لانگ مارچ کا لغوی ترجمہ طویل مارچ ہے ۔لفظ مارچ اصل میں عسکری پس منظر رکھتا ہے ہمارے ملک میں ہر کوئی لانگ مارچ کا دعویدار بنتا نظر آتا ہے آج اگر ماﺅزے تنگ عظیم ہیرو زندہ ہوسکتا تو ان کے کان پکڑو ا کر پوچھتا کہ تم انقلاب اور لانگ مارچ کے تقدس کو پامال کررہے ۔ ہمارے ملک میں سونامی ،دھرنا ،انقلاب اور لانگ مارچ کو مذاق بنا دیا گیا ہے ۔ہر ایرا غیرا انقلاب کے نعرے بلند کرتا ہے ۔کوئی انقلاب فرانس کی بات کرتا ہے حالانکہ لفظ انقلاب سے دہشت اور خوف آتا ہے ،بڑے بڑے لوگوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں جبکہ ہمارے کم عقل سیاست دانوں نے اس کو کھیل تماشا سمجھ رکھا ہے ۔ احتجاجی مارچ اور دھرنوں کی سیاست بیسویں صدی کے تیسرے عشرے سے شروع ہوتی ہے جب چین کے عظیم راہنما ماﺅزے تنگ نے ایک عظیم لانگ مارچ کا آغازکیا جس کے نتیجے میں چین کو آزادی نصیب ہوئی جس کی باگ ڈور اور قیادت چینی کمیونسٹ پارٹی کررہی تھی جس کے مقاصد واضح تھے ایک نیا سماج تعمیر کرنا لوٹ مار کا خاتمہ جاگیردارانہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرکے سوشلسٹ نظام کا احیاءکرنا ۔
چین کے عظیم راہنما ماﺅزے تنگ نے ایک عظیم لانگ مارچ کیا جس نے طویل مدتی آمرانہ دور کا خاتمہ کیا ماﺅزے چین کے وسیع و عریض علاقے میں ایک منظم لانگ مارچ کیا تھا ۔
پاکستان میں بھی لانگ مارچ کی تاریخ کچھ اس طرح ہے۔ 1958 میں مسلم لیگ قیوم کے سربراہ قیوم خان کی قیادت میں گجرات سے راولپنڈی تک اسی کے نتیجہ میں ایوب خان آیا ایوب دور میں محترمہ فاطمہ جناح نے ڈھاکہ سے چٹاگانگ تک اور پشاور سے کراچی تک ٹرین مارچ نوے کی دہائی میں بے نظیر نے نواز شریف کے خلاف مارچ کیا تو جنرل وحید کاکڑ نمودار ہوا۔ نواز شریف کو برطرف کیا گیا ۔ پاکستان بار کونسل نے 14جون 2008 کو اسلام آباد کی طرف مارچ کیا لیکن اس کو کامیابی نہ ملی ۔ مارچ2009 میں و کلاءسیاسی جماعتوں نے چیف جسٹس بحالی کے لےے لانگ مارچ کیا جو 60 کلومیٹر لاہور سے گوجرانوالہ میں ہی آرمی کے حکم سے واپس ہوا۔ دراصل فوج صدر زرداری کو اس کی اوقات میں رکھنا چاہتی تھی۔ پاکستان کی دوسری بڑی لانگ مارچ ڈاکٹر طاہر القادری کی تھی جس کو کنٹینر لانگ مارچ کہتے ہیں۔ اس کا فاصلہ300 کلومیٹر اور وقت38 گھنٹہ تھی۔ اس کی تعداد تیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ پاکستان کے ہر لانگ مارچ کے پس پردہ خاکی وردی ہی نظر آتی ہے ۔لفظ مارچ کا مفہوم پیدل جلنا یا گھوڑا سواری لیا جاتا ہے ۔ لیکن کسی بھی مارچ میں ایسا نہیں تھا ۔ سردی میںبنکرنما ٹرالے کاروں بسوں موٹر سائیکلوں پر سفر کا نام لانگ مارچ نہیں ہے ۔ مارچ کا اصل مفہوم خالص عسکری مارچ کا مفہوم رکھتاہے۔مغربی مصنفین اس لانچ مارچ کو لانگ پسپائی کہتے ہیں۔
پاکستان کے تمام لانگ مارچ میں بلوچوں کا لانگ مارچ جو ماما قدیر بلوچ فرزانہ مجید کی قیادت میں معصوم بچوں عورتوں اور بوڑھوں پر مشتمل تھا۔ جو اپنے پیاروں کی گمشدگی اور مسخ شدہ لاشوں کے بارے احتجاج کررہے تھے جس کا دورانیہ105 دن بنتا ہے اور سفر۔ یہ ایک عظیم لانگ مارچ تھا جس کی نظیر پاکستان تو کیا جنوبی ایشیا میں نہیں ملتی۔ یہ ایک پرامن لانگ مارچ تھا جس میں کوئی سیکیورٹی کا انتظام بھی نہ تھا۔ پوری قوم کو بلوچوں کے اس لانگ مارچ اور اس کے شرکا کو سلام پیش کرنا چاہےے کیونکہ اس میں مقاصد تھے ایک مظلوم قوم پر جبر و بربریت ایک ریاست کا چھوٹی قوم پر۔7اکتوبر2013 سے شروع ہونے والا یہ لانگ مارچ 2مارچ2014 کو اپنی منزل اسلام آباد پہنچا ۔سپریم کورٹ سمیت کسی ادارے کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔پنجاب کے علاوہ سندھ میں تو اس کا استقبال کیا گیا لیکن یونہی پنجاب میں پہنچا ان کو کوئی خاص پذیرائی نہ ملی۔ اسلام آباد میں تو بالکل ہی خاموشی رہی ۔ایسا نظر آیا شاید اس شہر کے باسیوں میں دل نہیں ہے کاش مشرقی پاکستان میں فوج کشی کے وقت اگر پنجاب میں اس کے خلاف احتجاج میں ایک دو لاشیں گر جاتی تو شاید بنگلہ دیش آج ہمارے ساتھ ہوتا ۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
ماﺅزے تنگ کی عوامی سرخ فوج ( پیپلز لبریشن آرمی) جسے غریبوں کی فوج کہا جاتا تھا ۔ جو لاکھوں مزدوروں کسانوں اور غریبوں پر مشتمل تھی ۔ ماﺅ کی فوج دراصل غریب کسانوں ننگ دھڑنگ عوام کی فوج تھی۔ اس کے پاس نہ ٹینک تھے نہ آرٹلری نہ ایئر فورس۔ نہ ٹرانسپورٹ نہ راشن جبکہ دشمن چیانگ کائی شیک کے پاس جدید ہتھیار اور اس کو مغرب کی حمایت حاصل تھی ۔ یہ لانگ مارچ368 دنوں پر مشتمل تھا ۔ اکتوبر1934 میں آغاز ہوا۔ لانگ مارچ کا اصل فاصلہ 6000 میل تھا۔
فوج میں دو لاکھ افراد تھے جب یہ مارچ اپنی منزل پر پہنچا تو اس کے شرکا کی تعداد صرف چالیس ہزار کے لگ بھگ تھی ۔ گویا ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد بھوک نا مسائد حالات کا شکار ہوگئے ۔ماﺅزے کے لانگ مارچ پر کئی کتابیں چھپ چکی ہیں ۔ لیکن ان میں سب سے مستند کتاب وہ ہے جو ایک امریکی صحافی ایڈگرسنو نے تحریر کی جو لانگ مارچ کے ساتھ ساتھ رہا ۔ جس کا نامRed Star Over China تھا جو 1937میں شائع ہوئی۔ دوسری کتاب ان ٹولڈ سٹوریز ہے ۔ یہ دونوں امریکی لکھاری ہیں ۔ پھر2004 ایک خاتون نے اس سفر کا آغاز یہاں سے سفر شروع ہوا تھا آخری منزل پر گئی۔ اور لوگوں کی یادداشتوں پر مشتمل تھا ۔ یہ جاننا چاہتی تھی کہ ان 2لاکھ مردوں عورتوں نے کن حالات میں سفر کیا ۔یہ دنیا کا ایک عجوبہ ہے ۔ماﺅ کی عوامی فوج صرف غریب عوام پر مشتمل تھی اسی لےے اس کو غریبوں کی فوج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ماﺅ کو روس کی حمایت ضرور حاصل تھی لیکن چونکہ وہ بھی انقلاب سے گزرا تھا اور ابھی سنبھل نہیں پایا تھا ۔ ماﺅ کی فوج کو گوریلا جنگ کا سہار الینا پڑا جب چیانگ کی فوج کا دباﺅ پڑا تو شام5 بجے 16 اکتوبر1934 کو نہایت خفیہ طریقے سے آغاز ہوا تھا۔
ماﺅ کی افواج تین افواج پر مشتمل تھی فرسٹ کور، اسکینڈ کور فورتھ آرمی ماﺅ ٹرسٹ آرمی کور کے ساتھ ۔ ہر قوم کی تخلیق میں ایک داستان Myth ہوتی ہے جہاں تک کمیونسٹ چین کا تعلق ہے تو اس کی داستان لانگ مارچ ہے۔
صحافی ایڈگر سنو لکھتا ہے کہ کمیونسٹ سرخ فوج کا پورے چین سے رابطہ تھا اگر چہ سفید علاقوں میں یہ سیٹ پکڑے گئے لیکن کومنتانگ حکومت اس نظام کو توڑنے میں ناکام رہی۔ چوا ین لائی کا کہنا تھا کہ سرخ فوج نے سفید فوج سے چھینے گئے سامان سے پہلی مرتبہ شعبہ مواصلات قائم کیا۔ اور ان کے خفیہ کوڈ ( ریڈیو کوڈ) کو حل نہ کرسکے ۔سرخ فوج کا ریڈیو ٹریننگ سکول بھی تھا۔ ہولنگ کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلی مرتبہ چاقو کے ہتھیار سے کسانوں کو مسلح کیا ۔
جب ہولنگ کی فوج سیکنڈ آرمی1935 میں پیچھے ہٹی تو رائفلوں کی تعداد 40 ہزار سے زیادہ تھی ۔ہزاروں سپاہی برف پوش پہاڑوں میں مر گئے ہزاروں فاقہ کشی اور دشمن کی بمباری سے مر گئے ۔ سرخ فوج جنوبی کیانگسی میں پوتو کے قریب جمع ہوگئی تو اسے عظیم مارچ کا حکم ملا جو 16 اکتوبر1934 کو شروع ہوا تین راتوں تک سرخ فوج دو حصوں میں بٹ کر جنوب اور مغرب کی طرف بڑھتی گئی فوج کے باقاعدہ دستو ں کے علاوہ اس مارچ میں ہزاروں کسان بچے بوڑھے عورتیں جوان کمیونسٹ غیر کمیونسٹ بھی شریک تھے۔ تمام اسلحہ ساز کارخانے اور دوسری فیکٹریاں اکھاڑ لی گئیں ان کی مشینری کو خچروں اور گدھوں پر لادا گیا ۔ ہر وہ چیز جو اٹھائی جاسکتی تھی۔ اس عجیب و غریب قافلے ساتھ یوں یوں سفر طویل ہوتا گیا اس بوجھ کا کچھ حصہ چھوڑنا پڑا ۔کہا جاتا ہے کہ ایک بھاری مشین کو گڑھا کھود کر زمین میں دبا دیا گیا۔
سُرخ فوج جن علاقوں کو فتح کرتی وہاں جاگیریں غریب کسانوں میں تقسیم کردی جاتی تھیں انہوں نے ایشیا کے بلند ترین برف پوش پہاڑوں اور غضبناک دریاﺅں کو عبور کیا۔ یہ ایک صبر آزما اور طویل جنگ تھی ۔ اس مارچ میں دریائے تاتو کو عبور کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ اگر یہ دریا عبور نہ ہوتا تو شاید چین کا انقلاب نہ ہوسکتا۔
لانگ مارچ کے دوران ماﺅسمیت بہت سے کمانڈروں کے بیوی بچے بھائی اور دوسرے رشتہ دار قتل کردےے گئے ماﺅ کے بارے ایک جگہ ایڈ گر سنو لکھتا ہے کہ ماﺅ کو گرفتار کرکے فوجی ٹرک میں لے جایا جارہا تھا کہ ماﺅ نے چھلانگ لگادی شام کا وقت تھا ماﺅ ایک تالاب کے کنارے لمبی گھاس میں چھپ گیا کئی بار فوجی ان کے بالکل قریب پہنچ گئے ماﺅ وہاں سے کئی رات پہاڑوں میں پیدل چلتا رہا اس کے پاﺅں لہو لہان ہوگئے ماﺅ نے پورا سفر عام سپاہیوں کے ساتھ پیدل اورخچروں پر کیا صرف علالت کے ایام میں وہ گھوڑے پر سوار تھا۔
لانگ مارچ کے اعداد و شمار کے مطابق سرخ فوج کو اوسطاً روزانہ ایک جھڑپ سے واسطہ پڑا ۔پندرہ دن جم کر لڑنے سے واسطہ پڑا سفر کے 368 دنوں میں سے 235 دن سفر کرتے ہوئے 18 رات سفر میں جن100 دنوں کو قیام کا عرصہ شمار کیا جاتا ہے ۔ اب6000میل کے سفر میں صرف44 دن قیام رہ جاتے ہیں جس کا مطلب ہوا اوسطاً114 میل کے بعد ایک قیام روزانہ منزل24 میل تھی۔ دنیا کے دشوار گزار ترین راستوں پر اتنی بڑی فوج اور اس کے جانوروں کے ساتھ یہ رفتار ایک حیران کن اوسط ہے ۔ انہوں نے 24 دریا عبور کےے 20مختلف صوبوں سے گزرے 62 بڑے شہروں پر قبضہ کیا 10 مختلف جنگی سرداروں کی ناکہ بندی کو توڑا۔ وہ مختلف 6جنگی سرداروں وحشی قبائل کے درمیان سے گزرے اور ان علاقوں میں داخل ہوئے جہاں صدیوں سے کسی چینی سپاہ کے قدم نہیں پڑے تھے۔ ویسے سرخ فوج کا طویل سفر بلاشبہ ایک طرح کی منظم پسپائی تھی جو علاقائی فیصلہ کن شکستوں کی وجہ سے اس لےے لازم ہوگئی تھی تاہم اس فوج نے اپنی بنیاد کو سلامت اپنے حوصلے اور اپنی سیاسی ایمان کو قائم رکھتے ہوئے اپنے بنیادی مقاصد کو حاصل کیا۔ کمیونسٹوں نے یہ تاثر دیا اور شاید ان کا ایمان بھی یہی تھا کہ وہ ایک جاپان دشمن محاذ کی طرف بڑھ رہے ہےں ۔ یہ ایک فیصلہ کن نفسیاتی عنصر ثابت ہوا۔ اس کی وجہ سے وہ بظاہر ایک حوصلہ شکن پسپائی کو ایک ولولہ انگیز پیش قدمی کی صورت دینے کے قابل ہوگئے۔ تاریخ نے ان کے فیصلہ کو صحیح ثابت کیا کہ وہ اپنی ہجرت کو ثانوی وجہ کو اولیت دینے میں برحق تھے۔ ان کا ایسے خطہ کی طرف بڑھنا صحیح قدم تھا جو چین جاپان روس کے مقدر پر فوری اور فیصلہ کن اثر ڈال سکتا تھا۔
ایک لحاظ سے یہ لانگ مارچ انسانی تاریخ میں سب سے بڑا مسلح پراپیگنڈہ ٹور تھا۔ وہ جن صوبوں سے گزرے ان میں کم و بیش20 کروڑ انسان بستے تھے ۔ جب بھی ان کو لڑائیوں سے فرصت ملتی وہ ہر مقبوضہ گاﺅں اور شہر میں عوامی اجتماعات طلب کرتے تھیٹر کے کھیل دکھاتے ” سرخ لالٹین“ پیکنگ او پیرا اور دیگر کھیل دکھاتے جن کو بعض اوقات سفید فوجی بھی دیکھتے تھے۔ وہ امیروںپر بھاری ٹیکس عائد کرتے غلاموں کو جاگیرداروں سے آزاد کرے ۔ جن میں سے اکثر سرخ فوج میں شامل ہوجاتے ۔ آزادی مساوات اور جمہوریت کا پرچار کرتے۔ غداروں بڑے جاگیرداروں افسروں کی جائیدادیں ضبط کرتے۔ اور ان کی املاک غریبوں میں بانٹ دیتے۔ کروڑوں غریبوں نے سرخ فوج کے قول و فعل کو دیکھ لیا تھا ۔ اب ان کو متنفر کرنا مشکل تھا ۔ انہوںنے زرعی انقلاب کے مقاصد اور جاپان دشمن رویہ کے متعلق کسانوں اور غریب عوام کو آگاہ کیا انہوں نے کسانوں کو مسلح کیا اور ان کے درمیان کمیونسٹ مبلغ بھیجے جو ان کو گوریلا جنگ سے متعلق ٹریننگ اور مسلح کرتے ۔ ان میں سے ہزاروں افراد طویل اور ہمت شکن مارچ کے دوران ختم ہوگئے لیکن ان کی جگہ بہت سے کسان مزدور غلام اور بے شمار دھتکارے لوگ اُمڈے چلے آئے ۔ امریکی صحافی ایڈسنو نے 6 ہزار میل کی سیاست کے بارے ایک کلاسیکل نظم کا آزاد ترجمہ پیش کیا جو ماﺅنے لکھی تھی۔ یعنی ایک ایسے مجاہد نے جو شعر کے ساتھ ساتھ جہاد کی قیادت کرنے پر قادر ہے۔
سرخ فوج نے صبر آزمالانگ مارچ سے کبھی بھی خوف زدہ نہ ہوتے ہوئے
بے شمار چوٹیوں اور دریاﺅں کو تمسخر سے دیکھا۔
دولیانگ کا سلسلہ راستے میں آیا مفتوح ہوا اوربھنور بناتا ہوا غائب ہوگیا ۔
سنہری ریت کے دریا کی چٹانوں کے ساتھ سر پھوڑنے والی گرم لہریں اور تاتو کے پل کی سرد آہنی زنجیریں۔
من شان کی تازگی بخش برف پر ایک ہزار لی کا سفر
اور پھر آخری درہ سرنگوں ہوا تین فوجیں مسکرانے لگیں۔
دنیا کے اسی مرد آہن کی وفات پر 1976 میںمیاں سلیم جہانگیر مرحوم کی مشہورنظم پیش کےے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ملاحظہ فرمائیں۔ نظم کا عنوان ” ماﺅزے تنگ “ زندہ باد
ڈوھنگا وانگ سمندراں سی اوہ اُچاوانگ اسمان
لفظ و چارے لیک نئیں سکدے ماﺅزے تنگ دی شان
سورج سی اوہ جس نوں ویکھ کے نسیا رات دا سایہ
صدیان بدھی برفاں دے مونہہ مڑکا اُترآیا
بندی واناں نئی آزادی ماڑیاں لئی اوہ مایا
او ہدیاں کو کاںٹنب چگایا قبریں پیا انسان
ڈھوہنگا وانگ سمندراں سی اوہ اُچاوانگ اسمان
لفظ و چارے لیک نئیں سکدے ماﺅزے تنگ دی شان
نویاں فجراں نویں سویرے اُوس دے پچھے آئے
ظلم دیاں کھلواڑیاں نوں اوس اگ دتے لانبو لائے
پیراں نوں من مرضی مل گئی کھیڑے مار مکائے
ڈگیاں ڈھٹھیاں رانجھیاں دا کر گیا اُچا مان
ڈھوہنگا وانگ سمندراں سی اوہ اُچا وانگ اسمان
لفظ و چارے لیک نئیں سکدے ماﺅزے تنگ دی شان
تیجی دنیا دے بے تھا ویں نوں مل گیاں اج تھاواں
سامراج نوں چھاپے گتھے ماﺅدے چھاپے ماراں
جتھے او ہدے کالے چڑ گئے ڈول گیا ں سرکاراں
ماﺅ کدے بھی مرنئیں سکدا میرا ہے ایمان
ڈھوہنگا دانگ سمندراں سی او ہ اُچا دانگ اسمان
لفظ و چارے لیک نئیںسکدے ماﺅزے تنگ دی شان
یہ تو تھا ماﺅزے تنگ کا حقیقی لانگ مارچ لیکن پاکستان میں فکری
پھکڑوں کے لانگ مارچ بھی آپ کے سامنے ہیںایک لانگ مارچ14 اگست
کو آرہا ہے لیکن اس کا نام ایک مُلاّں جمیل کے کہنے پر آزادی مارچ
میں تبدیل کردیا گیا یہ دراصل آبپارہ کمپنی کالانگ مارچ ہی ہے۔