شہر کی دیوار
نظموں سے مزّین ہوتی
تو ہمیں محبت کرنے میں
کتنی آسانی رہتی

آپس میں ہمارا مکالمہ
بیشتر محبت کی بات پر مشتمل ہوتا
ہم سب کا سارا دن
محبت ہی کا لہجہ لےے رہتا
رات کو خواب بھی
محبت کے عکس میں ڈوبے نظر آتے

لوگ جب اِس درجہ محبت کرتے
تو شاعروں کو محبت کے ڈھیروں ڈھیر
زاوےے بیان کرنے میں
کوئی مشکل کیونکر ہوتی
سو اک آسانی سے محبت
دلوں میں اتر کر
روحوں کا فیصلہ بن جاتی
برداشت ، تحمّل اور رواداری کو سوچنے کے بجائے
نظمیں کھو جانے کے دکھ میں جیا کرتے سب لوگ
اور ہر ممکن کوشش کرتے
کہ نظمیں اور محبت ہم سے کھو نے نہ پائیں
اور اگر یہ ہوتا
کہ بارش سے نظموں والی دیواریں
دھل جاتیں
تو یہی بارش
تازہ نظموں کا سندیسہ بھی دیتی
محبت کرنے والے
اس کے پانی سے گیلی کرتے اپنی پوریں
اپنی ہتھیلیاں اپنے رومال
اور محبت بانٹنے کی رسم نبھاتے
ہر رومال میں حرفِ محبت کے رنگوں کو
سینت کے رکھتے
اور اپنوں کو اک رومال میں لپٹی محبت
نم آلود سے حرف میں ڈوبی
ایک محبت تحفہ دیتے
اپنی نظم کو
زندہ رکھتے!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے