میں اپنے وجود کی غلام گردشوں کی قیدسے
نکلنا چاہتی ہوں
اے مری زمین!
تجھے دائروی کائنات کے جال میں
نہیں آنا چاہےے تھا
کیوں کہ
میںکسی بھی پرکار کے مرکزوں اور قوسین کی
تحویل میں نہیں جانا چاہتی
خیر!!
میں جانتی ہوں
اے مری ناف سے بندھے عصبی جال!
ترے تناﺅ سے
مرے وجود کا ریشہ ریشہ
نظام شمسی سے بندھا ہوا ہے
مرا پور پور تک سنا ہوا ہے
کبھی مرے سیماب صفت لہو نے
وقت کے جبر میں
پیغام کی ترسیل سیکھ لی تھی
وہ پرانا پیغام!!
جو روشنی کی آنکھ سے ہوتا ہوا
مرے دل تک اتر گیا ہے
ہر ایک پل پر کھدا ہوا ہے

 
یہ مرا دل!
دائری نظام کا سب سے پرانا قیدی
جو اپنی زُہرائی مگس گیر(Venus trap) پیتوں سے
روز کھو دے جانے والی
سرنگ کھا رہا ہے
مگر کوئی زحل
اب بھی برف سی ٹھنڈی
مری بانجھ زمین میں
نئے سینچروں کی کاشت کرنا چاہتا ہے
مگر حاکمِ سخت مراشعور
ہفت آسمان اوڑھے
مرے آتشیں دیوتا کو
قید کئے جارہا ہے
ابھی ابھی سوال کے ہتھیار لےے مریخ
حسن کی دیوی وینس کی رہائی کے لئے
نئے یدھ کی تیاریاں کررہا ہے
مگر ساغر دیوتاﺅں سی پھیلی یکسانیت
مجھے اپنے گرداب میں لے چکی ہے
لیکن پھر……..
ہاں اب بھی میں……..
اپنے وجود کی غلام گردشوں سے نکلنا چاہتی ہوں

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے