دل زدہ شہر کے آلام کو پر لگ جائیں

مے کدے ناچ اٹھیں جام کو پر لگ جائیں

تیز کرتے ہیں سفر لوگ مکانوں کی طرف

جب پرندوں کی طرح شام کو پر لگ جائیں

دل تمناں کی تخلیق پہ مامور رہے

اور اس کوشش ناکام کو پر لگ جائیں

یہ طلسمات کی دنیا ہے یہاں کیا معلوم

ایک دن مصر کے اہرام کو پر لگ جائیں

لوح افلاک پہ بادل مجھے خوش خط لکھیں

تو پکارے تو مرے نام کو پر لگ جائیں

یہ نہ ہو جاگ اٹھے مجھ میں لپک اڑنے کی

یہ نہ ہو گھر کے در و بام کو پر لگ جائیں

آسمانوں پہ کہیں اگلا خدا تو ہی نہ ہو

کیا خبر کب مرے اوہام کو پر لگ جائیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے