زخم میرے ہرے ہیں ابھی
دیکھو میرے بدن پر لگے گھاﺅ سب
رس رہے ہےں ابھی
غور سے ان کو دیکھو گے تو
ان کی تکلیف تم کو نظر آئے گی
یہ وہ گھاﺅ ہیں جن کو مری آنکھ نے
اپنی پلکوں سے
بچوں کے تن سے چنا
اور سمویا ہے اپنے بدن کے ہر اک عضو میں!
ان کا مرہم نہیں…….. ہائے، کوئی بھی مرہم نہیں
کیسے ہتھیار تھے، جن سے حملہ ہوا
ن پہ بچوں کے گویا برستی تھی اک آگ سی!
ان کے نازک بدن کو جھلستی ہوئی
کتنی شدت کی تکلیف تھی
درد کی چیخ تھی
جو مرے دل میںخنجر سی پیوست تھی
اور مسیحا کوئی دسترس میں نہ تھا
کوئی مرہم، نہ کوئی دوا
میں تڑپتے ہوئے ان کے جسموں پہ کچھ بھی لگاتی تو کیا؟
کوئی چارہ نہ تھا
اس لےے میں نے مانگی دعا……..
اے خدا، اے خدا، ان کو آرام دے
ان کی تکلیف سب مجھ کو ہی بخش دے
اے خدا میں ہوں موجود، حاضر ہوں میں
ان کی تکلیف مجھ کو عطا کر، خدا
جو بھی آزار ہے میرے بچوں کو
اس سے وہ آزاد ہوں
ان کے سب دکھ مجھے بخش، میرے خدا
میں تو ماں ہوں، سبھی زخم سہہ لوں گی میں
کوئی ساعت قبول ِدعا کی تھی وہ
ایک لمحے میں ساکت ہوئے سب بدن
موت کی نیند ایسی ملی
سو گئے جیسے آرام سے اس گھڑی
کوئی ہتھیار اب ان کو بیدار کرتا نہیں!
کوئی آزار اِن کو ستاتا نہیں
ہاں ، مگر
ان کے جسموں کے سب گھاﺅ اب
میرے اپنے بدن میں اتر آئے ہیں
اتنے گہرے کہ اب عمر بھر!!
یہ ہرے ہی رہیں گے ، بھرےں گے نہیں