اڑتی اڑتی خبر مجھ تک بھی آن پہنچی کہ ڈاکٹر پیرک کو مچ جیل بھجوادیا گیا ہے۔ وہ” پیر کا کی تاڑ “کی مانند ایک بے ضرر سا انسان تھا ۔ مچھلیاں پھانسنے کے علاوہ اس نے کوئی بھی واردات نہیں کی تھی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ مچھلیوں کا بلند پایہ شکاری ہے۔ کانٹے ڈال کر بیٹھے رہنے کو شکار کا نام تو نہیں دیا جاسکتا۔ یوں تو سنگھوڑے میں ہاتھ پاﺅں مارنے والے نو مولود کو بھی پہلوان ہی کہنا پڑے گا ۔ یہ بھی شنید میں آیا کہ نرسوں نے آہوں اور سسکیوں کے ہجوم میں اسے رخصت کیا۔ افغان جنگ زوروں پہ تھی۔ افغانستان سے یہاں آکر پناہ لینے والے کو یہاں تو افغان بھگوڑے کہا جاتا جو کہ جنگ کرنے کی بجائے کیمپوں میں یہاں ہر چیز بکتی ہے کے بورڈ لگائے بیٹھے تھے۔ امریکی ڈالر سعودی ریال ان کا من و سلویٰ تھا ۔لہٰذا ہمارے ڈار ۔ بٹ اور چوہدری افسران داڑھیاں بڑھانے افغان روپ اختیار کےے افغانستان میں لڑے جارہے تھے ۔آخر کسی کو تو اسلام کی سر بلندی کے لےے لڑنا ہی تھا ۔ ورنہ اگر سوشلسٹ نظام زر کسی طور سرمایہ دارانہ نظام پہ بھاری پڑتا تو ظل الٰہی امریکہ کا کیا بنتا۔ ہمیں ہی عتاب شاہی کا نشانہ بننا پڑتا۔ ڈاکٹر پیرک بھی ایسے ہی باغیانہ خیالات کے باعث حکمرانوں کی نظر میں کھٹکھتا تھا۔ ہم نے بارہا مشورہ بھی دیا کہ کسی نرس کے ساتھ کہیں فرار ہوجائے تو بہتر ہے۔ اگر گائنا کالوجسٹ مل سکے تو کیا بات ہے کیونکہ بچے پیدا کرنا ہی ہماری اصل پروڈکشن ہے جی ڈی پی ہے ۔ پیرک کے یوں مچ جیل جانے سے ماحول میں سراسیمگی پھیل گئی ۔ نرسوں کی حالت سنبھلی ۔ انہیں لخلخا سنگھایا تو انہوں نے راز اگلا کہ پیرک کو بطور جیل ڈاکٹر بھجوایا گیا ہے ۔ ڈھارس بندھی کہ اگر سرکار نے ہمیں جیل بھجوایا تو اپنا کوئی والی وارث تو وہاں ہوگا ہی ۔وہ مشقت ہی معاف کردے گا۔ اگر ڈاکٹر لکھ دے کہ دل کا مریض ہے کوڑے برداشت ہی نہ کرپائے گا۔ تو پھر فوجی عدالتوں کے احکامات کے باوجود کوڑے نہیں مارے جاتے تھے۔ غرضیکہ ڈاکٹر پیرک امرت دھارا بن گیا ہمارے لےے۔ وہ ہرطرح مدد کرسکتا تھا ۔ ہم اسے ملنے گئے تو وہ ایک کلینک بھی کھول چکا تھا ۔ جو بھی مریض آتا دھڑ سے اسے ڈرپ لگادیتا ۔ ہمیں بھی تاکید کی کہ شرف بازیابی کے لےے جیل کی بجائے کلینک آیا کریں ۔ وہ بھی مریض بن کرلنگڑاتے ہوئے یا پھر کھانستے ہوئے ۔ خدا توفیق دے تو ادھر ادھر سے اصلی مریض بھی پکڑ لائیں تاکہ مچ میں رعب پڑے کہ کوئٹہ سے مریض دوڑے چلے آتے ہیں۔ حالانکہ کوئٹہ کلینکوںا ور اخباروں کا قبرستان ہے۔ وہاں سے کسی مسیحا کے پاس علاج کے لےے چلے آنا بڑی بات تھی۔ پیرک کشتی نوح سے اڑنے والی فاختہ کی مانند بے ضرر تو تھا ہی ساتھ ہی ساتھ ہوشیار بھی تھا۔ مریضوں کی جیبیں خالی کرانے کے لےے نت نئے حربے استعمال کیا کرتا۔وہ خوش ہوتا کہ مجرموں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے ۔ اگر خدانخواستہ قدیم دور کی طرح بھوکے شیروں کے آگے ڈالا جاتا تو اس کا کیا بنتا ۔ وہ شکر ادا کرتا کہ آدم خور شیر بھوکوں مر گئے ۔ اب حکمران عوام کو بھوکے شیروں کی مانند کھاتے ہیں۔ اور مرحوم شیر صرف مسلم لیگ ن کے جھنڈے پر ہی رہ گیا ہے۔ شاعری میں چونکہ ن عورتوں کا علامیہ ہے۔ اور ن ایک خاص نسوانی معنویت کے ساتھ ہی آتا ہے ۔ لہٰذا وہ نہایت ہی بے باکانہ تبصرے کرتا ۔ اور ڈنڈے سے تو خوف کھاتا مگر جھنڈے کے شیر سے نہ ڈرتا کہ اسے شیرمیں ن کی جھلک دکھائی دیتی۔
ڈھاڈر میں ہمارے دو مستقل میزبان تھے ۔ ملک دینار خان بنگلزئی کہ ڈسٹرکٹ چیئرمین زکوٰة کمیٹی بھی تھا ۔ اور میر صالح محمد رند۔ انہیں ہم فون کرتے اور ان کی جانب سے انتظام ہوجاتا۔ دینار بھی زکوٰة کی بجائے ذاتی جیب سے ہم پر خرچ کرتا ۔ حالانکہ ڈاک خانے کے افسروں کو زکوٰة دینا مباح ہے ۔ ہمارا قافلہ شکاریاں مچ میں سے زبردستی پیرک کو کلینک سے اٹھا کر لے جاتا اور پھر درہ بولان میں مناسب مقام پہ پڑاﺅ ڈالتا۔ مچھلیاں پکڑنے والے ، جال پھینکنے والے ،مچھلیاں صاف کرنے والے اور تلنے والے افراد ہمارے میزبان فراہم کرتے ۔ پیرک سے سامان رسد مل جاتا۔ پہلی بار تو ڈرنے ڈرتے ہی ہم جیل گئے تھے کہ مبادا دھر ہی نہ لےے جائیں ۔مگر افسروں نے گرمجوشی سے استقبال کیا ۔ عجیب سا خوفناک ماحول تھا مگر پیرک سے مل کر تو ہمیں یوں لگا کہ جیسے کوئی گمشدہ سنگت صدیوں بعد ملا ہو ۔ پیرک مچ آکر مچ (کھجور کا درخت ) کی مانند اکیلا نہ رہا۔مجلسی انسان تھا۔ چند ہی روز میں وہ بے حد مقبول ہوگیا۔ مگر وہ اب مچھلی پکڑنے کا مشغلہ ہی نا پسند کرنے لگا تھا۔ وہ اپنے کلینک کے لےے موزوں جگہ بازار میں تلاش کرکے کلینک چلانے بلکہ دوڑانے لگا تھا۔ کہنے لگا کہ مچھلیوں پہ جال پھینکنے کی نسبت مریضوں پہ کمند آور ہونا بدر جہا بہتر ہے۔ اس نے خاصے عذر تراشے اس نے یہ بھی ڈرا وا دیا کہ مچھلی سوبھی جائے تو اس کی آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔ کیا عجب کہ اتنی مچھلی کھانے سے سبھی کو یہ عارضہ لاحق ہو۔ مچ جیل کے پانی نے اسے سخت مچھلی پرست بنا دیا تھا جس کا بظاہر تو سبب یہ تھا کہ وہ اپنے کلینک میں ہی کانٹی ڈال کے بیٹھنا چاہتا تھا ۔ سردار چاکر رند گو صدیوں پہلے ہی پنجاب جا آباد ہوا تھا۔ جبکہ یہیں رہ جانے والوں نے ان کی روایات کو نبھائے رکھا ۔ میر صالح محمد رند بھی ہیبتاں کی مانند قول نبھانے والا اور بیبرگ کی مانند مدبّر تھا۔ جبکہ ملک دینار خان بنگلزئی بھی سردار شہک کی مانند ہمیشہ سچ بولتا۔ دوستی نبھاتا ۔ وہ دنوں ہی ہماری خاطر مدارت کرتے۔
درہ بولان میں سہ پہرا ترقی ہے ۔ پھر شام دبے پاﺅں چلی آتی ہے۔ اس کے بعد رات چھا جاتی ہے ۔ پانی بہنے کی آوازیں ، ہواﺅں کا ترنم اور دور سے آتے جاتے ٹرکوں کی لا تعداد بتیاں عجب بہار دکھلاتیں ۔بولان میں رات بسر کرنا نہایت ہی پُر لطف اور خیال آفریں تجربہ ہے ۔ جمبانڑیں میں تو شمب جلا کر بھی مچھلی کا شکار کیا جاتا مگر یہ فن محدود تھا جس کے باعث سرشام ہی سامان سمیٹ کر ہم الاﺅ کے پاس چلے آتے ۔
شام میں جنات اور دیگر پُر اسرار مخلوقات کے بارے میں کہانیاں سنی سنائی جاتیں۔ ایک ایسی ہی رات میں جبکہ درہ بولان میں ہوائیں کوند رہی تھیں۔ پانی پتھروں سے ٹکراتا ، گنگناتا موسیقی بکھیرتا ہزاروں لاکھوں برس پرانے جانے پہچانے رخ پہ بہے جارہا تھا دور بہت دور ٹرکوں کی بتیاں میدانی علاقوں کی جانب بڑھ رہی تھیں پرانے قصے کہانیاں بیان کرتے ہر دوست بوجھ بجھکڑ بنا اپنے قصے سچ ثابت کرنے کے سر رہتا ۔ الاﺅ سے چنگاریاں پھوٹ جاتیں اور ہواﺅں سے الاﺅ کا رخ بدلتا تو ہم بھی نشست بدلنے پر مجبور ہوجایا کرتے ۔ میں نے دوستوں کو باور کرانے کی کوششیں کی کہ پرانی کہانیوں میں، داستانوں میں کچھ نہ کچھ صداقت ضرور رہی ہوگئی۔ لوگ باگ ایک بلند قامت جانور کو اُچ نہار کہا کرتے تھے۔ وقت نے ثابت کردکھایا کہ وہ عفریت نما جانور ڈائینا سور تھا جس کا ڈھانچہ بھی بالآخر ملا۔ پرانے زمانے میں جادوئی ٹوپی کا چرچا تھا ۔ داستا نیں اس ذکر سے بھری پڑی ہیں۔ یقیناً کوئی ایسی ٹوپی رہی ہوگی۔
اس پہ تو خوب قہقہے بلند ہوئے جب میں نے دوستوں کو بتلایا کہ میں تو کوہ کیر تھر میں اسے تلاش کرتا پھرا ۔ اور کالی پت میں جسے انگریزوں نے اپنے تلفظ میں خلیفت بنا دیا بہت دن تلاش کیا۔ یہ چیزیں محض خیالی نہیں ہیں۔ البتہ نسل درنسل یہ کہانیاں منتقل ہوتے ہوتے اپنے اصل صداقت کھو بیٹھی ہیں۔
دوستوں کا اصرار تھا کہ یہ محض ذہنی اختراع ہے۔ پریاں، بونے ، الف لیلیٰ کی چالیس شہزادیاں ۔ الہ دین کاجادوئی چراغ۔ انسان کچھ لمحے خوش رہنا چاہتا ہے۔ زندگی کے تلخ حقائق سے گھبرا کر انسان ایسی داستانیں ایسی کہانیاں گھڑ لیتا ہے ۔ جو اسے خورش رکھ سکیں۔ وہ اسی مایا جال میں خوش رہتا ہے۔ بولان کی رات اس قدر سحر آگئیں ہوا کرتی ہے کہ سونے کو دل نہیں چاہتا ۔اس حسن کو من میں سمٹنے کے لےے باتیں کیا کرتے ہیں۔ نہیں کہتا تھا کہ کہانیوں میں داستانوں میں کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور موجود ہے ۔ دوست میرے اس یقین اور خواہش پہ دیر تک قہقہے لگاتے رہے۔ پھر مجھے گراں قدر مشورے بھی دےے گئے کہ خلیفا ء، آماچ اور ہر بوئی کی بلندیوں پہ جادوئی ٹوپی تلاش کروں۔ حالت بہ ایں جار سید کہ میں مچھلیاں پکڑتے ادھر ادھر ہوتا تو وہ آوازے کستے ۔ ” جادو کی ٹوپی والے ! کدھر ہو بھائی“۔ جال کھنچنے والے بھی دلاسہ دیتے کہ کسی روز مچھلیوں کے ساتھ ہی جادوئی ٹوپی بھی برآمد ہوجائے گی ۔اس کا انتقام میں نے یوں لیا کہ ایک بار پریذیڈنٹ سیکریٹریٹ کسی دوست سے ملنے گیا تو سرکاری ڈی او پیڈ کے کچھ ورق ساتھ ہی لیتا آیا۔ ملک دینار چونکہ چیئرمین ڈسٹرکٹ زکوٰة کمیٹی تھا ۔ اسے نہایت افسرانہ انگریزی میں تنبیہ جاری کردی کہ صدر تم سے نا خوش ہیں۔ تمہارا ایک دوست لنگڑا ہے ۔ دو ایک یتیم و یسیر ہیں۔ ایک تو بالکل ہی پاگل ہے ۔ اس کی گنوکی پہ بھی تمہیں ترس نہ آیا۔ تمہارا دل نہ پسیجا ۔ فوراً زکوٰة فنڈ سے انہیں مالی امداد دو اور پاگل دوست کو زکوٰة کے پیسوں سے کسی اچھے سے پاگل خانے میں داخل کرادو ۔ میں نے فرضی دستخط کرکے سرکاری لفافے میں ہی مراسلہ رجسٹری کردیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ملک دینار اُسے بھانپ لیا۔ چند روز بعد میرے ہی پتے پہ سرکاری رجسٹری آئی لکھا تو صدر مملکت کو تھا۔ مگر لفافے پہ میرا پتہ تھا ۔ اس نے وضاحت کی کہ ایسے سبھی لوگ خود آ کر اپنے آپ کو رجسٹر کروائیں ۔ نیز ان کے لےے صوابدیدی فنڈ سے صدر پاکستان کچھ عنایت فرمائیں ڈسٹرکٹ بولان کا چیئرمین زکوٰة ایسے تلنگوں (VAGABONDS) کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتا۔ دینار نے ایک روز مجھے ایک بلوچی ٹوپی تحفتاً دی۔ جو کہ کشیدہ کاری کا شاہکار تھی۔ اس میں ننھے منے شیشے بھی بہار دکھارہے تھے۔ پیروں کی طرح نسل درنسل ہمارے حاکم تو ازل سے ہیHELI0PHOBIC ہیں۔ وہ ملک پہ اندھیرے تانے رہتے ہیں۔ جس کے باعث بلوچ اپنی ٹوپی پہ آئینے لگائے رہتے ہیں کہ شاید ان منّے منّے آئینوں سے ہی روشی اتر آئے۔ دینار خوشدلی سے مسکرایا ۔
” جادو کی ٹوپی تو میں نہیں دے سکتا ہاں یہ بلوچی ٹوپی قبول کرلو تمہارا عید کا تحفہ ہے۔ کیا عجب اس کے بعد جادو کی ٹوپی بھی مل ہی جائے۔ جیسے کہ ایک شخص کو سڑک پہ نعل ملا تو کھل اٹھا اور صد الگائی۔ یا اللہ صرف تین نعل اور ایک گھوڑے کی ضرورت رہ گئی ہے “۔
عید کے روز میں بلوچی ٹوپی پہن کر ہی نماز کے لےے گیا۔ احباب سے ملنا ملانا ہوا۔ عید کے اگلے روز اپنے بھائی میجر احمد گل سے عید ملنے اکیلا ہی جیپ چلاتاسٹاف کالج پہنچا ۔ چونکہ عید کی چھٹیاں تھیں میں نے سرکاری ڈرائیور کی عید خراب کرنا مناسب نہ جانا۔ اسے گگڑائی سے نہ بلوایا ۔ میں سٹاف کالج کے گیٹ پرہی دھرلیا گیا۔ کہاں تو سپاہی جھٹ گیٹ کھول مسکراتے ہوئے راستہ دیا کرتے۔ کہاں مجھے بائیں جانب جیپ روکنے کا اشارہ کیا۔ سوال و جواب ردو کد کے بعد میرے بھائی کو فون کرکے تصدیق کروائی۔ میری جیپ میں جھانکتے پھرے ۔بارے طوہاً کراہاً اجازت دے دی۔ میں حیران سا بھائی کے ہاں پہنچا۔ وہاں کچھ ملاقاتی پہلے سے براجماں تھے میں نے ذکر مناسب نہ سمجھا ۔ اس کے بعد میں بریگیڈیئر شفیق نیازی سے عید ملنے گیا تو گیٹ پر ہی روک کر میری جیپ کی تلاشی لی گئی۔ میرا سرکاری کارڈ ، شناختی کارڈ ،گاڑی پارک کرنے کا کہہ کرMP-5 بردار دو مستعد سپاہی مجھے مشکوک انداز میں گھورتے چلے گئے ۔ ان کے تیور بتلارہے تھے کہ وہ مجھے بھوپت ڈاکو سمجھ رہے ہیں۔ میں نے ذرا گڑ بڑ کی تو وہ مجھے بھون ہی ڈالیں گے۔ بارے ایک اور دوست کے ہاں پہنچا تو وہاں بھی شناخت پریڈ کروائی گئی۔ میں سر پکڑ کے رہ گیا ۔ کہاں تو ہنستے مسکراتے دوستانہ انداز کے سپاہی جھٹ راستہ دیا کرتے کہاں یہ افتاد آن پڑی کہ ہر کوئی مجھے مشکوک اور دشمن سمجھ رہا تھا ۔ جیپ پر سرکاری نمبر پلیٹ کے ہوتے ہوئے بھی ANTA GONISTIC دکھائی دے رہا تھا تب میں ایک دوست کے ہاں جا ڈھیرہوا۔ اسے فسانہ غم سنایا۔ پرانی داستانوں کے ٹوٹ بھی لگائے کہ کس طرح کسی بددعا یا شراپ کے باعث بادشاہ یا شہزادے کی شکل و صورت ہی بدل گئی۔ انہیں کوئی بھی نہ پچانے اپنے ہی سپاہی جوتے ماریں ۔ انگریزی کی وہ کہانی بھی سنائی جس میں ایک شہزادی خفیہ طورپر محل سے باہر نکل گئی ۔ عوامی میلہ دیکھا لوگوں میں گھل مل گئی۔ شام کو محل لوٹی تو اس کی شکل ہی قدرت نے بدل ڈالی۔ دروازے پہ ہی سپاہیوں نے روک دیا۔ اور برہمی سے واپس جانے کا حکم دیا کہ ہرایرے غیرے کو شاہی محفل میں آنے کی اجازت نہیں۔ ادب ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ ورنہ جلال شاہی نازل ہونے کا احتمال ہوگا ۔ یہ سوچ کر کہ رات نے مذاق نہ کیا ہو میں نے آئینہ منگوا کرروئے زیبا کے درشن لےے ۔ وہی ٹیڑھے میڑھے دانت ، چھوٹی چھوٹی اندر دھنسی انکھیں ۔ ان کے نیچے پپوٹوں پہ سیاہ حلقے !کچھ تو نہ بدلا تھا ۔ معاً میرا دوست چلا اٹھا” یہ جادو کی ٹوپی تمہارے سر پہ نئی ہے ۔ جادو سر چڑھ کے بولتا ہے ۔ تم یہ ٹوپی اتار کے دیکھو “۔ میں نے ٹوپی اتار کے بغل میں داب لی ۔ اب جو چھاﺅنی کی سڑکوں پہ نکلا تو دنیا ہی بدل چکی تھی۔ کہاں تو ہے یہ وہی آسماں اور ہے وہی زمیں۔ پر مہری کو دوبارہ راج پاٹ مل گیا یا مظہر العجائب جہاں جاﺅں مسکراہٹوں سے استقبال ہو۔ بیریرز کھلتے ہی چلے جائیں ، زنجیریں چھن سے زمین بوس ہوں ۔ گیٹ دل مضطرکی مانند واہوں۔
ملک دینار عید ملنے آیا تو معانقہ و مصافحہ کے میں نے تُرت سوال کیا۔
” سنا ہے کہ انگریز بلوچی ٹوپی کے بہت ہی قدر دان تھے۔چارلس نیپیئر نے 1846 میں اعلان کیا تھا کہ جو کوئی بلوچی ٹوپی لائے گا ۔ اسے دس روپیہ انعام دیا جائے گا“۔
ملک دینار بہت محظوظ ہوا ۔”1846کے دس روپے ؟ یہ تو آج کل کے حساب سے لاکھو ں بنتے ہیں ۔سر چارلس نیپیئر نے بلوچی ٹوپی نہیں، ٹوپی کے نیچے والا سر مانگا تھا ۔ ہر مری کا سر لانے والے کو دس روپیہ انعام ملا کرتا ۔ مگر سرسلامت بھی ہیں۔ سر بلند بھی ہیں“۔
تحفہ لوٹانا بڑی معیوب سی بات ہے، مگر میں نے ڈرتے ڈرتے بلوچی ٹوپی دینار کو لوٹانا چاہی۔ ”معذرت چاہتا ہوں! میں یہ ٹوپی نہیں پہن سکتا۔یہ واقعی جادو کی ٹوپی ہے “۔
دینار نے استعجاب سے ابرو اٹھائے اس کی آنکھوں کا سوال لبوں تک نہ آنے پایا تو میں خود ہی بول اٹھا۔
” جادوئی ٹوپی پہننے والا تو دکھائی نہیں دیتا ۔ جبکہ یہ ٹوپی پہننے والا نہ صرف یہ کہ دکھائی دیتا ہے بلکہ ستم یہ کہ دشمن ہی دکھائی دیتا ہے“۔