آخری کیل ٹھونک کر جب تابوت ساز نے مجھے باقی تابوتو ں کے ساتھ لاکر رکھا، تب مجھے اپنے نئے وجود کا احساس ہوا۔ اس سے قبل میں کس شجر کا حصہ تھا، اور کہاں سے کٹ کر کہاں کہاں سے ہوتا ہوا یہاں تک پہنچا تھا، اب اس سے مجھے کوئی سروکارنہ تھا۔ ٹکڑے ٹکڑے ہوتے اور پھر اوزاروں کی مدد سے جڑتے جب میں نے یہ نئی شکل اختیار کی اور ایک نئے مکمل وجود میں ڈھل گیا تو ایک نئے احساس سے سرشار ہوا۔
حالانکہ تابوت کی شکل میں وجود پانا کچھ ایسا خوش گوا ر احساس نہ تھا۔اس سے کہیں اچھا تھا کوئی ایسی کھڑکی بننا جو کسی کے لیے تازگی کا سبب ہو۔ایسا کوئی دَر بننا جو کسی کے لیے حفاظتی حصار کا احساس ہو۔ اور اس سے کہیں زیادہ خوب صورت ہے کسی لکھنے والے کی میز بننا کہ جو مختلف النوع خیالات کی آماج گاہ ہوتا ہے….لیکن وجود چونکہ اختیاری نہیں، اس لیے اس معروضی جبر کو تسلیم کیے بنا چارہ نہ تھا۔
سو، اب میں ایک تابوت تھا!
تابوت ساز نے میرے وجود کو مکمل کر کے جب مجھے باقی تابوتوں کے ساتھ لا کر رکھا تو وہاں سکوتِ مرگ سا طاری تھا۔ چھوٹے، بڑے، درمیانے مختلف قسم کے کوئی درجن بھر تابوت منہ بسورے اونگھ رہے تھے۔ تابوت نے چونکہ بالآخر ابدی خاموشی اختیار کیے انسانی وجود کے ساتھ تہہ خاک ہوجانا ہوتا ہے، اس لیے تابوت کی دنیا میں خاموشی کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی ،لیکن میرے لیے اس قدر خموشی ممکن نہ تھی۔میں جن دنوں ایک درخت کا حصہ تھا،ہم سب درخت، چرند پرند سمیت فطرت کے تمام مظاہر کے ساتھ مسلسل محو ِ گفت گو رہتے تھے۔ایک دوسرے کا حال لیتے، اپنا احوال سناتے۔ دیس بدیس کی سیر کرنے والے پرندوں سے وہاں کی کہانیاں سنتے۔ حتیٰ کہ بعض انسان بھی مسلسل ریاضت کے نتیجے میں ہماری گفت گو سمجھنے اور اس میں شامل ہونے کے اہل ہو جاتے۔ باغ کی زندگی کے تو خیر کیا کہنے کہ وہاں زندگی اپنے جوبن پہ ہوتی ہے،ویرانہ البتہ موت ہے۔ ویرانے میں زندگی بسر کرنے کی خواہ کیسی ہی صورت کیوں نہ میسر ہو ،سرسبز اورتناور درخت بھی وہاں اداسی کا پیکر نظر آئے گا۔صحبت سے محرومی وجود کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔
تابوت ساز کی دکان میں ہم درجن بھر تابوتوں میں سے کس نے ،کب تک رہنا تھا، کچھ پتہ نہ تھا۔ لیکن میں کم از کم یہ لمحے سوگوا ر خاموشی کی نذر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے رات ہوتے ہی جونہی تابوت ساز نے دکان بند کر کے چھٹی کی، ذرا سے توقف کے بعد بالآخر میں نے اپنے ساتھ لیٹے بظاہر عمر رسیدہ ایک تابوت سے گفت گو کا آغاز کیا؛
”کہاں سے آئے ہیں آپ؟“
”کسی کو کچھ نہیں پتہ، نہ آنے کا نہ جانے کا!“ اس نے نہایت اداس اور سوگوا ر لہجے میں کہا۔
”یہاں اتنی اداسی کیوں ہے؟“ میں نے بھی دل کی بات کہہ دی۔
”جن کا مقدر موت کو اپنے دامن میں سمونا ہو، ان کے ہاں جشن تھوڑی ہوگا بھائی!“ بزرگ تابوت نے اسی یاسیت سے کہا۔
”جب مقدر معلوم ہے تو کم از کم موجودہ لمحوں کو تو خاموشی اور یاسیت کی اذیت سے بچایا جا سکتا ہے۔“
”بات تو بڑے پتے کی کہی ہے بھائی نے۔“ سامنے والے ایک نوخیز تابوت نے ایک لمبی اونگھ لے کر کہا اور ہماری گفت گو میں شریک ہوا۔
شرکا دو سے تین ہو گئے تو موضوع اور بھی کھلنے لگا، آوازیں بڑھنے لگیں، اور رفتہ رفتہ شرکائے گفت گو میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ہی دیر میں تابوت کی دکان گفت گو کا دیوان بن گئی۔ کون کہاں کہاں سے ہو کر آیا اور کب سے تابوت کا روپ لے کر یہاں سجا ہے…. جب سب کا تعارف ہو چکا تو اپنے اپنے مستقبل کے حوالے سے گفت گو ہونے لگی۔ میں نے موضوع چھیڑا کہ ہم میں سے کون کس کو اپنے دامن میں سموتے ہوئے خوشی محسوس کرے گا؟ دوسرے معنوں میں گویا ہر تابوت کی ’آخری خواہش‘ کیا تھی؟ تابوتوں کے لیے یہ بڑا دلچسپ موضوع تھا۔ خاموشی سے اکتائے ہوئے ہر تابوت نے بولنا شروع کر دیا۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جانے لگیں۔
”کوئی خوب صورت دوشیزہ اگر میرے پہلو میں آ جائے تو میں سمجھوں گا میرا وجود رائیگاں نہیں گیا۔“ایک نوجوان تابوت نے نہایت حسرت بھرے لہجے میں کہا۔
اس پہ بزرگوار قسم کے، ایک کونے میں پڑے ہوئے ، قدرِ قدیم تابوت نے اسے سرزنش کرتے ہوئے کہا، ”موت خود کریہہ اور پھر جوانی کی موت تو کسی بددعا سے کم نہیں۔ سو برخوردار، محض اپنی تسکین کے لیے کسی جوانی کی موت کی تمنا مت کرنا۔“
جوان تابوت کو بات کچھ اچھی نہ لگی ،سو وہ ناک بھوں چڑھا کر چپ ہو رہا۔
”بھئی مجھے تو کسی شاعر یا دانش ور کا ساتھ نصیب ہو جائے تو کیا کہنے، تہہ خاک کچھ تو وقت اچھا گذر ے گا۔“ایک اور تابوت نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”وقت ہی اچھا گذارنا ہے تو کسی مسخرے کے ساتھ کی تمنا کیوں نہ کی جائے۔“ اس کے ساتھ والے تابوت نے گویا چوٹ کی۔
”ویسے عہد حاضر کے شاعر اور دانش ور بھی مسخروں سے کچھ کم نہیں رہ گئے۔“
میری اس بات پہ محفل کشتِ زعفران بن گئی۔ پھر دیر گئے تک ہم اس سماج کی فکری پستی پہ اظہارِ خیال کرتے رہے۔
اگلے چار پانچ روز ہم خوب گپ شپ کرتے رہے۔ ایک دوجے کی دل جوئی کرتے رہے۔ اس دوران تابوت ساز کی دکان پہ ہونے والی گفت گوبھی ہماری بحث کا مرکز ہوتی جو اکثر موت کے مختلف پہلوو¿ں سے متعلق ہوا کرتی۔
اورپھر ایک روز مجھے اچانک رخصت ہونا پڑا۔
اُ س روز دکان کا شٹر اوپر کر کے تابوت ساز جب اندر آیا تو ابھی صبح ِ کاذب کا وقت تھا۔ تابوت ساز کچھ تازہ دم نہ دِکھتا تھا۔ اس کے چہرے پہ کچھ بدحواسی سی تھی۔ اس کے پیچھے دو اور لوگ بھی داخل ہوئے جن کے چہرے پہ کوئی تاثر نہ تھا۔ نہایت سپاٹ چہرے تھے۔تابوت ساز نے فوراً دو کرسیاں آگے کیں۔ لیکن انھوں نے بیٹھنا گوارا نہ کیا۔
”بیٹھنے کا وقت نہیں، جلدی سے تابوت دکھا دو۔“ ان میں سے ایک اسی سپاٹ لہجے میں گویا ہوا۔
”جی، ابھی دکھاتا ہوں۔“تابوت ساز منمنایا۔
پھر آگے بڑھ کر اپنی میز سے ایک کپڑا اٹھایا، اور آگے لگے تابوتوں کو جھاڑ کر گویا گرد صاف کرنے لگا۔ دونوں صاحبان ایک لمحے کے توقف سے آگے بڑھے۔ میں شاید قطار میں تیسرے نمبر پہ تھا۔ وہ دونوں عین میرے سامنے آکر کھڑے ہو گئے۔
”یہ کیسا رہے گا؟“ ایک نے دوسرے سے پوچھا۔
”ہاں سائز میں تو سہی ہے، کچھ نیا بھی لگ رہا ہے۔“دوسرے نے گویا تائید کرتے ہوئے کہا۔
”جی ابھی اسی ہفتے ہی بنا ہے، بالکل تازہ ہے۔پہاڑی لکڑی کا بنا ہوا ہے صاب، نہایت مضبوط، گارنٹی کے ساتھ۔“تابوت ساز نے گویا تصدیق کرتے ہوئے میری پوری تاریخ بیان کر دی۔
”بس ٹھیک ہے اسی کو اٹھوا لیتے ہیں۔“ پہلے والے صاحب نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
دونوں جیسے عجلت میں تھے اور جلد سے جلد اس کام کو نمٹانا چاہتے تھے۔
”جی، ابھی اٹھوائے دیتا ہوں۔“ تابوت ساز نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔
آن کی آن میں دو مزدور اندر داخل ہوئے ۔ مجھے کونوں سے پکڑ کر ایک بڑی سی گاڑی کے پچھلے حصے میں ڈال دیا۔ مجھے اپنے ساتھیوں سے الوداع کہنے کی مہلت بھی نہ مل سکی۔ بس ایک اچٹتی سی نظر ایک دوسرے پہ یوں ڈالی کہ جیسے پھر کسی جنم میں، پھر کسی عہد میں، کسی اور روپ میں ملنا نصیب ہو۔
سفر کے دوران میں خودکو اس ماحول کے لیے تیار کر رہا تھا جو عموماً جنازوں کے موقع پر ہوتا ہے۔ موت کا منظر ، لاش کے اوپر نوحے….دھاڑیں، آہیں، فریادیں، اور پھر کچھ ہی دیر بعد مستقل خاموشی اوڑھے ایک لاش کے ساتھ ہمیشہ کے لیے پیوند زمیں ہوجانا۔ اس رات کی گفت گو میں تابوتوں کی آخری خواہش کی میری چھیڑی ہوئی بحث نے جلد ہی دوسرا رنگ لے لیا، لیکن اگر مجھ سے کوئی پوچھتا کہ میں کیسی لاش کا ساتھ پسند کروں گا میں کہتا کہ کسی شانت بزرگ کا ساتھ۔ ایک درخت کی صورت ، پہاڑی بزرگوں کو میں نے ہمیشہ ٹھنڈی چھاو¿ں کی طرح دیکھا، ان کے ہاں زندگی کا وسیع تجربہ بھی ہوتا ہے اور گہرا مشاہدہ بھی۔ اور ایک بات یہ بھی کہ اکثر بزرگوں کی موت پہ کچھ زیادہ نوحہ خوانی بھی نہیں ہوتی۔ رونا دھونا بھی کم ہی ہوتا ہے۔ جنازے کے شرکا اس قدر محدود ہوتے ہیں کہ اکثر تابوت کے لیے کندھے کم پڑ جاتے ہیں۔ نہایت خاموشی سے اور جلد ہی کفن دفن ہو جا تا ہے۔ ……..یہ سب باتیں میں نے تابوت ساز کی دکان پہ ہونے والی بحثو ں میں سن رکھی تھیں۔
میں انھی خیالات میں گم تھا کہ سفر تمام ہوا۔مجھے گاڑی سے اتار کر ، مختلف راہداریوں سے گزار کر ایک مختصر کمرے میں لا کر رکھ دیا گیا۔ کچھ حیرت سی ہوئی۔ یہ تو کسی ہسپتال کا منظر دِ کھتا تھا۔ ’تو گویا لاش کو ہسپتال سے گھر منتقل ہونا ہے؟‘ ممکن ہے ایسا ہی ہو……..!!
کچھ ہی دیر میں اسٹریچر پہ لائی گئی ایک لاش مجھ میں اتار دی گئی۔ ایک ٹھنڈی یخ بستہ لاش ۔ یوں لگتا تھا جیسے ابھی کسی سردخانے سے نکالا گیا ہو۔ فوراً ہی میرا منہ بند کر کے ، اٹھا کر دوبارہ اسی گاڑی میں لا کر رکھ دیا گیا۔ ایک بار پھر سفر شروع ہوا۔
اب میں نے لاش کا بغور جائزہ لینا شروع کیا۔ نہایت متناسب قدو قامت کا شاید نوے برس کے قریب کی عمر کا ایک بزرگ، خندہ پیشانی، نہایت مناسب و متناسب سفید ریش، خندہ دہن، ہلکی مگر گھنی مونچھوں کے نیچے کسی معصوم بچے کا سا دہن، نہایت پرسکون چہرہ، ایسی طمانیت کا سا احساس ،جیسے ایک شفیق باپ کا اپنی ذمہ داریوں سے اطمینان سے عہدہ برآ ہونا….تکمیل ِ حیات کا احساس….ایک بھرپور اور مکمل جیون جینے کا احساس!!
میں جوں جوں اس سراپے پہ غور کرتا جاتا تھا، اس سے اپنائیت کا سا احساس مجھے گھیرے میں لیے جاتا تھا۔ کسی جنم میں جیسے ہم ایک ہی خاندان کا حصہ رہے ہوں، جیسے وہ گوتم بدھ اور میں وہ درخت رہا ہوں جس کے سائے تلے بدھا نے نروان حاصل کیا تھا۔ (بدھا کا تذکرہ میں نے درخت والے جنم میں میری چھاو¿ں میں رات گئے محفل جمانے والے قصہ گوو¿ں سے سن رکھا تھا)….اس کا سراپا، اس کے چہرے پہ چھائی گہری طمانیت، اس کی پیشانی سے چھلکتا نور، عین سدھارتھ کا عکس دِکھتا ہے….لیکن اس کے خاموش ہو جانے والے ذہن کے اندر کیسی فکر پنپتی تھی؟….کیا سوچتا رہا ہو گا یہ آدمی؟….
سفر کتنی دیر جاری رہا….ہم کہاں کہاں رکے اور کہاں کہاں سے گذر آئے….مجھے کچھ احساس نہ تھا۔ ہوش آیا تو ہم ایک بھرے مجمعے میں تھے۔ انسانوں کا امڈتا ہوا سمندر۔ ہزاروں انسانوں کا اکٹھ۔ یہ کوئی بہت وسیع گراو¿نڈ تھا، جہاں نمازِ جنارہ ہونا تھی۔اب مجھے کچھ کچھ اندازہ ہوا کہ میرے دامن میں سویا شخص کوئی عام فرد نہ تھا۔ یہ کوئی رہنما تھا جس کے بے شمار چاہنے والے تھے۔ ہمیں جہاں رکھا گیا تھا ، وہاں اردگرد اس کے ورثا موجود تھے۔ جو یہ طے کر رہے تھے کہ ہجوم چونکہ بڑھتا جا رہا ہے، اس لیے فوراً نمازِ جنازہ اد اکی جائے تاکہ تدفین میں تاخیر نہ ہو۔ ابھی یہ بحث جاری تھی کہ ہجوم میں اچانک درجنوں لوگ نعرے لگاتے ہوئے گھس آئے۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی تھی، جن کے چہروں پہ نقاب پڑے ہوئے تھے ۔ ان کے پہلو سے پھر ایک دم کچھ خواتین نمودار ہوئیں۔ یہ بھی نقاب پوش تھیں۔ یہ سب نعرے لگاتے، ہجوم کو چیرتے، ہم تک آ پہنچے۔ خواتین نے آگے بڑھ کر مجھے اور مجھ میں سموئی لاش کو اپنے حصار میں لے لیا۔
بعض نے آگے بڑھ کر ایک پرچم میرے اوپر ڈال دیا۔
”اٹھاو¿ تابوت کو، جنازہ یہاں نہیں شہدا قبرستان میں ہو گا، وہیں نماز ہو گی، وہیں تدفین ہو گی !“
ایک بزرگ کے اس اعلان پہ درجنوں جوان میری طرف بڑھے۔ پہلا کندھا خواتین نے دیا۔ہجوم مجھ پہ امڈ پڑا۔ دھکم پیل شروع ہو گئی۔ ہر شخص مجھے ( درحقیقت مجھ میں لیٹے اپنے سردارکو) کندھا دینے کو بے قرار تھا۔نوجوانوں نے مجھے خواتین کے ہاتھوں سے لے کر اپنے کندھوں پہ رکھ لیا۔
میں حیران تھا، چشم ِ فلک حیران تھی….ایسا نظارہ اس نے بھی شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ ایک قبائلی سماج میں جہاں خواتین کا گھروں سے نکلنا محال ہوتا ہے، وہاں خواتین ایک جنازے کو کندھا دے رہی تھیں….
ایک بے حرکت لاش ،اپنی تدفین کا فیصلہ خود کر رہی تھی۔ ایک مردہ ،شکستہ تابوت کے اندر سے اپنی فکر ی جنگ لڑ رہا تھا!
خاندانی ورثا، خونی عزیز، مستقبل کا سردار خانوادہ، سب بے بس تھے۔ چند ہی لمحوں میں لاش خونی ورثا کے ہاتھ سے نکل کر فکری ورثا کے حوالے ہو چکی تھی۔
چشم فلک نے ایک لاش کی طاقت کا ایسا مظاہرہ شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔
سو، اب ایک حریت پسند سردار کی لاش تھی، ہزاروں کندھے تھے، حریت اور انقلاب کے نعرے تھے……..آخری سفر تھا….جو شاید ایک نئے سفر کا آغاز تھا….
میں اپنے نصیب پہ نازاں تھا!
ہزاروں انسانوں کا یہ قافلہ جب اپنے طے شدہ مقام پہ پہنچا،تو ہجوم میں انتشار مزید بڑھ چکا تھا۔ کب کس نے آگے بڑھ کر جنازہ نماز پڑھائی، کسی کو کچھ پتہ ہی نہ چلا، ہجوم تھا کہ انقلاب کے نعروں میں مگن تھا۔
انہی نعروں کی گونج میں مجھے اٹھا کر نعش سمیت پہلے سے کھودی گئی قبر میں اتار دیا گیا۔ تہہ خاک ہونے سے قبل جس نام کی گونج مجھے سنائی دی وہ تھا؛’نیو کاہان!‘
خدا جانے کیوں مجھے ایسا لگا جیسے یہ لفظ میرے وجود کا حصہ ہو….جیسے کسی نے مجھے آواز دے کر پکارا ہو….جیسے میں جنم جنم سے اس نام سے آشنا ہوں….
اور پھر جب مجھے لحد میں اتارا جا رہا تھا تو مجھے ہاتھوں میں لینے والے سبھی چہرے مجھے آشنا سے لگے….جیسے میں نے انہیں کہیں دیکھا ہوا ہے۔ جیسے یہ میرے خاندان کے لوگ ہوں….ان کی زبان مجھے آشنا سی لگی، کہیں سنی ہوئی سی….حتیٰ کہ مٹی پڑنے سے قبل مجھے یہ زبان سمجھ بھی آنے لگی….اور جونہی اس زبان کے اولین لفظ کا مفہوم میری سماعت میں اترا، میرا وجود گویا لرز کررہ گیا……..میں ماضی کے کسی گوشے میں پہنچ گیا۔ مجھے اپنا پچھلاجنم دیا آ گیا، اپنی جنم بھومی یاد آ گئی……..”کاہان!“
ہاں ،کاہان….یہی تو میری جنم بھومی تھی۔ خدا جانے اپنے کس بزرگ کی ہڈیوں سے ایک بیج کی صورت زمیں پھوٹا تھا میں۔ برسوں ایک پہاڑی کے دامن میں پودے سے ایک تناور درخت کی عمر گذاری تھی میں نے۔ مخصوص لمبی داڑھیوں والے یہ سبھی چہرے میرے دیکھے بھالے تھے۔ کیسے حسیں قصے میں نے ان کی زبانوں سے سنے تھے۔ کیا خوب صورت مدھر موسیقی میرے وجود میں اتری تھی۔ کیا سادہ لوحی تھی ان لوگوں میں، کیا بھولپن تھا….!
وہیں پھر سنا تھا کہ سرکار ان پہاڑوں کے دامن میں دفن خزانوں تک رسائی چاہتی ہے، مگر انسانوں کی تقدیر نہیں بدلنا چاہتی۔ اس کی نیت سے واقف کار سردار اس کے خلاف ڈٹ گیا۔ سرکار بھی ڈٹ گئی……..اور پھر خون زیری شروع ہو گئی۔ محفلیں اجڑ گئیں۔ موسیقی کی جگہ بم بارود کے سُر نے لے لی۔ لوگ میری چھاو¿ں چھوڑ کر کوہ نشیں ہو گئے۔
بمبار ی ہوئی، باغ اجڑ گئے….اجاڑ دیے گئے۔مجھے اور میرے ساتھیوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا۔شہروں میں لا کر بیچ دیا گیا۔ یہیں سے ہوتا، ٹکڑوں میں بٹتا، میں تابوت سا زکی دکان پہ پہنچا……..اور آج میری مٹی اپنے خمیر سے آ ملی تھی۔
اُف خدایا….کیسا حادثہ تھا!
شادیِ مرگ کی سی کیفیت تھی!
مٹی ڈالی جا چکی تھی۔
میں اور میرا سردار تہہ خاک، پیوند زمیں ہو چکے تھے۔
جتنا اطمینان اس کے چہرے پہ تھا، ویسا ہی اطمینان، قلب اب مجھے بھی اصل تھا۔
کسی روز اس کی ہڈیوں سے مل کر پھر اسی زمیں سے کسی صورت پھوٹ پڑوں گا….
ہم دونوں کا سفر تمام نہیں ہوا تھا….
محض ایک وقفہ تھا، پُر وقار خاموشی کا!
مجھے یقیں ہو چلا کہ ہم واپس لوٹیں گے……..آزادی اور انقلاب کے نعروں کی گونج تھمنے سے پہلے!!