ہوئیں حیرت کے بھی اُس پار آنکھیں

خلاﺅں میں نہ اپنی گاڑ آنکھیں

رہیں روشن تری دلدار آنکھیں

نہ مجھ پہ اب تُو اپنی وار آنکھیں

بنیں شہدا کی قبروں کی خموشی

کبھی زندان کی دیوار آنکھیں

کبھی داغی گئیں یہ بھٹیوں میں

کبھی پیہم ہوئیں سنگسار آنکھیں

لپیٹے جارہی تھیں ہست و ہُو کو

ھنور سی وقت کی پُر کار آنکھیں

عدل گر ہے تو ہو انصاف برحق

یا اُس کی بھی ہیں جانبدار آنکھیں

عجب نظروں سے اکثر دیکھتی ہیں

مجھے رشتوں کی دنیا دار آنکھیں

معمہ ہیں تمہاری دوستی کی

کبھی پاگل کبھی فنکار آنکھیں

زماں کے دائروں سے اب نکل کر

ابد کی گھاٹیوں میں جھاڑ آنکھیں

مرے سینے میں چُبھتی جارہی ہیں

گھنے جنگل کی جھاڑی دار آنکھیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے