تاریخ کے رواں دھارے کے سو برسوں سے میں ہم ایک ہی جگہ پر ثابت قدمی سے کھڑے ہیں۔ریاستی سطح پر ہم اپنا سب کچھ بین الاقوامی طاقتوں کے قدموں میں ڈال چکے ہیں، کرپٹ سرمایہ کے کرپٹ ترین ممالک اور کمپنیوں کی قدموں میں۔ یہ وطن شروع کی طرح، آج بھی دوسروں کی ضروریات کی تکمیل کے لےے حاضرِ ہے۔ تیل و گیس و کوئلہ و کاپر اور سونا چاندی کے ذخائر ٹرانس نیشنل کمپنیوں کی جھولی میں ڈالے، عرصہ بیت گیا۔ ہماری ہر منافع بخش چیز لگتا ہے آٹو میٹک اور جبلی طور پر بہہ کر سامراجی سرمایہ کے تالاب میں جانے کی عادی ہوچکی ہے۔ سمندری حیات ، سمندری روٹس، سمندری جغرافیائی اہم مقامات ،اُسی کی خدمت میں دستہ بستہ ایستادہ ہیں۔ سبزی، فروٹ ،گوشت اور پشم بالخصوص اپنے کھیتوں دیہاتوں سے بڑے شہروں، اور یا پھر،انتہائی مغرب کو مہاجرت کے لےے ناقابلِ مزاحم طور پر رواں دواں ہیں۔
اورہماری سرکار!! وہ تو بس ایک کمیشن ایجنٹ ہے۔اور ہمارے سرمایہ دار !! وہ تو ملٹی نیشنل کے محض منشی اور کارندے ہیں۔اور ہمارے عوام الناس !!وہ تو سرمایہ داری نظام کے مسلط کردہ موت کی اذیت گاہ میں زندگی کے شب و روز جھیل رہے ہیں۔ دہشت گردی اپنی جگہ مگر یہاں قتلِ عام کی اصلی ذمہ دار تو غربت ہے۔ غربت ہر سال اموات کی ہیروشیمائی تعداد ساتھ لاتی ہے۔
مگر غربت کی اموات ایک راز ہیں۔یہ و ہ تشدد ہے جو مقامی اور عالمی سرمایہ دار منظم طور پر لاگو رکھے ہوئے ہیں۔ یہ و ہ تشدد ہے جو حقیقی موت ہے،مسلسل بڑھتی ہوئی موت ۔ غربت وہ موت ہے جو ایسی آبادی پر مسلط ہے جو پُر درد زندگی کے ہاتھوں ازل سے دانت بھینچی جی رہی ہے۔ غربت ایک ایسی موت ہے جس کی خبر دینے کی بجائے دبانے پہ میڈیا کو پیسے ملتے ہیں۔ میڈیا جو بظاہر ہمیں بہت ہی سنسنی خیز ، آزاد اور وائبرنٹ نظر آتا ہے۔
ہمارا یہ چیختا چنگھاڑتا اوربریکنگ نیوز پیش کرتا میڈیا ،محض اُس دوسری دہشت گردی کی خبریں دیتا ہے جسے مصنوعی طور پر مغرب و پاکستانی حکمران طبقات نے 40سال قبل متعارف کرایا تھا اور جس نے ہمارے سماج کی رگ رگ میں سرایت کرکے اس کی فطری بڑھوتری بھی روک دی ہے۔ ایسی اولاد جسے پال پوس کر بڑا کرنے کے بعد اُس سے خود پر بمباری کرائی جاتی ہے اور اُس پر بمباری کی جاتی ہے ……..سامراج کا بازیچہ اطفال بھی کس قدر لرزہ خیز ہوتا ہے ۔
بدترین فیوڈلزم کی سماجی اور سیاسی خرابیاں عروج پر ہیں جنہیں جینا موت سے بھی بدتر ہے ۔ جی ہاں، یہ سماج موت سے بھی بدتر زندگی جی رہا ہے۔ جہالت، فکری پسماندگی، روحانی پژمردگی ، ابدی نا امیدی، بدترین ہائی جی¿ن، بے مہارا ربنائزیشن،سرپٹ بڑھتی ماحولیاتی آلودگی، عورتوں بچوں اور کمزور معاشی سماجی گروہوں طبقوں کی حالت ِ زار …….. سڑنا گلنا آپ کسے کہتے ہیں۔ منظم طور پر تعلیم اور اُس کے اداروں کو برباد کےے جاﺅ کہ سوچ اور تفکر کا بازار ہی بند ہوجائے ۔ فرقوں کی بھرمار اور اُن میں کلاشنکوفی مباحثوں کی زبردست حوصلہ افزائی، تاکہ بنیادی مسائل تک نگاہ جا ہی نہ سکے۔
یہاں انسانی دانش کو انہی باتوں میں ڈال کر بونابنادیا گیا ہے ۔یہاں لیفٹ ، رائٹ، سنٹر کسی بھی سیاسی جماعت کا حتمی منزل سیاسی معاشی تبدیلی برپا کرنانہیں ہے۔ کسی پارٹی کا حتمی مقصد و Task انقلاب نہیں ہے۔ سب صبح کو شام اور شام کو صبح بنانے والی سیاست کرتے ہیں…….. ۔جب غریب روٹی روزی کے لےے صبح کو شام کرے اور شام کو صبح، تووہ پیٹ اور جیب کا دیوالیہ کہلاتا ہے۔ یہاں ہماری پوری سیاست اور دانش سماجی تبدیلی کو منزل قرار نہ دے کرمحض قراردادوں پریس ریلیزوں میں صبح کو شام ، اور شام کو صبح کردینے والی سیاسی پارٹیاں خود کو ”بصیرت کادیوالیہ “کربیٹھی ہیں۔
ایسے لگتا ہے جیسے یہ نظام سب کو سُوٹ کررہا ہو، اور کوئی اس میں بنیادی تبدیلی کا نہ خواہاں ہے اور نہ اُس کے پاس ایسا کرنے کا ایجنڈہ ہے۔سب معروضی حالات کے موزوں نہ ہونے کا رونا رو رہے ہےں ۔ معروضی حالات گویا من و سلویٰ ہیں جو بغیر ہاتھ پیر ہلائے آسمان سے اتریں گے۔
ہمارا بس چلے تو ایک ہی نعرہ دیں:
عوامی تقدیر بدلنے کے معروضی حالات پیدا کےے جاسکتے ہیں!