عاقلو، دیدہ ورو، اے میرے پیارے لوگو
اس سے پہلے کہ خرابات کا دروازہ گرے
رقص تھم جائے کہیں حُسن و جوانی نہ رہے
بُوند بھر رس کو ترس جائیں شرابی آنکھیں
اور محمور حسینوں کی کہانی نہ رہے
قطرے قطرے کو پکاریں جلے گلشن کے گلاب
اور برسات میں پانی کی روانی نہ رہے
کاسہ¿ دل میں سِمٹ آئیں فقط ویرانے
اور دعاﺅں میں کوئی سوز نہانی نہ رہے
دے کے دُشنام اٹھادیں تمہیں محفل سے رقیب
لوحِ ایام پہ رندوںکی نشانی نہ رہے
ذہن کا شہر طلسمات کھنڈر ہوجاتے
اور پھرزیست میں کوئی بھی معانی نہ رہے
اس سے پہلے کے خرابات کا دروازہ گرے
اِس سے پہلے کہ سماوات کا چوبارہ گِرے
عاقلو ادیدہ ورو، اے مِرے لوگو، سوچو
مار کر چیخ بڑھو کوہِ ندا کی جانب
کھول کر بین کرو رب ِ ثنا کی جانب
اپنے اوہام کو صحر ا میں کہیں جاپھینکو
عقل و دانش کی کوئی بات کرو ہم وطنو
ورنہ پھر خاک فقط خاک مقدر ہوگی