سچ کو جب برملا کہے کوئی
کیوں مجھے پارسا کہے کوئی
آپ سا کوئی بھی نہیں شاید
اب کسے آپ سا کہے کوئی
اپنی کشتی کو جو ڈبودے خود
اُس کو کیا نا خُدا کہے کوئی
تو وفاﺅں کا ایک سوداگر
کیا تجھے بے وفا کہے کوئی
ہر دُعا بے اثر ہوئی اپنی
کیا کسی کو دُعا کہے کوئی
درپہ دستک ہوائیں دیتی ہیں
کیوں درِ بے صدا کہے کوئی
عاصمی کام تیرے سب اچھے
خود کو کیسے بُرا کہے کوئی