زندگی تجھ سے کوئی گلہ تو نہیں

ایسا کچھ بھی نہیں جو کہ بدلا نہیں

یا ملا ہی نہیں

پھر بھلا کیوں خوشی میرے دل کو نہیں

اک خلش سے ہوں بے چین میں آج بھی

جیسے مایوس کن اک خلجان ہو

اک خلش سی سلگتی ہو دل میں مرے

مجھ کو لگتا ہے جیسے کمی ہو کوئی

دھیمی دھیمی، سلگتی ہوئی آگ سی

جیسے یکدم اچانک بھڑک جائے گی

میرا گھر بار، سکھ چین مٹ جائے گا!

میں کہ خویش و اقارب کے چاروں طرف

ایک پتھر کی مضبوط دیوار ہوں

مطمئن ہوں بہت اپنے ماحول سے

اپنے بچوں سے، کنبے کے افراد سے

صبح کے ناشتے، شام کی چائے پر

اپنے بچوں کے، شوہر کے آنے کے اوقات سے

منسلک ہے مرا ضابطہ روز کا

ساس ، نندوں سے، اعزا سے شکوہ نہیں

کچھ بھی ایسا نہیں جو بڑھائے کسک

یا تردّد کا احساس پیدا کرے

میرا گھر، ایک جنت نشاںآستانہ، مرا سائباں

میرے گھر کا سکوں

یہ سکوں میری اپنی ہی ایجاد ہے

سوچتی تھی مری زندگی کتنی محفوظ ہے

کتنا آرام ہے، کتنی آسائشیں

کتنا سکھ ہے مری روز مرہ کی اس زندگی میں ۔۔۔مگر

کچھ دنوں سے مرے دل کی گہرائی میں

ایک کانٹا سا چبھنے لگا تھا سدا

ا ک خلش سی مرے دل میں پلنے لگی تھی ، کہ جو

مجھ کو شاید گوارا بھی ہو اک گھڑی کے لیے!

ایک خواب ِ گراںتھاکہ یا واہمہ تھا مرا

مجھ کو ایسے لگا ، بال و پر میرے اپنے ہی خود ساختہ ہیں

کہ میں اُڑ رہی ہوں کہیں دور ، اوپر ہی اوپرخلاﺅں کی آغوش میں

چھوڑ کر روز مرّہ کی اس زندگی کو ۔۔۔

میں خوش ہوں بہت، خدا جانے کیوں مجھ کو ایسے لگا۔

پھر یکا یک کوئی ایک آواز مجھ کو جگانے لگی

اور گرانے لگی

جیسے کھائی میں، گہری اداسی کی تنہائی میں

قید ہوتی گئی، خود کو کھوتی گئی

اب نہ میں ہوں، نہ میرا کوئی آستاں

اب کسی سے بھی کچھ میرا رشتہ نہیں !

کوئی ناطہ نہیں

ایک گھر میں ہوں لیکن یہ گھر میرا اپنا نہیں

میرا کچھ بھی نہیں!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے