کشور ناہیدعورت ادب اور عورتوں کے حقوق کی رہنماکہلاتی ہے۔ 2014 میں اس کی نوٹ بک پر مبنی کتاب چھپی ہے۔ یہ کتاب اس وقت منظر عام پر آئی ہے جب خاص طور پر پنجاب میں لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں ہراساں کیا جارہا ہے۔ خواتین کی اجتماعی آبروریزی ہورہی ہے یہاں تک کہ چار سال اور چھ سال کی بچیوں کے ریپ کے کیسز بھی میڈیا میں بار بار رپورٹ ہوئے ہیں۔ تیزاب پھینکنے کے واقعات، محبت کی شادی پر متحارب خاندانوں میں لڑائیاں اور غیرت کے نام پر قتل عام سی بات ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں خاص طور پر طالبات پر تعلیم کے دروازے بند کےے جارہے ہےں۔ پیدل لانگ مارچ ٹرین لانگ مارچ آزاد صحافت کے گدان اور دسترخوان دونوں کے درمیان مڈبھڑ چل رہی ہے۔جبکہ ملک بھر میں دہشت گردی کے نام پر کئی صحافی مارے جاچکے ہیں، یادھونس دھمکیوں کے باعث ذہنی تناﺅ کا شکار ہیں۔ مہنگائی اور بدعنوانی مل کر سفاک قاتلوں کے صف میں شامل ہوچکے ہیں ۔معلوم اور نامعلوم دونوں مل کر انسانیت کی تذلیل کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ملک میں نشہ آور اشیا اور زندہ لاشوںکی بھرمار ہے۔ کسی بھی شعبہ میں کام کرنے والے ڈاکٹر اور ہیلتھ ورکروں پر زندگی تنگ ہوچکی ہے۔ ہر طرف ایک خوف کا سماں ہے ۔ محترمہ کی نوٹ بک میں آصف زرداری کی حکومت اور آصفہ بختاور تک کے تذکرے ملتے ہیں مگر ان واقعات پر نہ تو اس کا کوئی رد عمل سپرد قلم ہوا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کسی تحریک میں شمولیت کا تذکرہ ہے۔ البتہ اس کے نوٹ بک میں انڈیا اور پاکستان کے قلمکاروں ، شاعروں اور فنکاروں سے شناسائی کے تذکرے ضرور ملتے ہیں۔ بعض افراد کی انسانی کمزوریوں کا سرسری تذکرہ بھی چسکے لے لے کر بیان کیا گیا ہے۔ دوسروں کی موقع پرستی اور سرکاری عہدوں کے لےے تگ و دو اور اخلاقی اقدار کو پائمال کرنے سے لے کر خود ستائی تک زبان دانی کا خوب خوب فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ کشور ناہید اس نوٹ بک سے قبل شاید کسی بڑ ے پیڈسٹل پر پائی جاتی ہونگی۔ اس نوٹ بک کو لکھنے اور خود کو سرکاری ملازمت کے دوران دوسروں سے کم گناہ گار پیش کرنے کے بعد گلو خلاصی میں ہر گز کامیاب نظر نہیں آتی۔ نہ جانے اپنے مزاج اور کام سے ہٹ کر اس کتاب کو لکھنے کی ضرورت کیوںمحسوس ہوئی ۔ کیا آپ بیتی پر مبنی اک عورت کی کتھا کافی نہیں تھی لیکن اسے تعلقداری میں احساس محرومی کا کوئی مسئلہ تو درپیش نہیں تھا ۔ کتاب لکھنے کی ہنر مندی سے مجھے انکار نہیں اور نہ ہی واقعات کو سلیس اور آسان زبان میں بیان کرنے کی سلیقہ مندی پر کوئی حرف ہے۔ کشور ناہید ایک بولڈ شاعرہے۔خواتین کے ادب اور ان کی حوصلہ افزائی میںبھی اس کا مقام و کردار ہمیشہ قابل ذکر رہا ہے۔ لیکن کیا فیض سے ملاقات اور کسی دورے کے چلتے چلتے تذکرے سے کسی ادب کے طالب علم کی علمیت میںاضافہ ہوسکتا ہے۔محترمہ اگر واقعات کو تفصیل سے لکھتی اور تمام قد آور شخصیات کے البم پر مبنی تصاویر ساتھ میں چھاپتی شاید کتاب کی اہمیت اور افادیت بڑھ جاتی ۔اگر یہ واقعی نوٹ بک ہے تو اسے تواریخ کی مناسبت سے لکھا جاتا تاکہ خاص دنوں اور حالات سے آگاہی ہوتی ۔ گانے کی محفلوں کے محض تذکروں سے کیا ثابت کیا جانا مقصود ہے۔ ہر کام کی ابتدا اگر محترمہ کا کریڈٹ ہے اگر اداروںکی مجبوری اور ان کی ذاتی صلاحیتوں کو تفصیل سے بیان کیا جاتا شاید اس وقت کے حالات اور ماحول سے پڑھنے والوں کو آگاہی حاصل ہوتی ۔اس میں سے بعض واقعات یعنی جیسے ڈاکٹر سلام کے واقعہ کا ذکر ہے وہ تو اخباری کالموں میں بار بار ہوچکا ہے ۔ احمد فراز و دیگر شعراءو ادباءکی چپقلش اور واقعات بھی ادبی رسائل واخبارات میں تفصیل کے ساتھ اس سے قبل بیان ہوچکے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اس نوٹ بک میں متذکرہ افراد کی موجودگی اور ان سے ملنے ملاقات کا محض ایک تذکرہ ہے ۔ اگر ایک ادیب کی تحریر میں ادبی چاشنی اور واقعات کی ابتدا اور انجام موجود نہ ہو تو معیوب سی بات لگتی ہے۔ کشور ناہید نے یادوں کی بوسیدہ الماری کو بڑھاپے کی دہلیز پر کھولنے سے خود کو تنقید سے بچانے کی ایک ناکام کوشش کی ہے۔ اور افسوس اس بات کا ہے کہ وہ منیر نیازی پروین شاکر کے ساتھ بار ہا بلوچستان کا دورہ کرچکی ہے۔ مگر عطا شاد کا ‘مالک اور حاصل کا ایک لائن میں تذکرہ کرکے دیگر کی طرح اپنے بلوچستان سے حقیقی تعلق کا خو ب اظہار کیا ہے ۔
اس تنقیدی جائزے کا مطلب کشور ناہید کے کام اور شخصیت کو ٹارگٹ کرنا ہرگز نہیںہے۔ یہ تو اہل دانش سے کم از کم توقعات کی بات ہے جو سچ کہنے کو باعث فخر سمجھتے رہے ہیں۔ مگر موجود ہ حالات میں اس کی سچ کی دیوی کہاں سوئی ہوئی ہے۔ اچھے دنوں میںیہ نوٹ بک چھپتی تو وفات پانے والوں اور زندہ رہ جانے والے خاموش کرداروں پر یقینا غور ہوتا۔ موجودہ سیاسی کساد بازاروں میں یہ نوٹ بک ایک عام سی تحریر کے سوا کچھ نہیں۔ اتھل پتھل سماج میں کیا اس وقت ایسی تحریروں سے عوام کو بہلایا جاسکتا ہے؟۔ میرا خیال ہے بالکل نہیں۔ اور نہ ہی ادب اس وقت سطحی تحریروں کا تقاضا کرتی ہے۔ البتہ پبلشنگ فیکٹریوں کو زندہ رکھنے کے لےے اس قسم کی کتابیں شاید نا گزیر ہوں۔ ہمیں اس وقت سوچنا چاہےے کہ کیاادب کا حال پاکستانی فلمی صنعت سے کہیں زیادہ بُرا تونہیں؟۔