہوئے
مجھے عجیب نظروں سے گھور رہا ہے
مگر میں زندہ رہنا چاہتی ہوں
ہاں ۔۔۔۔ یہ بہت زہریلے ہوتے ہیںماں
جلدی سے آکر اس کاکروچ کو مار دو
تم تو جانتی ہو
مجھے زندگی سے کس قدر پےار ہے۔