ہر تاریخی عہد میں اقتصادی پیدا وار اور تبادلے کا جو طریقہ رائج ہوتاہے اوراس پر لازمی طورپر جوسماجی ڈھانچہ بنتا ہے جس پر اس عہد کی سیاسی اور ذہنی تاریخ مر تب ہوتی ہے اور اسی سے اس کی تعبیر بھی ہوسکتی ہے ۔
چنا نچہ قدیم قبا ئلی سماج کے ٹو ٹنے کے بعد جس میں زمین کی برادری والی ملکیت کا رواج تھا بنی نو ع انسان کی ساری تاریخ طبقا تی جد وجہد کی تاریخ یعنی استحصال کرنے والوں اور استحصال کے شکار لوگوں حکمران اور مظلوم طبقوں کے با ہمی مقابلے کی تاریخ ہے ۔ اس طبقا تی جد وجہد کی تاریخ ار تقا کے کئی مد ار ج سے ہوکر گذری ہے اورآج وہ منزل آپہنچی ہے جب کہ استحصال کیا جانے والا مظلو م طبقہ یعنی پر ولتا ریہ استحصال کرنے والے ظالم طبقہ یعنی بورژ واکے پنجے سے اس وقت تک نجا ت نہیں پاسکتا جب تک کہ اپنے ساتھ پورے سما ج کو ہمیشہ کے لئے ہر قسم کے استحصال ظلم جبر اور طبقا تی امتیاز سے چھٹکا رانہ دلا ئے۔ آیئے، انسانی تاریخ ار تقا کے جن مد ار ج سے ہو کر گذ ری ہے ان کامطا لعہ کر کے موجودہ منزل کی تر قی کی سطح کا مطا لعہ کریں اور ار تقا سے عمل کی سمت کا تعین کریں ۔
نسل انسان کی تاریخ کا آغا ز اُس وقت سے ہوتاہے جب انسان پہلے کر ہ ارض پر نمو دار ہوا۔ ماہر ین آثا ر قدیمہ کا اند ازہ ہے کہ یہ کوئی 10 لاکھ سال کا عر صہ ہے جب انسان کر ہ ار ض پرنمو دار ہوا۔
ماہر ین آثا ر قدیمہ انسا ن کے قدیم سماج کوتین ادوار میں تقسیم کرتے ہیں ۔
پہلا دور نسل انسان کے بچپن کا دور ہے جب انسان گرم اور نیم گرم علاقوں کے جنگلوں میں رہتے تھے اور درختوں پر بسیراکرتے تھے۔ ان کی غذاپھل جڑیں اور گری دار میو ے تھے۔ اس دور میں انسا ن نے زبان تخلیق کی اور وہ اپنے مشا ہدات اور تجربات دوسرے انسانوں تک پہنچا نے لگا۔ اس دور میں اس نے آگ دریافت کی اوراس کو باقی رکھنا سیکھا ۔وہ آگ پر مچھلی بھون کر کھانے لگا ۔اس نئی غذانے اسے موسم اور مقام سے آزاد کر دیا ۔وہ ندیوں اوردریاﺅں کے کنارے رہنے لگا اور ان کے کنارے چل کروہ کر ہ ارض کے بڑے حصے پر پھیل گیا۔اس نے پتھر کے ٹکڑ وں کو رگڑ کر آگ جلا نے کا فن سیکھ لیا اور اس نے تیر کمان ایجاد کرلیا ۔ پر ند وں اورجانوروں کا شکارکرنے لگا۔وہ مٹی کے بر تن بنا نے لگا۔اس نے دودھ دینے ولے جانوروں کو پالنا شروع کیا اور جانو روں کے پا لنے سے گلہ بانی کی زندگی کا آغا زہوا۔
اس نے پتھر کے آلا ت بناکر کا شتکا ری شروع کی۔ پھر لوہے کے آلا ت بنائے اورہل بنا کر کاشتکا ری کرنے لگا ۔جب ہل چلا کر کھیتی باڑی اور گھر یلو دستکاری کرنے لگاتو اس سے اس کی مہارت بڑھی اورپیدا وار اپنی ضرورت سے زیادہ کرنے لگا تو وہ دوسرے انسان کی قو ت محنت کا استحصال کرنے پر قا درہوگیا ۔اسے دوسرے انسانوں کی قوت محنت جنگ سے حاصل ہوئی ۔جو انسان جنگ میں پکڑ ے جاتے تھے ان کو غلام بنایا جا نے لگا۔
غلاموں کے آقا غلاموں سے زمین پر کا شتکا ری کرانے لگے۔ اس سے سماج میں محنت کی پہلی بڑی تقسیم بپا ہوئی ۔سما ج دو طبقو ں میں بٹ گیا۔ ایک طر ف آقاتھے دوسری طرف غلام تھے ایک طرف استحصال کرنے والے تھے دوسری طرف وہ تھے جن کا استحصال کیاجاتاتھا۔ اس دور میں مو یشیوں اور زمین کے مالک مردبن گئے اور وہ جن جنگی قید یوں کو پکڑ کر لاتے تھے اور ان کو غلام بنا تے تھے ان کے بھی مالک بن گئے ۔ اس تاریخی دور میں غلام داری سماج کی ابتد ہوئی جو پہلا طبقا تی سماج تھا ۔ آقا ﺅں نے غلا موں کو قابومیں رکھنے اور دوسرے قبا ئل پر حملہ کر کے مزید غلام حاصل کرنے اور حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کے لئے ریاست بنائی اور ریاستی ادارے یعنی فوج اور ٹیکس جمع کرنے والے اہل کا ربنا ئے ۔
اقتصادی نشونما اور اس کی بنیاد پر سماج کی تعمیر جب اس منزل پر پہنچی توریاست کا وجود ضروری ہوگیا اور انسانی سماج میں یہ منزل اس وقت آئی جب انسان آلا ت پیدا وار کی مد د سے اپنی ضرورت سے زیادہ پیداوار کرنے پر قادر ہوگیا ۔اور دوسر وں کی قوت محنت سے پیداکی ہوئی پیداوار کا استحصال کرکے اپنی ضروریات کی تسکین ممکن ہوگئی تو قدیم سماج کی جگہ غلام داری کا سماج وجود میں آگیا ۔ غلام داری کا سماج پہلا طبقا تی سماج تھا جس میں ریاست پیدا ہوئی ۔ریاست طبقا تی تضا د کو دبا کررکھنے کی ضرورت سے پیدا ہوئی۔ طبقاتی سماج میں ریاست سب سے زیادہ طاقت ور،اقتصا دی طورپر سب سے زیادہ ذی اقتدار طبقے کی ریاست ہوتی ہے۔ چنانچہ غلام داری کے سما ج میں ریاست غلاموں کے مالکوں کی ریاست تھی جس کا مقصد غلاموں کو دبائے رکھنا تھا ۔ جاگیر داری سماج کی ریاست کا مقصد زرعی غلام کسانوں کو دبا ئے رکھنا تھا ۔ اور سر مایہ داری سماج میں ریاست کاکام مزدور طبقے کو دبا ئے رکھنا ہے ۔
غلام داری سماج کے خلاف غلاموں کی بڑی بڑی بغا وتیں ہوئیں ۔ غلاموںنے کا شتکا ری اور باغبا نی کے کاموں میں دل چسپی چھوڑ دی اور ان کی عدم دل چسپی سے پیدا وار کم ہونے لگی ۔ غلا موں کی بغا وتوں نے غلام داری سماج کی جڑ یں کا ٹ دیں اور خانہ جنگیوں نے اس کو تہس نہس کردیا ۔
سپارٹیکس کی قیا دت میں غلا موں کی بغا وت غلا م داری کے سما ج کی پوری تاریخ میں بڑے پیما نے کی بغا وت تھی۔یہ74ویں سال قبل مسیح میں شروع ہوئی تھی اور 71 ویں قبل مسیح تک جاری رہی ۔اس بڑی بغا وت میں غلاموں کو شکست ہوئی ۔آقاﺅں کی فوج نے چھ ہزار غلاموں کو صلیب پر جڑ ھا یا۔
بغا وتوں اور خانہ جنگیوں کے باعث غلا موں کی محنت اور غلامی پر مبنی معیشت وقت کے تقاضے پورے کرنے کی اہل نہ رہ گئی تھی۔ غلاموں کو اس بات سے قطعی دل چسپی نہ رہ گئی تھی کہ اس کے محنت کا کیا پھل ملتاہے ۔ وہ ہمیشہ جبر کے ما تحت کام کرتاتھا ۔
دوسری صدی کے آخری 50سالوں میں آقا ﺅں نے غلا موں کو زرعی غلام کسان بنا کرزمین کے پلاٹ تقسیم کردےے تھے اور جاگیر داری نظام رواج پانے لگا اور گیارھویں صد ی تک سارے یورپ میں جاگیر داری نظام وجود میں آگیا۔ اس نظام میںجاگیر دارحاکموں کی زمینوں کے دو حصے تھے۔ ایک حصہ وہ تھا جو جاگیر دار کے مصر ف میں ہوتاتھا۔ اس پر کسان غلام کھیتی کرتے تھے اور ساری پیدا وار جاگیردارلے جاتے تھے۔ دوسراحصہ وہ تھا جو غلام کسانوں کو دیتا تھا اس پر وہ کا شت کرتے تھے اور اس زمین کا لگا ن زرعی پیداوار کی صورت میں جاگیر دار کو دیتے تھے ۔
31دسمبر 1000 کورات کے 12بجے دوسراہزار سالہ عہد گیا رھو یں صد ی سے شروع ہوا۔ جب گیا رھویں صدی شروع ہوئی تھی اُس وقت انسانی تاریخ کا پہلا طبقا تی سماج یعنی غلامی کا سماج ختم ہوگیاتھا اور انسانی تاریخ کا دوسرا طبقا تی سماج یعنی جاگیر داری کا سماج وجود میں آچکاتھا ۔
گیار ھویں صدی شروع ہوتے ہوئے پورے یو رپ میں جاگیر دارانہ نظام کے رائج ہونے کا عمل پورا ہوگیا تھا۔ یعنی ساری یاقریب ساری زمین جاگیر داروں کے ہاتھوں میں پہنچ گئی تھی اور تمام محنت کش اسی حکمران طبقے کے دست نگر ہوگئے تھے ۔ سب سے زیادہ دشوار دست نگر ی کسان غلاموں کی تھی جو خود اورجن کے افراد ِکبنہ اپنے مالکوںکے لئے ان کی زمینوںپر کام کرنے کے پابند تھے۔ کسا ن غلام پیدا کی ہوئی اشیا کا ایک حصہ مالکوں کو دیتے تھے اور صرف اناج اور مر غیا ں ہی نہیں دیتے تھے بلکہ دست کاری کی اشیا کپڑا جوتے وغیر ہ بھی دیتے تھے۔
حکمران طبقہ جانتا تھا کہ کسانوں کی طاقت کی ضما نت کے لئے کھلے بند وں تشد د کا فی نہیں ۔انہوں نے عیسائی کلیسا کی جانب رجو ع کیا جسے لوگوں کے عقید ے اور ایمان کی اجارہ داری حاصل تھی ۔
کیتھولک کلیسا کے کارآمد رول کوجاگیردار بہت سر اہتے تھے اور اسے بڑی دریادلی سے عطیے دیتے تھے ۔گیا رھویں صدی میں کلیسابڑ ی بڑی زمینوں کا مالک بن گیا اور اس کے اعلےٰ عہد یدار حکمران طبقے کے ار اکین میں شمار ہونے لگے ۔
مشرق ملکوں میں زمین میں ملکیت کانظام وجود میں نہ آیا اور وہاں زمین کی مشترکہ کا شت کا رواج قا ئم رہا۔
کارل مارکس اور فریڈ رک اینگلز نے اس کی وجہ یہ بتا ئی ہے کہ افر یقہ کے صحر ائے اعظم سے لے کر عرب ممالک، ایران، ہند وستان اور وسط ایشیا میں بار ش کی کمی سے صحر اہیں اور زمین کی آب پاشی کے لئے چاہات اور نہر یں کھو دناپڑ تی تھیں جنہیں برادریاں اور حکومتیں ہی تیار کر سکتی تھیں۔ ان ممالک میں زمین کے مالک بادشاہ تھے اور مطلق انسان ،بادشاہ تھے ۔
ہند وستان میںزمین پر ملکیت کانظام بر ٹش ایسٹ انڈ یاکمپنی نے قائم کیا ۔ یورپ میں جاگیر داری نظام قائم ہواتو سماج کی بڑھتی ہوئی ضرور تو ں نے ان کسانوں کو جو زراعت کے علاوہ لوہار، موچی ،جولاہے اور درزی کاکام بھی کرتے تھے مجبو رکیا کہ وہ اپنا زیادہ وقت ان پیشوں کودیں۔ انہوں نے گاﺅں سے باہر نکل کر الگ گھر بنالئے اور دستکا ری کرنے لگے اور اپنا تیار کیا ہوا مال فروخت کرنے لگے۔ یہ آبادیاں تجارت کے مراکزاور شہربن گئیں۔ زراعت اور دستکا ری الگ الگ پیشے بن گئے ۔ دستکا ری اور زراعت میں واضح تقسیم ہوگئی اور شہروں کو صنعتی اور تجارتی مرکزوں کی حیثیت سے عروج ہوا۔
گیا رھویں صدی میں صلیبی جنگیں ہوہیں۔ ان صلیبی جنگوں نے سیاسی مقاصد تو حاصل نہ کئے لیکن یورپیوںنے مشر ق سے زمین کا شت کرنے کے اور دست کاری کے زیادہ ترقی یافتہ طریقے سیکھ لئے ۔وہ اپنے ساتھ مشرق سے رس دار اور کھٹے پھلوں کے درخت لے کرگئے۔ رےشم بنانے اور برتن تیار کرنے کے فنوں سے واقفیت حاصل کی ۔
تیر ھو یں صد ی کے شروع میں ایشیامیں ایک طاقتور رمنگول ریاست قائم ہوئی ۔منگول غلا موںنے زبر دست فوجی مہمیں شروع کیں ۔ چنگیزخان نے پورے منگولیا کو اپنے زیر اقتد ار کر لیا اور اپنی فو ج لے کر وسط ایشیا اور ماور ائے قفقا زکوفتح کرنے کے لئے چڑ ھائی کردی ۔
چنگیزخان کے مرنے کے بعداس کے بیٹوں اورپوتوںنے یورپ چین ،اورعرب ممالک کو فتح کرنے کی مہمیں جاری رکھیں ۔ قبلائی خان نے چین فتح کرلیا۔منگولوں کے یہ حملے یورپی ملکوں پر تین سوبرس تک جاری رہے۔ ہلا کوخان نے خلافت عباسیہ کو تہس نہس کردیا ۔ اور بغدادکو زمین بوس کردیا ۔ منگولوں کی ان مہموں سے تر قی کاعمل رک گیا اور پھراُس وقت جاری ہوا جب سمر قندبخارا کے حکمران تیموراور روس کے ماسکوکے ڈیوک نے مل کر منگو لوں کی فوج کو چودھویں صدی میں شکست دی اور ان کی فو جی طاقت تو ڑڈالی ۔بر طانیہ اور مغر بی یورپ کے ملکو ں میں سر مایہ داری کا ظہور جاگیر داری پیداواری نظام کے ڈھا نچے میں پند رھویں صد ی میں شروع ہوا۔
1492 کو لمبس نے امریکہ دریافت کیا اور 1498میں واسکوڈی گا ماافر یقہ کے گر دگھو م کر ہند وستان پہنچا ۔ امریکہ کی دریافت اورافریقہ کے گردجہاز رانی شروع ہونے کی وجہ سے ابھر تے ہوئے بو رژ وا طبقے کے لئے راہیں کھل گئیں ۔
بر طا نیہ اور مغربی یورپ کے ملکو ں میں پہلے دستکاری شروع ہوئی۔ پھر یہ کار خانے داری میں تبد یل ہوگئی ۔ اٹھا رویں صد ی میں بر طا نیہ کے مزدور جیمز واٹ نے انجن ایجاد کیااور بھاپ دریافت کی ۔ جا رج سٹیفن نے بھاپ سے چلنے والے انجنوں کو ریل کی پٹڑی پر دوڑ ادیا اور یہی بھاپ کے انجن با دبا نی جہا زوں میں لگا ئے گئے اور مہینوں کا سمندری سفر ہفتوں میں طے ہو نے لگا۔ بھاپ کی دریافت اور انجن کی ایجا د نے صنعتی پیدا وار میں انقلاب بر پا کر دیا ۔بر طا نیہ، مغر بی یورپ اور امریکہ میں صنعتی انقلاب کا آغاز اٹھا رویں صد ی میں ہوا اور 1825تک صنعتی انقلاب مکمل ہوگیا ۔1776 میں امریکہ بر طا نیہ کی حکمر انی سے آزاد ہوا اور وہاں ریاست ہائے متحد ہ امریکہ کے نام سے جمہو ری حکومت قائم ہوئی ۔
1789 میں فرانس میں انقلاب ہوا۔ سر مایہ داروں نے بادشاہ ،جا گیر داروں اور کلیسا کی حکمرا نی ختم کردی ۔ زمین کسانوں میں بانٹ دی۔ سیکولر اور جمہوری سیاسی نظام قائم کیا ۔ سرمایہ داری کی تر قی نے مغربی یورپ کے ملکوں میں جمہوری انقلاب کوجنم دیا اور انیسویں صدی کے وسط تک تمام ریا ستوںمیں جمہوری انقلاب کی تکمیل ہوگئی ۔ مغر بی یورپ کے سرمایہ دارملکو ں نے ایشیا افر یقہ اور لا طینی امریکہ کے ممالک کو اپنی منڈ یاں بنا نے کی مہم شرو ع کی اور انیسویں صدی کے خاتمے تک ان ممالک کو اپنی منڈیاں بنا لیا۔
جدید صنعت نے عالم گیر منڈی قائم کی جس کے لئے امریکہ کی دریافت سے راہ کھل چکی تھی۔ اس منڈ ی نے تجارت ،جہازرانی اور خشکی کے رسائل آمد ورفت کوزبر دست تر قی دی ۔اس سے بورژواطبقے کی نشو ونماہوئی۔ اس بورژوا طبقے نے بڑی صنعت اور عالم گیر منڈی قائم ہوجانے سے زیاست پر بلا شرکت غیر ے اپنے لئے سیاسی اقتد ار حاصل کرلیا۔ جد ید ریاست کا انتظا میہ تو محض ایک کمیٹی ہے جو پورے بورژواطبقے کے معاملات کی دیکھ بھال کرتاہے۔
انیسویں صدی میں صنعت کی ترقی ہوئی اور صنعت کی ترقی سے مزدور طبقہ کی تعداد بھی بڑھی۔1845 میں جرمن مزدور طبقے کی سیاسی پارٹی کمیو نسٹ لیگ کے نام سے قائم ہوئی۔ کا رل مارکس اور فریڈرک اینگلز بھی اس کے ممبر بنے ۔یہ پارٹی زیرز مین رہ کرسیاسی کام کرتی تھی ۔
1847میںاِ س کی کانگریس لند ن میں ہوئی ۔کارل مارکس نے اس کا نگر یس میں یہ تجویز پیش کی کہ اس پارٹی کا نظر یاتی اور عملی پر وگرام بنا یا جائے اور یہ پارٹی کھلے بندوں کام کرے۔ کانگریس نے پارٹی منشوربنانے کی ذمہ داری کا رل مارکس اور فریڈرک اینگلز کودی۔ انہوں نے جنوری 1848 کو منشو رتیا ر کرکے فروری 1848میں کمیو نسٹ مینی فیسٹو کے نام سے چھیواکر شائع کردیا۔ جرمنی کی رجعتی حکومت نے 1848 میں کمیونسٹ لیگ کے راہ نماﺅں کو گرفتار کرکے سنر ائیں دے دیں۔ پارٹی کے جوراہ نما گرفتاری سے بچ گئے تھے انہوں نے کمیو نسٹ لیگ کو تو ڑدیا ۔ 1848 سے مغر بی یورپ میں رجعتی دور شروع ہوا اور 1864تک رہا۔ 1864 میں مزدوروں میں ایک بار پھر حرکت پیدا ہوئی تو کارل مارکس اور فریڈ رک اینگلز نے دوسرے انقلابی راہ نماﺅں سے مل کردنیا بھر کے مزدوروں کی پہلی انٹر نیشنل قائم کی ۔ اس انٹر نیشنل کی شاخیں تمام سرمایہ دار ملکوں میں قائم کی گئیں ۔1870میں فرانس نے جرمنی سے جنگ چھیڑ دی۔ اس جنگ کے نتیجے میں1871 میں پیرس کے مزدوروں نے پیر س پرقبضہ کرلیا اور پیرس کمیون کے نام سے دنیا میں پہلی مز دور حکومت قائم کی۔ یہ حکومت 72دن قائم رہی۔ سرمایہ دار حکومتوں نے فرانس کی سرمایہ دار حکومت کی مدد کی اور پیرس کمیون کو بر باد کر لیا۔ پیرس کمیون کی ناکامی پر انٹر نیشنل کے راہ نماﺅں میں اختلا فات پیدا ہوگئے ۔کارل مارکس نے 1874 کو فرسٹ انٹر نیشنل کو تحلیل کردیا ۔
14 جولائی1889 کو انقلاب فرانس کی صد سالہ سال گرہ کے مواقع پر سر مایہ دار دنیا کے مزدور راہ نماجمع ہوئے اور مزدوروں کی دوسری انٹر نیشنل قائم کی اور اس انٹرنیشنل نے اپنا مقصد سوشلز م قرار دیا۔
انیسویں صد ی کے آخر تک سرمایہ داری نظام کے ممالک نے ایشیا افر یقہ اور لا طینی امریکہ کے تمام ممالک کو اپنی منڈ یاں بنا لیااور ان کو اپنے زیر تسلط یاز یر اثر لائے تھے۔ سرمایہ داری ترقی کرکے قومی سرمایہ داری سے اجارہ دار قومی سرمایہ داری ،امپر یلزم میں ڈھل گئی تھی ۔
جب بیسو یں صد ی شروع ہوئی تو سرمایہ دارممالک منڈیوں کی تقسیم پرآپس میں اُلجھ پڑے اور دوگروہوں میں بٹ گئے اوران کے درمیان منڈ یوں کی تقسیم پر پہلی عالمی جنگ 1914میں شروع ہوئی اور 1918میں ختم ہوئی۔ جنگ ابھی جاری تھی کہ 1917 میں روس میں مزدوروں نے زارکی بادشاہی کا خاتمہ کر کے حکومت پر قبضہ کر لیا ۔ اور روس میں کا مریڈ لینن کی راہ نما ئی میں سوشلزم کی تعمیر شروع کردی ۔
اس جنگ میں جر منی اور خلافت ترکیہ ایک طر ف تھے اور روس فرانس اور بر طا نیہ دوسری طرف ۔اس جنگ میں جر منی اورخلافت ترکیہ شکست کھاگئے۔ خلافت ترکیہ کی شکست سے دنیا سے آخری فیو ڈل ایمپا ئر ختم ہوگئی۔
بیسویں صدی میں دوسری عالمی جنگ 1939میں شروع ہوئی۔ اس جنگ میں ایک طرف جرمنی اٹلی اور جاپا ن تھے اور دوسری طرف بر طانیہ فرانس چین اور امریکہ تھے ۔ ہٹلر نے دوسال کے کم عرصے میں یورپ فتح کر کے سوویت یو نین (روس) پر حملہ کردیا۔ روزویلٹ صد ر امریکہ، چرچل وزیر اعظم بر طا نیہ اور چیا نگ کا ئی شیک صدرچین نے مشورہ کرکے سوویت یو نین کو ہٹلرکے خلا ف جنگ میں اتحادی بنا لیا۔ یہ جنگ 1945 میں ختم ہوگئی۔ اس جنگ میں جر منی ۔ جا پان اور اٹلی ہار گئے۔
جنگ کے بعد امریکہ کے صد رٹر ومین نے 1948 میں برطا نیہ فرانس جر منی اٹلی جاپان کینیڈ اور امریکہ کا اتحاد قائم کیا۔ سات بڑے سر مایہ دار ملکوںکے اس بلاک کے مقابلے میں سوویت یونین نے مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ملکوں کو ملا کر سوشلسٹ بلاک بنا یااور ان دونو ںکے درمیان سر دجنگ شروع ہوگئی۔ اس سردجنگ میں امریکہ اور سودیت یونین نے نئے نئے ہتھیار بنانے شروع کئے ۔ 1985 تک ان دونوں ملکوں نے انٹر کانٹی نیٹل میز ائیل بنالئے اور ایٹمی اسلحہ کے ڈھیر لگالئے ۔ اس نئی صورت حال نے یہ شعو ردیا کہ اگر اب جنگ ہوئی تویہ جنگ ایٹمی جنگ ہوگی اور اس جنگ میں آدمی ہی نہیں مریں گے انسان مر جائیں گے اور یہ حسین دنیا بھسم ہوجائے گی ۔
اس شعو ر نے یورپ امریکہ اور سو ویت یو نین کے حکمرانوں کو مجبور کیا اور امریکہ کینیڈ ااور سوویت یونین سمیت یورپ کے 34حکمران 20 نومبر 1990 کو پیرس میں جمع ہوئے اور اعلانِ پیر س کے نام سے ایک دستاویز تیار کی اور اس پر دستخط کئے ۔اس دستاویز میں اِن ملکوں نے سر د جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا اور20 سالہ امن او رعدم جارحیت کا معاہدہ کیا اور طے کیا کہ وہ بیسویں صد ی کے آخر تک ایٹمی اسلحہ ختم کر یں گے۔ دنیا میںپائید ار عالمی امن کے قیام کے لئے ہر قسم کے اسلحہ اور افواج کا خاتمہ کرکے مکمل ترک اسلحہ کا معا ہدہ کریں گے ۔جن ملکوں کے درمیان کشید گیاںہیں انہیں مذاکرت سے دور کرائیں گے ۔ملکوں کے اندرجمہو ری نظام قائم کرائیں گے۔ اس اعلان سے عالمی جنگ کے امکانات ختم ہوگئے ۔علاقائی امن تعاون اور باہمی اشتر ا ک کی راہیں کھل گئیں ۔ملکوں کے دمیان کشید گیاں دور کرنے کے لئے امن مذ اکرات شروع ہوئے۔ افواج کی ضرورت اور افادیت ختم ہوگئی ۔عوام کی حاکمیت مان لی گئی ۔ اس اعلان سے دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوگئی جو امن برابری جمہوریت بنیادی انسانی حقوق، سماجی انصا ف اور سوشلز م کی دنیاہے ۔
علاقائی امن تعاون اوراشتراک کا قیام شروع ہوا۔ میکسی کو، ریاست ہائے متحد ہ امریکہ اور کینیڈ امیں تعاون واشتر ک کا آغاز ہوا۔ مغربی یورپ کے پند رہ ممالک نے یورپی یونین بنائی ۔ سرمایہ دار ملکوں نے سوشلسٹ ملکوں اور ترقی پذیر ملکوں سے تعا ون اور اشتر اک کے لئے اقد امات شروع کئے ۔
سرد جنگ کے 42سالوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں زبردست ترقی ہوئی اور ان دونوں شعبو ں میں انقلاب بر پاہوگیا ۔ سائنس نے کا ئنا ت کے سربستہ رازدریافت کرلئے اور ثابت کر دیا کہ انسان نسل وحدت ہے ۔ بلا امتیازقومیت نسل رنگ، زبان ،عقید ہ اور جنس کے سب انسان برابر ہیں اور مادی دنیا کے وسائل پر برابر کاحق رکھتے ہیں۔ ٹیکنا لوجی کی نئی ایجا دات کمپیوٹر، الیکڑانک اور روبوٹ نے تسخیر فطر ت کی بے پنا ہ قوت انسان کے ہاتھ میں دے دی اور وہ ان جدید ایجا دات کی مد دسے مادی وسائل کو کام میں لاکر سب انسانوں کے لئے متوازن غذ اخوب صورت لبا س وتعلیم اور علاج کی مفت سہولتیں آرام وتفر یح کی سہو لتیں اور سب کو روزگا ر کے مواقع فراہم کر سکتا ہے ۔ ان 42 سانوں میں قومی اجارہ دار سر مایہ ملٹی نیشنل سرمایہ بن گیا ۔ ملٹی نیشنل سرمائے نے عالمی تجا رت کو آزاد کر دیاا ور ورلڈ ٹر یڈ آرگنا ئز یشن بنا کر عالمی تجا رت کو آزاد کردیا اور دنیا کو ایٹمی اسلحہ اور ہلاکت آفر ین اسلحہ سے پاک کر نے کے لئے معا ہدات بنائے اور ترک اسلحہ کے عالمی معا ہد ے کے لئے اقد امات شروع کئے ۔
بیسو یں صدی کے خاتمے کے ساتھ دنیا سے جنگ کے امکا نات ختم ہوگئے ہیں۔ پائید ارعالمی امن کے امکانات روشن ترہوگئے ہیں ۔
انیسویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے زبر دست امکانات پیدا ہوگئے تھے اور بیسو یں صد ی میں ان دونوںمیں انقلاب بر پا ہوگیا ۔
انیسویں صد ی میں کارل مارکس نے مادی دنیا کی ترقی، سماج کی ترقی اور انسانی فکر کی ترقی کے قو انین دریافت کئے اور مادی دنیا ، سماجی دنیا اور انسانی فکر کے ار تقا ئی عمل کے جدلیا تی مادیت اور تاریخی مادیت کے اصول وضع کئے اور غیر طبقا تی اور غیر استحصالی سماجی نظام کے راستے کی باقاعدہ وضا حت کی ۔
کارل مارکس کا سائنسی بنیاد پر واضح کیا ہوا یہ نیا سماجی نظر یہ نو ع انسانی کے مستقبل کے لئے بے حساب اہمیت کا حاصل ہے ۔عوام الناس کے دما غ کو منو رکرنے ان کے شعور کو بلند کرنے میں یہ نظر یہ زبر دست قوت بن گیا ہے اور اس نظر ےے کی روشنی میں اکیسویں صدی بنی نوع انسانی کی صد ی بنے گی۔ انسان غیر طبقا تی اور غیراستحصالی سماج کی تشکیل کریں گے اور اس کے ساتھ تکمیلِ ذات کرکے اپنی قسمت کے مالک بن جائیں گے۔
سر ما یہ داری کی نشو ونما ،تجا رت کی آزادی ۔ عالم گیر منڈی اور اس کے ساتھ متعلقہ حالات زندگی روزبر وزقو می امتیاز ات اور اختلا فات کو مٹاتی جاتی ہے۔ مزدوروں کی حکمرانی سے وہ تیزی سے مٹنے لگیں گے۔ ایک قوم کے ہاتھو ں دوسر ی قوم کااستحصا ل اسی نسبت سے ختم ہوگا جس نسبت سے ایک فرد کے ہاتھوں دوسرے فرد کا استحصال ۔ جتنی تیز ی سے قوم کے اندرطبقوں کا اختلا ف دور ہوگا اتنی ہی تیزی سے ایک قوم سے دوسری قوم کی دشمنی دور ہوگی۔
دوسری جنگ عظیم 1945 میں ختم ہوئی۔ اس کے بعد1948میں سر مایہ دارملکوں اور سوشلسٹ ملکوں کے دو بلاک بن گئے اور ان کے درمیان سرد جنگ شروع ہوئی جو 1990 تک جاری رہی ۔
سر دجنگ کے 42سالوں میں دو زبردست تبدیلیا ں وقوع پذ یر ہوئیں۔ اول سائنس اورٹیکنالوجی کاا نقلاب، دوئم سات بڑے سرمایہ دار ملکوں کے قو می اجارہ دار سر مائے کی ملٹی نیشنل سرمائے کی کارپور یشنوں میں صورت پذ یری۔1945کی جنگ کے خاتمے کے بعد دواوربڑی تبد یلیاں وقو ع پذ یر ہوئیں۔ ایک یواین اوکا قیام جوعالمی امن کے قیام ، دنیا کے سب انسانوں کے لئے خوراک دنیاکے سب انسانوں کی تند رستی کے لئے علاج ۔ بچوں اور عورتوں کے حقو ق اور بنیاد ی انسان حقو ق اور مز دوروں کے لئے یکسا ں حقو ق کی ضما نت اور انسان دوست کلچر کی ترقی کے لئے سرگرم عمل ہے ۔ دوسری بڑی تبد یلی یہ ہو ئی کہ ایشیا افر یقہ اور لاطینی امریکہ کے تما م محکوم ممالک سر مایہ دار ملکوں کی حکمرانی سے آزاد ہوگئے اور آخر ی محکوم ملک نمیبیا1990 میں آزاد ہوگیا۔
گویا کہ اس نئے دورمیںدنیا کے تما م ممالک آزاد ہیں۔ البتہ 1945 سے 1990 تک آزاد ہو نے والے ایشیا افر یقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک تر قی پذیر سر مایہ دار ممالک ہیں اور ان میں تین ممالک چین ویت نام اور کیوبا سوشلسٹ ممالک ہیں ۔سر ما یہ داری نظام پیدا وار عالمی نظام پیدا وار تر قی کے لئے تر قی یافتہ سرمایہ دار ملکوں کے راہ نما تیسرا راستہ تلاش کررہے ہےں۔ انہوں نے یورپ کے پندرہ ملکوں کی ترقی کے لےے تعاون و اشتراک کا راستہ تلاش کرلیا ہے اور شمالی امریکہ کے تینوں ملکوں کینیڈا ریاست ہائے امریکہ اور میکسی کو بھی تعاون اور اشتراک کی راہ پر گامزن ہوگئے ہیں۔
اکیسویں صدی میں ترقی کے لئے ایجنڈا تیار کیا جارہا ہے۔ لاطینی امریکہ کیوبا اور یورپی یونین کے ملکوں کو راہنما میٹنگیں کررہے ہےں۔ دوسری انٹرنیشنل کے راہ نما مشترکہ ایجنڈا بنانے پرغور کررہے ہےں ۔یورپ کی سوشلسٹ ڈیموکریٹک حکومتیں میٹنگیں کررہی ہیں۔ البتہ افریقہ کے ممالک جنوبی ایشیا اور مڈل ایسٹ کے ممالک باہمی تعاون اور اشتراک کا راستہ اختیار نہیں کرسکے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان خطوں میں بعض ملکوںکے درمیان کشیدگیاں موجود ہیں اور بعض ملکوں میں اقتدار پرست ریاستی اقتدار کے لےے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ جب تک ملکوں کے درمیان کشیدگیاں دور نہیں ہوتیں اور ملکوں کے اندر جمہوری نظام قائم نہیں ہوتا یہ ممالک اکیسویں صدی میں ترقی کا ایجنڈا تیار نہیں کرسکیں گے اور نئے عالمی نظام میں ان کا کوئی مقام نہیں ہوگا۔
پاکستان ترقی پذیر ملک ہے اس کی ترقی کے لےے لازمی اقدامات زرعی اصلاحات، جمہوریت کی بحالی فروغ اور استحکام، متناسب نمائندگی کا طریق انتخاب، نا خواندگی اور جہالت دور کرنے کے لےے میٹرک تک مفت تعلیم اور سائنسی علوم کا نصاب تعلیم اور عورتوں کو مردوں کے مساوی مقام اور برابر معاشی سیاسی اور سماجی حقوق اور ان سے امتیازی سلوک کرنے والے قوانین کی منسوخی کا پروگرام بنا کر اگلی صدی کے آغاز سے پہلے اس پر عمل شروع نہیں کیا جاتا تو پاکستان سائنس اور ٹیکنالوجی کے انقلاب سے فیض یاب نہیں ہوسکے گا اور ترقی اور خوش حالی کے راستے سے دور رہے گا۔