سی آر اسلم ایک ایسا نام ہے جس کے ذکر کے بغیر پاکستان ہی نہیں پورے برصغیر جمہوری کی تاریخ ادھوری تصور کی جائے گی۔سی آر اسلم اوائل جوانی میں متحدہ ہندوستان میں جاری روشن فکر کی تحریک کا حصہ بنے۔ہندوستان کی تقسیم کے وقت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بہت سے اہم لوگ اور عہدے دارے پاکستانی علاقوں سے ہجرت کر کے بھارت روانہ ہو گئے۔تقسیم ہند کے بعد جب کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تو اس کی پہلی سنٹرل کمیٹی کے اراکین کے لیے سجاد ظہیر ،سبط حسن ، مرزا اشفاق بیگ، مرزا محمد ابراہیم ، سوبھو گیان چندانی ، جلال ا لدین بخاری ، فیروزالدین منصور، ایرک سپرین ، سردار شوکت علی ، محمد حسین عطااور محمد افضل جیسی نابغہ روزگار شخصیات کے ساتھ سی آر اسلم کو بھی منتخب کیا گیا۔کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی کے بعد اس ملک میں بائیں بازو کی جتنی بھی تنظیمیں اور اتحاد قائم ہوئے اس کے لیے نہ صرف سی آراسلم نے کلیدی کردار ادا کیا بلکہ اہم عہدوں پر بھی فائز رہے۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد جب مغربی پاکستان میں عوامی نیشنل پارٹی (بھاشانی گروپ) ختم ہوگئی توسی آرسلم اور ان کے ساتھیوں نے مل کر یہاں پاکستان سوشلسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ سوشلسٹ پارٹی کے، ورکر پارٹی میں ادغام تک سی آرسلم نے اس جماعت کے صدر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔

سوشلسٹ پارٹی کے لیے سی آراسلم کے بعدمیاں محمود کی خدمات کو سب زیادہ اور اہم تصور کیا جاتا ہے۔ میاں محمود احمد کی خدمات کو اہم تصور کیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ 5 – میکلوڈ لاہور پر واقع دفتر انہوں نے اپنے وسائل سے خرید کر سوشلسٹ پارٹی کے لیے وقف کیا۔
سوشلسٹ پارٹی اور پاکستان کے بائیں بازو کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دینے والے سی آراسلم اور میاں محمود احمد میں ایک یکسانیت یہ بھی ہے کہ ان دونوں کا انتقال جولائی کے مہینے میں ہوا۔ سی آراسلم کی تاریخ وفات 10 جولائی 2007 اور میاں محمود احمد کی 3 جولائی 1999 ہے۔
پاکستان کے بائیں بازو کی تحریک کے بلند پایہ نام سی آر اسلم کی یاد میں جب ماہ جولائی میں تقریب کے انعقاد کا پروگرام ترتیب دینے کے لیے جب دوست احباب اکٹھے ہوئے تو یہ تجویز سامنے آئی کہ جس دفتر میں یہ تقریب منعقد کی جائے گی اس دفتر کو تحریک کے لیے وقف کرنے والے کی برسی بھی کیوں کہ ماہ جولائی میں آتی ہے تو کیوں نہ سی آراسلم کے ساتھ میاں محمود احمد کو خراج تحسین پیش کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اس تجویز کا تمام دوستوں نے بھر پور خیر مقدم کیا۔
10 جولائی کو 5 – میکلوڈ لاہور پر سی آر اسلم اور میاں محمود احمد کی یاد میں ایک مشترکہ تقریب کے اہتمام کا فیصلہ کیا گیا۔ اس تقریب میں بائیں بازو کی تمام پارٹیوں اور گروپوں کو مدعو کیا گیا کیوں کہ ان تمام گروپوں میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی نہ کسی دور میں کسی نہ کسی حوالے سے سی آراسلم کے علم اور کرادار سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ سی آراسلم کیونکہ کسی ایک پارٹی کا نہیں بلکہ تما م بائیں بازو کا اثاثہ ہیں اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ان کی یاد میں تقریب کا انعقاد کسی ایک پارٹی کے بینر کی بجائے بائیں بازو کی اوپن سماجی تنظیم سوشل ڈیموکریٹک فورم کے تحت منعقد کیا جائے۔
اس انتظام کے بعد 10 جولائی کو 5 – میکلوڈ لاہور پر سی آر اسلم کی ساتویں اور میاں محمود احمد کی پندرہویں برسی کے سلسلہ کی تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت بزرگ دانشور جناب رو¿ف ملک اور محترم پروفیسر محمد ظفر نے مشترکہ طور پر کی۔ اس تقریب کے خاص مہمان سی آراسلم کے صاحبزادے ڈاکٹر سفیان اسلم اور میاں محمود کے قریبی عزیز جناب نوشیروان اجمل تھے۔ اجلاس میں عوامی ورکر پارٹی کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان، پاکستان مزدور محاذ، مزدور کسان پارٹی ، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، نیشنل سٹودنٹس فیڈریشن، مزدور مرکز کوٹ لکھپت، عوامی جمہوری فورم، پاکستان کسان کمیٹی، عوامی نیشنل پارٹی، وارث شاہ وچار پرچار، متحدہ ٹریڈ یونین فیڈریشن کے لوگوں کے علاوہ لاہور ہائیکورٹ اور لاہور بار ایسوسی ایشن کے ترقی پسندجمہوری اور دہشت گردی کے مخالف وکلاءنے بھی شرکت کی۔
ملک محمد اسلم نے تقریب کا آغاز کرتے ہوئے مجلس کے انعقاد کی غرض وغایت بیان کی۔ ملک اسلم نے دونوں قائدین کے ساتھ اپنی وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے ان کی سیاسی بصیرت اور پارٹی کے کاموں کو ہر ذاتی کام پر فوقیت دینے کی عادت کا ذکر کیا۔انہوں نے سی آر اسلم سے اپنا تعلق قائم ہونے کے بارے میں بتایا کہ وہ سرحدی دیہات سے اٹھ کر لاہور وکالت کرنے کے لیے آئے جہاں ان کی لوگوں سے زیادہ واقفیت نہیں تھی۔پہلے سے موجود سینئر وکلاء سے تعلق قائم کرنے کی ان کی خواہش انہیں سی آر اسلم کے قریب لے آئی۔ اس کے بعد یہ قربت سی آر اسلم کے آخری سانسوں تک قائم رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے وکالت سمیت زندگی میں جو کچھ بھی سیکھا وہ سی آر اسلم کی ذات سے قربت کا مرہون منت ہے۔ اس نے پارٹی اور تحریک کے لیے میاں محمود احمد کی وابستگی کے متعلق بتایا کہ میاں صاحب اپنی کار پر 1970 ءمیں منعقد ہونے والی مشہور زمانہ کسان کانفرنس میں شرکت کے لیے ٹوبہ ٹیک سنگھ گئے تھے۔ وہاں جب کانفرنس کے اخراجات کے لیے فنڈز کی کمی کا مسئلہ درپیش آیا تو انہوں نے وہیں اپنی کار بیچ کر بلوں کی ادائیگی کی اور خود وہاں سے بس میں بیٹھ اپنے شہر لائلپور واپس آئے۔پارٹی دفتر کی خریداری کے لیے ویسے تو تمام دوستوں نے حسب توفیق حصہ ڈالا لیکن اس کام کے لیے میاں محمود احمد کا حصہ اتنا زیادہ تھا کہ اس دفتر کی رجسٹری اُن کے نام کرائی گئی۔
اسلم ناگی نے بتایا کہ عوامی نیشنل پارٹی (بھاشانی )میں انہوں نے اور سی آر اسلم نے ایک ساتھ کام کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سی آر اسلم کسی بھی عہدے کی حرص سے بے نیاز ہو کر پارٹی کے لیے کام کرتے تھے۔ سی آراسلم جب پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے تو یہ ان اپنی خواہش نہیں تھی بلکہ دوستوں کا ان سے اصرار تھا۔اسلم ناگی نے میاں محمود احمد کے بارے میں کہا کہ جب وہ ساتھ ہوتے تھے تو ان کے ہمراہیوں کو یہ فکر نہیں ہوتی تھی کہ ان کے پاس زاد راہ کس قدر کم ہے یا سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تحریک کے دوستوں کے لیے میاں محمود کا دل اور جیب ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ اسلم ناگی نے کہاکہ یہ باتیں وہ میاں محمود کے ساتھ جاپان اور ہانگ کانگ کے سفر کے دوران حاصل ہونے والے تجربات کی روشنی میں بیان کر رہے ہیں۔
مرزا زین العابدین نے سی آر اسلم کے ساتھ گذرے ہوئے وقت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی ذات میں ایک یونیورسٹی تھے جس کا مقصد حیات ہی لوگوں کو جدلیاتی عمل اور علم سے بہرہ ور کرنا تھا۔ یہ کام سی آراسلم محض لاہور میں بیٹھ کر ہی نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے لیے کسی بھی شہر اور دیہات میں جانا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اسی مقصد کے لیے جب سی آراسلم بورے والہ گئے تو وہاں ان سے ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات ہی ان کی بائیں بازو کی سیاست میں آمد کا باعث بنی۔
سی ایم لطیف نے کہا کہ سی آراسلم ایک ایسا سراپا روشنی تھے جن میں بنیاد پرستی اور استحصالی نظام سے اکتائی ہوئے لوگوں کو امید کی کرنیں نظر آتی تھیں۔
شیخ آصف نے تقریب میں ایک مکالہ پیش کیا جس میں سی آراسلم کی بائیں بازو کی تحریک کے لیے خدمات شرکا ءمجلس کے سامنے رکھ کر انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا۔
وزیر علی ساہو نے سی آراسلم کے مارکسزم پر عبور کا ذکر کیا اور میاں محمود کے دوستوں سے محبت اور ایثار کے واقعات سنائے۔
تنویر علی نے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں سی آراسلم جیسا کوئی ایسا انسان نہیں دیکھا جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف طبقاتی سیاست ہو۔ تنویر کاکہنا تھا کہ سی آر اسلم کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ طبقاتی سیاست کرتے ہوئے ان کا طرز زندگی اپنایا جائے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ جنوری 2015 ء میں سی آر اسلم کا سواں جنم دن ہوگا جس کو بائیں بازو کے تمام لوگوں کوجوش و خروش سے منانا چاہیے۔
پرویز مجید نے کہا کہ سی آراسلم سے تو ان کی زندگی میں ان کی کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن انہیں افسوس ہے کہ تحریک کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والے میاں محمود احمد سے وہ کبھی نہ مل سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق میجر اسحاق محمد صاحب سے تھا۔ پنجاب کی ثقافت کو اجاگر کرنے پر زور دینے کی وجہ سے میجر اسحاق کی پارٹی کو ثقافتی گروپ کا نام دیا گیا۔ اسی طرح سی آر اسلم کی پارٹی اور احباب کو فلسفہ گروپ کہا جاتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ناموں کی اس تفریق کے باوجود بھی سی آراسلم سے تعلق واسطہ رہا اور ان سے سیکھنے کا موقع ملتا رہا۔
محمود احمد ایڈووکیٹ نے سی آر اسلم سے اپنی وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس عظیم اور بے لوث ہستی سے تعلق ان کی زندگی کا اثاثہ ہے اور انہیں ہمیشہ اس بات پر فخر رہے گا کہ لوگ انہیں سی آراسلم کا شاگرد کہتے ہیں۔
زاہد پرویزنے سی آراسلم اور میاں محمود کے ساتھ گذارے ہوئے اپنے وقت کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں سی آر اسلم نوجوانوں کی نظریاتی بے چینی کو ختم کر کے انہیں طبقاتی سیاست کی راہ پر چلنے کے لیے مائل کرتے تھے وہاں میاں محمود ایسے وسائل مہیا کرتے تھے جس سے نوجوانوں کو ترقی پسند سرگرمیاں جاری رکھنے میں مدد ملتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے قیام اور اس میں کام کرنے والے طالب علموں کوسہولتیں فراہم کرنے کے لیے میاں محمود نے ہر ممکن کوشش کی۔ان کا کہنا تھا کہ سی آر اسلم اس لیے بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ اپنی جدوجہد کو کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ڈسپلن کے تابع رکھا۔ انہوں نے بتایا کہ سی آر اسلم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بہت بڑے لیڈر ہونے کے باوجود ہمیشہ کارکنوں سے خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ وہ کارکنوں کے ساتھ کئی کئی گھنٹے باتیں کرتے رہتے اور کبھی بھی ان کے سوالوں پر اکتاہٹ کا اظہار نہ کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ کارکنوں سے براہ راست رابطہ کا سی آراسلم کا انداز اب بائیں بازو کی سیاست سے مفقود ہو چکا ہے۔ اب لوگ محض محدود وقت کے لیے میٹنگوں میں آتے ہیں۔
شیخ کلب علی نے عوامی جمہوری فورم کے مجلہ کے لیے کیے گئے سی آر اسلم کے انٹرویو کے کچھ اقتباسات حاضرین مجلس کو پڑھ کر سنائے۔ ان اقتباسات کی روشنی میں شیخ کلب علی کا اصرار تھا کہ سویت یونین کے انہدام کے بعد سی آر اسلم اس نتیجے پر پہنج چکے تھے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا کے پائیدار امن کے لیے جمہوری سیاست ہی اب بائیں بازو کے لوگوں کا مرکز و محور ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ تبدیل شدہ عالمی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے سی آراسلم نے مسلسل غور و خوض کے بعدیہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ قومی سرمایہ کیونکہ اب عالمی و بین الاقوامی سرمائے کی شکل اختیار کر چکا ہے اس لیے اب یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اس تبدیلی کے ساتھ ہی سامراجی طاقت بھی تحلیل ہو چکی ہے کیونکہ نہ تو یہاں کوئی ایمپائر سٹیٹ موجود ہے اور نہ ہی اس کی قانونی ، معاشی اور تجارتی پابندیوں میں جکڑی ہوئی نو آبادیاں ہیں۔ یہ دور سرمائے،ٹیکنالوجی، محنت اور اشیائے تجارت کی آزاد نقل و حمل کا دور ہے۔اس لیے اس تبدیل شدہ دور کے مطابق بائیں بازو کی سیاست کے رنگ ڈھنگ بھی تبدیل ہونے چاہئیں۔
راجہ ولایت نے کہا کہ اس وقت ملک کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ دہشت گرد ہمارے جان ومال ،ترقی اور تہذیبی ارتقاءکے سب سے بڑے دشمن ثابت ہو رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی سامراج مردہ باد کا نعرہ گو کہ بائیں بازو کی آواز تھا جسے سرد جنگ کے زمانے میں ایجاد کیا گیا۔ یہ نعرہ بائیں بازو کے کارکنوں کے لیے ہر دلعزیز ہوتا تھا ۔ ہمیں ارتقائی سفر جاری رکھتے ہوئے اپنے نعرے تبدیل کرنے او ر تبدیل شدہ حالات کے مطابق نیا پروگرام اور نیا لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سوشل ڈیموکریٹک فورم میں شامل دوستوں کے ابتدائی کام شروع کر دیا ہے۔اس مقصد کے لئے ” سرد جنگ کا خاتمہ اور سوویت یونین کی تحلیل کے بعد بائیں بازو کی راہ عمل “ کے نام سے کتابچہ تحریر کیا گیا ہے۔ راجہ ولایت نے آخر میں دوستوں سے گذارش کی کہ اس کتابچہ کا مطالعہ کریں اور اصلاحی عمل میں ہماری رہنمائی کرتے ہوئے تبدیلی اور ارتقائی عمل کا حقیقی حصہ بنیں۔
راجہ ولایت کے بعد تقریب کے مہمانان خصوصی ڈاکٹر سفیان اسلم اور نوشیروان اجمل نے بھی مختصراً خطاب کیا۔ انہوں نے منتظمین اور حاضرین کا اس بات پر شکریہ ادا کیا کہ سی آر اسلم اور میاں محمود احمد کو ان ساتھیوں نے ان کی رحلت کے کئی برس بعد بھی یاد رکھا۔ انہوں یہ تجویز کی کہ دونوں مرحوم رہنماو¿ں کو صحیح معنوں میں خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے نام سے ایسی لائبریریاں قائم کی جائیں جو تحقیقی کاموں میں معاون ثابت ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے وہ حسب توفیق ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تقریب کے اختتام پر پروفیسر محمد ظفر کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کی یاد میں ہم یہاں اکٹھے ہوئے ہیں وہ واقعی بڑے لوگ تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اتنا کام کیا کہ ان کے وصال کے بعد بھی ہم ان کو یاد کرنے کے لیے جمع ہوگئے ہیں۔ شاید ہمارے بعد ہمارے نام پرلوگ اس طرح اکٹھے نہ ہوسکیں کیوں کہ ہمارا کام ہمارے رہنماو¿ں کے کام کے مطابق نہیں ہے۔ تقریب کے آخری مقرر پاکستان کے سب سے سینئر ترین دوستوں میں شمار ہونے والے جناب رو¿ف ملک تھے۔ انہوں نے منتظمیں اور حاضرین کا اس بات پر شکریہ ادا کیا کہ ان کی کوششوں سے دوستوں کو مل بیٹھے نے موقع ملا۔ انہوں نے اپنی 71 سالہ سیاسی زندگی کے دوران سی آراسلم اور میاں محمود احمد سے رفاقت کے کئی ایک قصے بیان کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اور سی آر اسلم کئی مرتبہ اکٹھے جیل میں بھی رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سی آراسلم کو ہمیشہ ثابت قدم پایا۔
اس کے ساتھ ہی تقریب بیاد سی آر اسلم و میاں محمود احمد اختتام پذیر ہوئی۔

 

0Shares
One thought on “سی آر اسلم اور میاں محمود”
  1. Assalam o Alaikum wa Rahmatullah e wa Barakatoho,
    Ezzat M,aab Muhtram Shaikh sahib! I am student of PhD Islamic Studies
    in Sargodha University.My topic for PhD thesis is ” PUNJAB MAEN ULOOM
    UL QURANWA TAFSEER UL QURAN PER GHAIR MATBOOA URDU MWAD” please guide
    me and send me the relavent material.I will pray for your success and
    forgiveness in this world and the world hereafter.
    Jzakallah o khaira
    hopful for your kindness.
    your sincerely and Islamic brother,
    Rafi ud Din
    Basti dewan wali street Zafar bloch old Chiniot road Jhang saddar.
    Email adress: drfi@ymail.com mob: 03336750546,03016998303

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے