بہت دنوں سے جلات خان فراری بنا پھرتاتھا ۔ کسی قوم قبیلہ والے کو تو اغواءکرنے کی ہمت نہ پڑی۔ سب سے پہلے وہ بازار سے جیرا نائی اٹھا کے لے گیا۔ اس کے بعد پھتو قصائی پر عتاب نازل ہوا۔ ازاں بعد اس نے بڑا ہاتھ مارا اور ژوب کے سٹیشن ماسٹر نذیر کو اغواءکرکے پہاڑوں میں لے گیا۔ ایک زمانے سے ٹرین بند پڑی تھی۔ زمانہ بدلا مگر سو برس میں ٹرین کا شیڈول نہ بدلا گیا۔ حسبِ سابق وہ تیسرے روز کوئٹہ سے ژوب پہنچ پاتی۔ جبکہ کوچ پانچ گھنٹے میں ہی پہنچا دیا کرتے۔سٹیشن کے بینچ اور بتیاں ۔ آگ بجھانے والی بالٹیاں اردگرد کے لوگ اپنے ہاں لے گئے تھے۔ یونہی بیکار پڑیں تھیں۔ اچھا ہوا کسی مسلمان بھائی کے کام آئیں گے۔ سائیں سائیں کرتے اس ریلوے سٹیشن پہ ٹکے رہنے کا سبب نوکری کے علاوہ اکلوتا بیٹا فہیم بھی تھا جو سکول میں پڑھتا تھا۔ وہاں اچھی ڈویژن ملنے کے امکانات تھے۔

اس اغواءکی مقامی انتظامیہ کو خبر نہ ہوئی ۔ ریلوے کا عملہ پہلی پہ تنخوا ہ لینے آیا تو اسے علم ہوا ۔ سبھی ادھر ادھر اپنا کام دھندا کرتے مگر ماہ بہ ماہ تنخواہ کی وصولی کے لےے پہنچ جایا کرتے۔ انہوں نے ہڑتال کردی۔ جو کار گرنہ ہوئی کیونکہ ٹرین تو د س برس سے بند تھی۔ شہر میں جلوس نکالا دھرنا دیا تو گذشتہ ماہ کی تنخواہ انہیں دے دی گئی۔ جسے جیب میں ڈال کر مردہ باد کے نعرے لگاتے سبھی نے اپنی اپنی راہ لی۔ اس بار جلات نے کسی بڑے افسر پہ ہاتھ ڈالنے کا منصوبہ بنایا ۔ اکثر افسر بااثر قبیلوں کے تھے۔ باقی چند ایک کے ساتھ لیویز اور پولیس کی نفری رہا کرتی۔ ان کے بنگلوں پہ بھی پہرے ہوا کرتے۔ ضلعی انتظامیہ نے جلات سے متعدد بار مطالبہ کیا کہ وہ اغواءشدگان کو رہا کردے سارے مطالبات ماننا تو مشکل تھا ۔ البتہ اُسے لیویز کے دس سپاہیوں کی آسامیاں دی جائیں گی۔ بینک سے زرعی قرض دیا جائے گا۔ جسے پھر معاف کردیں گے ۔ جلات یوں تو پولیٹیکل ایجنٹ اور دیگر افسروں سے ملتا جلتا رہتا۔ ان کے بلاوے پر مسلح ساتھیوں سمیت چلا بھی آتا ۔ مگر چائے پی کر ٹکا سا جواب دے کر واپس چل پڑتا۔

انتظامیہ بھی در پردہ خوش تھی کہ پٹرولینگ اور سیکورٹی کی مدد میں نئی گاڑیاں اور زیادہ بجٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ لیویز کے لےے دس موٹر سائیکلیں بھی بس کی چھت پہ بندھی چلی آئیں جو افسروں نے اپنے ارد لیوں اور سکول جانے والے بیٹوں کو دے دیں۔ حالانکہ یہ تو گشت بڑھانے کے لےے آئی تھیں۔

چونکہ جلات مادرزا د ان پڑھ تھا۔ اسے پوچھنا پڑتا ،تحقیق کرنی پڑتی کہ بڑا افسر کون ہوتا ہے۔ اس بار قرعہ فال ہیڈ ماسٹر کے نام نکلا ۔ وہ بیس گریڈ کا افسر تھا۔ اس کے ما تحتوں اور شاگردوں کی بہت بڑی تعداد تھی۔ جلات خان نے اسے سکول سے گھر جاتے اُٹھا لیا۔ کھینچ کھنچ کر گاڑی میں ٹھونسا اور اپنے مسکن کی راہ لی۔سڑک سے ڈیوٹی پہ کھڑے سپاہی سٹک گئے ۔ تحصیلدار اس کا دور کا عزیز تھا ۔ اسے پہلے ہی مطلع کیا جاچکا تھا ۔ واردات سے قبل ہی وہ نفری کے ہمراہ کا لو قلعہ کی جانب مراجعت کرچکا تھا۔

ہیڈ ماسٹر رمضان نے غل غپاڑہ کیا مدافعت بھی کی جو رائیگاں گئی۔ تنگ آکر انہوں نے رمضان کا منہ باندھ دیا ۔ آنکھوں پہ سیاہ پٹی باندھ دی۔ اور کہیں جا کر ان ویران بے آب و گیاہ پہاڑوں میں پٹی کھولی۔

رمضان پیاس سے مرا جاتا تھا۔ اس نے خوب سیر ہوکر پانی پیا۔ جلات نے تاکید کردی کہ رمضان یہاں سے فرار ہونے کی کوشش نہ کرے ،ورنہ پہاڑوں میں بھٹک جائے گا۔ بھوکا پیاسا مر جائے گا یا پھر پہاڑوں کے بھوکے بھیڑیوں کا نوالہ بن جائے گا۔ ان سے بھی بچ نکلا تو کوئی دوسرا قبیلہ اغواءکرکے چوکھا مال کمائے گا۔

رمضان کو درختوں میں گھری اسی کھولی میں بند کردیا گیا۔ جہاں جیرا نائی اور پھتو قصائی کے علاوہ سٹیشن ماسٹر نذیر بھی آنسو بہا رہا تھا ۔ جیرا نائی اور پھتو قصائی تو دن بھر مصروف رہا کرتے پھتو نے دنبے بکرے ذبیحہ کرنے، گوشت کاٹنے اور کھال اتارنے کے اسرا رو رموز نوجوانوں کو سمجھائے، چھری وہ بس ہلکی سی لگاتاتو پٹھہ(TENDON) کٹنے کے سبب ران الگ ہورہتی۔ پہاڑوں میں چند گھروں کی بکھری بکھری آبادیاں تھیں۔ اکثر انہیں پاس پڑوس لے جایا جاتا ۔ جہاں پتھو اپنے فن کا مظاہر ہ کرتا۔ جیرا نائی کو استرے کینچیاں مہیا کردی گئیں۔ وہ بھی ساتھ ہولیا۔ اور نئی آبادی میں بال بناتا داڑھی مونڈھتا ۔ باتوں ہی باتوں میں وہ راستہ دریافت کرنے کی کوشش کرتے مگر نا کامی رہتی۔ جیرا کم عمر تھا ، وہ اپنے ماں باپ کو یاد کر کرکے رویا کرتا۔ اپنی منگیترکو یاد کرکے بھی آہیں بھرا کرتا۔ اسے خدشہ تھا کہ طویل گمشدگی کے باعث کہیں منگنی ہی نہ ٹوٹ جائے۔ پھتوپچپن برس کا تھا۔ وہ جیرا کو تسلی دیا کرتا۔ حالانکہ وہ خود بھی بیوی بچوں کے لےے پریشان رہتا۔ سٹیشن ماسٹر نذیر کو ڈھور ڈنگر کا انچارج بنایا گیا تھا ۔

جلات خان نے سوچا کہ جو افسر ریلوے سٹیشن سنبھال سکتا وہ بار برداری کے گدھے ۔ دنبے اور بکرے بخوبی سنبھال سکتا ہے۔ نذیر خون کے اشک پیتا گدھے لے کر قریبی پہاڑوں میں جاتا۔ وہاں خشک لکڑیاں جمع کرتا انہیں گدھوں پہ لادتا اور ہنکاتا ہوا جیل خانے کی راہ لیتا۔ گدھے مردوں پر اپنی جسمانی برتری کے باعث کبھی مردوں کے پیچھے نہیں چلتے۔ بلکہ انہیں ہی پیچھے پیچھے چلاتے ہیں۔ نذیر بھی انہیں ہانکتا چھڑیوں سے نوازتا واپس لوٹتا تو ڈھیر ہوجاتا۔ دس برس اس نے بچے پیدا کےے تھے۔ تنخواہیں بانٹی تھیں۔ اور کوئی کام نہ کیا تھا ۔ ان بدمست باغی گدھوں کے ہاتھوں وہ بوکھلا سا گیا تھا۔ حتیٰ کہ ایک بار وہ جلات خان کے سامنے سینہ تان کے کھڑا ہوگیا۔
” میں سٹیشن ماسٹرہوں مجھے اس طرح بے عزت کیوں کرتے ہو۔ اس سے تو بہتر ہے کہ گولی ماردو“۔

جلات اس نا فرمانی پہ تمتما اٹھا۔ اس نے پہلو میں پڑی کلاشنکوف اٹھائی، کاک کرکے نذیر پر چھتائی تو نذیر کے اوسان خطا ہوگئے۔ اور سرجھکائے گدھوں کو ہانکتا ان ویران پہاڑوں میں چلا گیا۔

جلات سمجھ نہ پایا کہ رمضان کو کونسا کام دیا جائے ۔ وہ مفت کی روٹیاں توڑتا رہے۔ یہ بھی قبول نہ تھا۔ اس نے اپنے ٹرکوں اور بھتیجوں کو تعلیم دینے پر معمور کردیا۔ نذیر کے سینے پہ سانپ لوٹ گئے کاش وہ بھی ٹیچر ہوتا۔ خرکاری تو نہ کرنا پڑتی۔
رمضان نے ایک چٹان پہ تختہ سیاہ بنوالیا۔ درسی کتابیں تو نہ تھیں۔ وہ الف بے اور اے ۔ بی سی پڑھانے لگا۔ لڑکے مٹی پہ اس کے بولے گئے حروف تہجی لکھتے۔ وہ ان چار قطاروں میں بیٹھے بچوں، لڑکوں، نوجوانوں کو گھوم پھر کر درس دیتا ایک ماہر معلوم ہونے کے سبب وہ ان کی توجہ بھی برقرار رکھتا۔ ان کے لکھے حروف درست کرتا۔ مٹی سے لفظ مٹا کر درست کردیتا۔ قلم کی بجائے طلباءشہادت کی انگلی سے کام لیتے۔ رمضان کا خیال تھا ذرا لکھنا سیکھ لیں تو قلم تھمایا جائے ۔ فی الوقت تو کلہاڑا چلانے کے انداز میں حرف لکھتے ہوئے بلا ضرورت ہی طاقت استعمال کرتے ۔ بعض دانتوں تلے زبان رکھ کر انہماک سے لکھتے تو رمضان کوفت محسوس کرتا۔ نہایت ہی غبی طلباءتھے۔ ان کا سیکھنے کا عمل نہایت ہی سست بلکہ مایوس کن تھا۔وہ C اور G میں فرق محسوس نہ کرتے تو رمضان حکمت عملی اختیار کرتا ۔

” دیکھو بھئی میں C ہوں ۔ میر ا پیٹ خالی ہے۔ جلات G ہے ۔ ذرا G کو غور سے دیکھو اس کا پیٹ بھرا ہوا ہے “۔

رمضان کے اغواءپہ ایک روز ہڑتال رہی۔ طلبا ءنے جلوس بھی نکالا۔ حکومت کے خلاف نعرے بھی لگائے جو حکومت تک نہ پہنچ سکے جو وہاں سے پانچ گھنٹے کی مسافت پہ تھی۔ سیکنڈ ہیڈ ماسٹر نے اساتذہ یونین کی مدد سے اپنے لےے ہیڈ ماسٹر بننے کے احکامات حاصل کرلےے۔ رمضان تو غیر مقامی تھا۔ اسے کیا حق حاصل تھا کہ افسری کرتا پھرے۔ چند ہی روز میں سبھی لوگ رمضان کوبھول بیٹھے۔ لیکن انتظامیہ بازیابی کے لےے ڈرامہ کرتی رہی۔ اضافی بجٹ بھی ملا اور سیکورٹی کی مد میں خاصی رقم بھی حاصل کرلی۔ پٹرولنگ اور گاڑی کی مرمت و دیکھ بھال کے لےے ملنے والی رقم سے اپنے حالات درست کےے۔ اپنے بنگلوں پہ سپاہیوں کی تعداد بھی بڑھالی ۔ یوں بھی ساری پولیس ججوں، افسروں، وزیر وزراءکے پروٹوکول پہ لگی تھی۔ انہیں شہریوں کا خون چوسنے کے سوا ان سے کوئی رغبت نہ تھی۔

یوں تو رمضان کے اغوا پر ہڑتال ہوگئی ۔ طلبا ءنے جلوس بھی نکالا ۔ افسروں نے وعدے بھی کےے کہ جلد ہی برآمدگی ہوگی۔ اغواءسے افسروں کو فائدہ ہوتا سیکورٹی کا بجٹ بڑھ جاتا نئی آسامیاں ملتیں چند روز اس شہر میں گہما گہمی رہتی۔ جیسے تیجے پہ خیرات بٹتی ہے۔ قرآن خانی ہوتی اور لوگ پھر دوبارہ روزمرہ کے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ لوگ اغواءہونے والوں کو فراموش ہی کر بیٹھتے۔

نذیر کو بخار نے آلیا۔ وہ یوں بھی دکھی اور نراش رہا کرتا تھا۔ پورے علاقے کو علم تھاکہ تینوں اغوا شدہ ہیں۔ ان سے علیک سلیک بھی ہوتی۔ اور بعض اوقات ان کی بے بسی کا مذاق بھی اڑایا جاتا۔خشک ایندھن لانے کے لےے جیرا کو کہا گیا۔ اس کے ساتھ ایک بندوق بردار جایا کرتا۔ مگر وہ بہت مطمئن سالا تعلق سا رہتا۔ جیرا نے محسوس کیا کہ بندوق بردار اسے بھی دو ٹانگوںوالا گدھا سمجھتا ہے۔ جو بھاگ نہیں سکتا ، فرار نہیں ہوسکتا ۔ بندوق بردار قیوم مزے سے نسوار ہونٹوں میںداب تسبیح پھیرتا رہتا۔ بندوق کو لاٹھی کی مانند ساتھ لےے پھرتا ۔ دوپہر میں خشوع و خضوع سے نماز اداکرتا۔ ایسے میں اپنے جوتوں کے ساتھ بندوق بھی سامنے رکھ لیتا۔ مسجد میں جوتے سامنے رکھ کر نمازادا کرنے کی ایسی عادت پڑی تھی کہ ویران پہاڑ میں بھی یہی وطیرہ اختیار کرتا۔ حالانکہ جوتا چور مساجد میں ہوتے ہیں ۔ پہاڑوں میں نہیں۔ خود نماز ادا کرنے کے بعد قیوم اجازت دیتا تو جیرا نماز پڑھتا ۔ نماز عصر کے بعد وہ دونوں واپس چلے آتے۔ گاﺅں والے سر شام کھانا کھا کے سورہتے۔ وہ تینوں بھی جلات کو کوستے سو جاتے۔

جیرا بلند حوصلہ افسان تھا۔کسی بند ریلوے سٹیشن کا مجہول سٹیشن ماسٹر نہ تھا۔ استرے سے مسلمانی کرنے والا بڑے بڑے جغادریوں کا سرا اپنے حضور جھکا دینے والا، ٹنڈ کر دینے والا جوان تھا ۔ اس نے فرار کا سوچا ۔ وہ قیوم کا مزاج بھانپ چکا تھا اب جیرا روز انہ ایک روٹی بچا لیا کرتا ۔ چار روز بعد اس نے پہاڑ میں موقعہ پاتے ہی قیوم کو قابو کرلیا۔ پالان کی رسی سے قیوم کی مشکیں کس دیں، پاﺅں باندھ دےے۔ اسے منہ کالا کےے بغیر ہی گدھے پر سوار کرادیا۔ دوسرے پہ خود شہسوار کی مانند بیٹھ کر بندوق تانی اور حکم دیا پتر راستہ بتا۔ ورنہ تیرے بھیجے میں سوراخ کردوں گا“۔ قیوم جانتا تھا کہ بندوق بھی پولیس کی طرح اسی کی ہوتی ہے۔ جس کے ہاتھ میں ہو۔ وہ بے چون و چرا پگڈنڈیوں سے مین روڈ کی جانب راستہ بتلاتا رہا۔ اتنے میں اندھیرے نے آلیا جیرا نہایت ہمدردی اور دلسوزی سے قیوم کے منہ میں روٹی دے دیا کرتا، پانی کی چھاگل بھی لگادیتا۔ اگلی شام سڑک دکھائی دی تھی گدھادوڑاتا کہیں کا کہیں نکل گیا۔ پہلے ہی چینکی ہوٹل پہ اس نے گدھا اور بندوق اونے پونے فروخت کرڈالی۔ ہوٹل والا بھی خوش ہوا اس کی تو لاٹری نکل آئی تھی ۔ اس نے کہہ سن کر مال بردار ٹرک پہ سوار بھی کروادیا۔ جیرا مصمم ارادہ کیسے بیٹھا تھا کہ واپس نہیں لوٹے گا۔ بلکہ اپنے آبائی علاقے میں نکل جائے گا۔ جانے پہلے گنجے انسان پیدا ہوا کرتے تھے ورنہ اس کا دادا ان بے رحم پہاڑوں میں کیوں چلا آیا ۔ جہاں دھوپ سے بچنے یا بارش میں چھپنے کے لےے غاریں تک نہیں۔ ایسے نا مہرباںپہاڑوں کے باسیوں کے دلوں میں رحم اور مروت کے ٹاپوں اور گھپائیں بھلا کہاں۔

اُدھر جلا ت نے رات تو کانٹوں پہ گزاری اور اگلی صبح اپنا لشکر لے کر جیرا کی تلاش میں نکلا۔ چونکہ دشوار گزار پگڈنڈیوں سے گزرنا تھا ، ان کی رفتار ان کے جذبات سے کہیں کم رہی۔ انہیں اِدھر اُدھر چرتے ہوئے ، گدھے بھی مل ہی گئے۔ مگر سنگلاخ چٹانوں کے باعث کھوجی بھی جیرا کے کھرّے نہ اٹھا سکا۔ قیوم بھی مہجوب سا خود ہی چلا آیا ۔جلات کی علاقہ بھر میں بڑی سبکی ہوئی۔ اپنی عزت بچانے کے لےے اس نے اعلان کردیا کہ اگر اس کے مطالبے نہ مانے گئے تو وہ اغوا شدگان کے گلے کاٹ ڈالے گا۔ پھتو قصائی اور نذیر تو اس خبر سے بے جان ہوگئے۔ان کے پاﺅں سن ہوگئے ۔ حالانکہ پھتو نے عمر بھر گلے ہی کاٹے تھے ، کلمہ پڑھ کر وہ چھری چلاتا اور تڑپتا بکرا یا بکری ایک جانب دھکیل کے نئے جانور کی گردن پکڑلیتا۔ مگر اس خبر پہ وہ کانپنے لگا جبکہ رمضان نے حوصلہ مندی سے یہ اعلان سنا اور اس کے مطالبے نے جلات کو دھلا کے رکھ دیا۔

” جلات خان! جب چاہو قتل کر ڈالو ۔ موت تو برحق ہے، ژوب کے ہسپتال میں دوائیاں نہیں ۔ آکسیجن سلنڈر خالی پڑے ہیں۔ ڈاکٹر اعلیٰ تعلیم کے لےے غائب رہتے ہیں یا پھر کوئٹہ یا کراچی میں کلینک چلاتے ہیں، ہسپتال میں تڑپ تڑپ کر مرنا ۔ یا پھتو قصائی کی چھری کے نیچے جان دینا کیا فرق ہے، مگر مجھے تعلیم سے مت روکنا ۔ بلکہ کلاس ختم کرلوں تب ذبح کرنا وہ بھی طلبہ سے چھپا کے ورنہ ان کے ذہنوں پہ برا اثر پڑے گا“۔

ژوب انتظامیہ نے جا نچا کہ اغوا شدگان کے سری پائے ملے تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے ۔ جلات کے بہت سے مطالبات مان لےے۔ سیکریٹ فنڈ سے معقول رقم بھی دے ڈالی اپنے ہی چار سپاہیوں کے سروں پہ چادریں ڈال کر ہتھکڑیاں لگا کر پریس کے سامنے پیش کیا کہ ان مشکوک افراد سے معلومات حاصل کرکے اغواءشدگان تک پہنچا جائے گا ۔ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔

…….. جلات کے اب دو مطالبات رہ گئے، اول ان کی گاﺅں تک بجلی پہنچائی جائے دوئم گاﺅں کے اوپر پہاڑ میں ڈیم بنایا جائے تاکہ بارشوں کا پانی جمع کرکے کاشتکاری کی جاسکے ڈھور ڈنگر پانی لانے کے لےے استعمال کےے جاتے تھے۔ اس کی بجائے گاﺅں کے پہلو میں ڈیم سے یہ سہولت حاصل ہوسکے گی۔ حکام نے وعدے و عید کے لےے جس کے باعث جلات بھی قدر ے مدھم ہوگیا اور اس نے بھی تیز چھریاں ایک جانب رکھ دیں جن کی نمائش اس کا معمول تھا۔

ذبح ہونے کا خوف دور ہونے کے باعث تینوں مغوی بہتر محسوس کرنے لگے ۔ نذیر اور پھتو کو گاﺅں سے باہر نہ نکلنے دیا جاتا۔ وہیں انہیں مختلف قسم کے کام دےے جاتے۔ جنہیں وہ نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا کرتے۔ اور جلات کے سامنے آنے سے بچتے کہ کیا عجب جلال اکبری کا نشانہ بننا پڑے۔

رمضان کی تعلیم کے باعث نوجوانوں اور بچوں کا ذہن بدلنے لگا تھا۔ اس نے بتلایا کہ ان کے باپ دادا سے صدیوں پہلے ایک مسلمان مفکر ابنِ خلدون نے واضح کیاتھا کہ جو بھی جاندار جس ماحول میں رہے ویسا ہی بن جاتا ہے ، صحراﺅں کے سانپ خاکی، جنگلوں کے سبز اور برفانی علاقوں کے سفید ہوتے ہیں۔ اسے ماحولیاتی اثر کہا جاتا ہے۔ رمضان نے ECOLOGICAL EFFECT نہ کہا۔ وہ آسان ۔ عام فہم زبان میں تعلیم دینے کا ماہر تھا۔ اصطلاحات سے بھی پہلو تہی کرتا۔ تاکہ طلبا کے ذہن پہ زور نہ پڑے۔

” اچھا۔ ہم تو بھیڑ بکریوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کی عادت کیسی ہے۔ ان کا ماحول کیسا ہے ؟“۔ طلبا ءنے دریافت کیا رمضان بولتا چلا گیا۔” بھیڑ بکریاں کم عقل اور بزدل ہوا کرتی ہیں۔ ایک بھیڑ جو راہ اختیار کرے۔ سبھی اس پہ دوڑ پڑتی ہیں۔ اندھی تقلید کرتی ہیں۔ جس کے باعث بھیڑ چال محاورہ بنا۔ ان کی زندگی کا محور ہے چارہ کھانا پانی پینا اور بچے پیدا کرنا۔ بزدلی، ڈر ان کی طبیعت کا خاصہ ہے۔

ہمارے ہاں کوئی بڑی چراہ گاہ بھی تو نہیں ہے بڑے کھیت کھلیان بھی نہیں خشک بنجر پہاڑ ہیں ۔ چارہ کم کم ہے۔ پانی بھی نایاب ہے۔ وادیوں میں رہنے والے ڈرتے ہیں کہ ان کے پانی اور چارے پہ کوئی غیر قبضہ نہ کرے۔ اسے اپنی وادیوں میں ڈرے ڈرے رہتے ہیں۔ غیر مقامی افراد سے خوف کھاتے ہیں۔ کیچ کے علاقے میں تو نفرت سے غیر مقامی کو ڈنی مردم کہتے ہیں ۔ ان سے ہراساں ہوتے ہیں۔ گھبراتے ہیں۔ دور رہتے ہیں ۔ کسی کو اپنے میں شامل نہیں ہوتے دیتے“۔

طلباءگھروں میں بھی یہی باتیں کرتے ۔ جلات سے چھوٹے بیٹے نے دستر خوان پہ سوال کرڈالا۔

” بابا۔ تم ڈرتے ہو جو بندوق اٹھائے پھرتے ہو“۔

وہ اپنی چاروں بیویوں اور انیس بیٹوں کے ہمراہ شام کا کھانا کھارہا تھا۔ ہر رنگ ہر سائز ہر گڑا کے بیٹے موجود تھے۔

” میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔ نالائق“۔ اس نے چھوٹی بیوی کے لاڈلے بیٹے کو پیار سے ڈانٹا ”کون یہ باتیں کہتا ہے؟“۔

بیٹے نے سادگی میں بھیڑوں کی فطرت کی کہانی سنا ڈالی۔ مگر گھر گھر باتیں ہونے لگی تھیں۔ رمضان کا ایسا محبت بھرا انداز تھا کہ یوں لگتا پڑھا نہیں رہا گپ شپ کررہا ہے۔

درختوں لگے اس کا سکول لگتا تو وہ دلچسپی برقرار رکھتا ۔

” اچھا سوچو ! کل مجھے بتانا ۔ وہ کونسا جانور ہے جو سو بھی جائے تو آنکھیں کھلی رکھتا ہے“۔

سبھی نے بہتیرا زورمارا۔ مگر رات گئے تک جواب نہ مل پایا۔ ان کے بزرگ بھی حیران رہ گئے۔ رمضان نے اگلے روز اعلان کیا کہ وہ جانور مچھلی ہے۔ اور تعلیم دینے لگا۔ وہ پڑوسیوں کے حقوق، بچوں کے حقوق، سخاوت اور معاف کردینے کے جذبے ابھارتا۔ اس نے بتلایا کہ نبی مبارک نے اپنے پیارے چچا کی قاتلہ ہندہ اور قاتل وحشی کو بھی معاف فرما دیا تھا۔ جو ہمارے باعث تقلید ہے۔ صلہ رحمی پہ بولتا اور عفو درگزر کی باتیں بتلاتا۔

جلات کی لاڈلی بیوی نے ایک روز انارکلی کے انداز میں تیور بدل کر کہا کہ وہ بچوں کے لےے شہر سے ٹافیاں اور کھلونے کیوں نہیں لاتا۔ اس کے لےے ریشمی کپڑے لانے کا خیال نہیں آتا۔ کیا دن بھر جو پتھروں پہ گولیاں چلا کر نشانہ بازی کرتا ہے۔ اس رقم سے بچیوں کے لےے نئی چادریں بھی تو خرید سکتا ہے ۔ابھرتے چبھتے سوالوں نے جلات کو ہلکان کر ڈالا۔ وہ مجروح ہوجاتا ۔ دل میں جیسے چھید پڑ جاتے۔ماحول اذیت ناک ہوچکا تھا۔

ایک روز جو ژوب جانے کے لےے گاڑی میں آ بیٹھا تو اس کے جوان بیٹوں نے گھیر لیا سوالوں کے تیر اس کے دل میں اترتے چلے گئے۔

” بابا تم شہر جاتے ہو ہمیں کیوں نہیں لے جاتے“۔

” ہمیں ان بھیڑ بکریوں کے پاس چھوڑ جاتے ہو کیا ہم بھی ریوڑ کی طرح رہیں“۔

” اپنے ٹھاٹھ باٹھ دیکھو اور ہمارا لباس دیکھو“۔

” ہم بھی کیا دنبے بکرے ہیں؟ تمہارے مویشی ہیں۔ ہم سے ایسا سلوک کیوں کرتے ہیں“۔

” ہمیں کسی سکول میں کیوں نہیں پڑھاتے کالج میں داخل کیوں نہیں کرتے“۔

جلات خان سکتے میں آگیا ۔ یہ ایک دبی ہوئی بغاوت تھی ایک چنگاری تھی جو سب کچھ بھسم کرسکتی تھی۔ اس شام وہ لشکر سمیت واپس لوٹا تو بجھا بجھا سا تھا۔ کھانا کھا کر گفتگو کےے بغیر آنکھیں موند کر لیٹ رہا۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ مارے خوف کے بیویاں بھی اِدھر اُدھر ہوگئیں۔

جیرا کے فرار کے بعد مغویوں کے کمرے کو نماز مغرب کے بعد تالہ لگا دیا جاتا۔مغوی ان کے ساتھ نماز مغرب ادا کرنے کے بعد ہی بند ہوتے۔ مسجد میں اغوا کار خدا سے دعا کرتے کہ مغویوں کے بدلے کچھ مل جائے۔ جبکہ مغوی دعا کرتے کہ ان ظالموں سے چھٹکارا پائیں۔ مغرب کی نماز کے ساتھ ہی تینوں کو کھانا دے کر دروازے کو تالہ لگادیا جاتا۔ ایک شخص دروازے پہ پہرہ دیتا کہ کہیں نقب لگا کے نہ نکل جائیں۔

رات کے پچھلے پہر قدموں کی چاپ آئی، بندوقوں کی کھٹ پٹ ہوئی اور تالہ کھلا تو متوحش ہوکر پھتو چلایا“۔ سنبھلنا ہمارے قاتل آگئے ہیں“۔ دونوں ہڑ بڑا کر اٹھے، لالٹین کی روشنی میں جلات کا چہرہ دکھائی دیا۔ اس کی آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے۔ چہرہ لال بھبھوکا ہورہا تھا۔ اور توکوئی ہتھیار نہ ملا، پھتو اور نذیر نے تکےے نکالے اور گرز لندھورکی مانند تان لےے۔

” خبردار ! آگے مت آنا ورنہ تکےے مار مار کے مار ڈالوں گا“۔پھتو غرایا۔ رمضان اس غیر متوقع شب صورتحال سے گھبرا کے جوتوں کی جانب لپکا دونوں ہاتھوں میں جوتے خنجر بنا لےے پھتو کے ہوش بجا تھے۔ اس نے نعرہ بلند کیا “ ہیڈ ماسٹر صاحب ! میرے بوٹ دس نمبر کے ہیں نیچے لوہے کے نعل لگے ہیں۔ وہ اٹھالیں ۔ پاپڑ بنادیں سالوں کا“۔ رمضان نے جلدی سے اپنے جوتے پھینک پھتو کے بوٹوں سے مسلح ہوگیا۔ مگر حملہ آوروں نے ان کی ٹنڈیاں کس دیں۔ انہیں یکے بعد دیگرے پک اپ میں ٹھونس دیا۔ مغویوں کی آہ و بکا سے جلات کے اہل خانہ جاگ اٹھے ۔ اس کے جواں بیٹے آنکھیں ملتے باہر نکلے۔ انہوں نے جو اپنے استاد کی درگت بنتے دیکھی تو مدد کے لےے لپکے۔ یہ دیکھ کرمسلح افراد گاڑی میں کود گئے۔ اور گاڑی دوڑائی۔ رمضان نے دیکھا کہ جلات کے بیٹے انہیں بچانے کے لےے نعرے بلند کرتے گاڑی کے پیچھے پیچھے دوڑے چلے آرہے ہیں ۔ تو فرطِ جذبات سے اس کے اشک جاری ہوگئے۔ نا ہموار راستوں پہ ہچکولے کھاتی گاڑی بہت دور نکل گئی۔ ایک چشمے کے پاس سے گزرے تو رمضان نے فریاد کی “۔ ظالم ! ہمیں آخری بار دو نفل تو ادا کرلینے دے“۔ جلات نے سنی ان سنی کردی۔ رمضان کو اشکبار دیکھ کر ان کا ضبط بھی جاتا رہا۔ وہ دونوں بھی رونے لگے۔

پھتو مایوسی سے بولا ” ان سے کیا مانگنا یہ تو ظالم قصائی ہیں“ جلات جو چپ بیٹھا تھا بھڑک اٹھا” میں نہیں تم قصائی ولد قصائی ہو“۔ بندوق کی سرد نالی گردن پہ چبھی تو پھتو کو اقرار کرتے ہی بن پڑی“۔ ہاں ۔ قصائی تو ہوں اغواءکار نہیں ہوں“۔ ایک ایک لمحہ بھاری تھا۔ انہیں یوں لگتا تھا ہزاروں برس گزر چکے ہیں۔ ان کے ہاتھ پاﺅں ٹھنڈے پڑ چکے تھے ۔ نذیر کے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔ ان کی آنکھیں بے جان ہوچکی تھیں۔

صبح کاذب پہ گاڑی تھم گئی۔ انہیں گاڑی سے گھسیٹ گھسیٹ کر اتارا اور ایک ساتھ کھڑا کردیا۔ نذیر لڑکھڑا کر گر پڑا۔ اسے دوبارہ کھڑا کرکے دو آدمیوں نے تھامے رکھا۔ ” کلمہ پڑھو، کلمہ پڑھو“ رمضان نے توجہ دلائی۔ مگر جلات نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک دیا۔” خاموش ہو“۔

” ابوجہل نہ بنو ہم ضرور کلمہ پڑھیں گے“۔ جلات جھلا گیا” چپ رہو ! میری بات سنو! تم میرے قبیلے میں علم کا زہر پھیلا رہے تھے ۔ تعلیم سے میرے بیٹوں کو بھی نہ بخشا۔ دور ہوجاﺅ میری نظروں سے ۔ پھر ہمارے علاقے کا رخ نہ کرنا۔ زہریلا آدمی!“۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے