تم اک د ن مرا مناتے ہو
دُنیا کو سب یہ بتاتے ہو
مظلوم ہوں میں محکوم ہوں میں
بے چاری ہوں معصوم ہوں میں
اک بوجھ ہوں یہ جتلاتے ہو
کم فہم ہوں یہ بتلا تے ہو
مرے روپ کئی بنواتے ہو
میرے نام پہ سبھی کماتے ہو
میرے بن ہے تیرا ہونا کیا
میں عورت ہوں سرکار میرے
میں اب تک جیون راہوں سے
نہ ہا ری تھی نہ ہاری ہوں
ہر قصّہ،نظم اور گیت میں میں
تیرے سارے ہار اور جیت میں میں
یہ رنگ او ر خوشبو پھول میرے
جو بنتے پاﺅں کی دُھول تیرے
سب منطق او ر اُصول تیرے
میں مانوں گی یہ بھول تیری
کہنے کو بس گھر والی ہوں
میں عورت ہوں جیون سے جُڑی

نہ ہاری تھی نہ ہاری ہوں
تم میرا دن کیا مناﺅ گے
تم مجھ کو جان نہ پاﺅ گے
میں رکھتی ہوں آن اپنی
شان اپنی پہچان اپنی
میں طاقت بھی ہوں سوچ بھی ہوں
میں اس جیون کی کھوج بھی ہوں
اب بر تر ، کم تر کچھ بھی نہیں
ترا جنتر، منتر کچھ بھی نہیں
یہ دن یہ مہینے سال میرے
اگلی صدیوں کے حال میرے
میں عورت ہوں جیون سے جُڑی
نہ ہاری تھی نہ ہار ی ہوں

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے