جس شاعری میں غلامی سے نجات کا درس ہو۔ جس میں طبقاتی نا سورپرملم رکھنے کی تبلیغ ہو۔ جس میں آمرانہ سوچ پر کاری ضرب ہو۔ جس میں سقراط کا درد منصور حلاج کا نوحہ ہو اور معاشرے کی المیوں کو عنوانات کی چیلنج کی نوک پر اٹھایا گیا ہو ۔ جس میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی اور زیادتیوں پر شعری آئنگ کے ذریعے آنسو بہانے اور بین کرنے کی ترغیب دی جائے۔ اس شاعری اور شاعر کے اپنے لوگوں سے محبت اور خلوص سے بھلا کس کافر کو انکار ہوسکتا ہے۔ دھوپ کرن ایسی ہی شاعری کی کتاب ہے اور ایک ایسے ہی شاعر کا قاری کے لےے فریادوں پر مبنی تحفہ ہے ۔ امداد حسینی کا تعلق گوکہ سندھ دھرتی سے ہے مگر اس کی شاعری اور افکار کا پھیلاﺅ سرحدی پابندیوں کا ہر گز محتاج نہیں۔
ایک اللہ
ایک رسول
ایک کتاب
اک سندھ
اک میں
اک تم
روٹی کا اک ٹکڑا
چلّو بھر پانی!
روٹی کے ٹکڑے پر
چلّو بھر پانی پر
ہم دونوں لڑ پڑے
ایک تیسرا شخص
راکشس آیا
اور روٹی کا ٹکڑا نگل گیا
چلو بھر پانی سے کلی کرکے چلا گیا
اور ہم دیکھتے رہ گئے
اس سے تو اچھا تھا
ہم روٹی کا وہ ٹکڑا
کسی بھوکے کتے کو کھلا دیتے
اور چلو بھر پانی میں ڈوب مرتے
امداد حسینی کی فطری شاعری سے وہ اندازے یکسر غلط ثابت ہوجاتے ہیں کہ ادیب اور شاعروں کو عوام سے روگردانی کا کوئی مسئلہ درپیش ہے ۔ ان کی یہ توانا آواز دور دور تک پہنچنے اور اس پر غور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
وقت جاتا ہے تو جائے کہ اُسے جانا ہے
تجھے جاتا ہوا دیکھا نہیں جاتا مجھ سے
دھوپ کرن امداد حسینی کی دبنگ خیالات اور بڑھیا افکار پر مبنی نظموں کا تازہ مجموعہ ہے بعض نظمیں تو کمال کی ہیں۔ جنہیں بار بار پڑھنے اور دوسروںکو سنانے کو جی چاہتا ہے ۔ یہ شاعری پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ شاعر اور ایک تلوار کے دھنی جنگجو میں کیا فرق ہے ۔ بے شک ان کے مقاصد ایک ہوں شاعر ایک تو مُڑ کر بچے کھچے دشمن کا فاصلہ یا پیچھے ہونے والی تباہی کا ضرور جائزہ لیتا ہے جبکہ جنگجو مسلسل آگے بڑھنے کو ترجیح دیتاہے۔
جس کے پاس تباہی کے تمغوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا اب تو جنگی اصولوں کی پاسداری بھی نہیں ہورہی اس لےے فریقین مایوسی کے علاوہ پیچھے کچھ بھی چھوڑے نہیں جارہے اور جدید ٹیکنالوجی نے گناہ گار اور بے گناہ کی تفریق کو بھی مٹاڈالا ہے ۔ ایسے میں ایک شاعر اور ادیب ہی انسانی جذبات اور احساسات کی واحد مبلغ ہے۔ آج سے چند عشرے قبل نظریات کی جنگ کو ملکہ حاصل تھا۔ لیکن اب سرمایہ دارانہ نظام میں پوشیدہ لوٹ کھسوٹ کے لئے طاقت کی نمائش کو بالا دستی حاصل ہوچکی ہے جس میں تیسری دنیا کے ممالک جنہیں اشتراک اور اشتراکی نظام کا استعارہ ملنے کی توقع تھی وہ دم توڑ چکی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود شاعر نہ تو خود مایوس ہے اور نہ ہی اپنے سوچ سے وابستہ اور گمراہیوں میں مبتلا لوگوںکو مایوسی و محرومیوں کا شکار دیکھنا چاہتی ہے۔
برہنہ سر لےے گلیوں میں پاگلوں کی طرح
شکستہ دل لےے میں اشک اشک آنکھوں میں
لبوںپہ محشر خاموش زخم سینے پر
تمام شہر دیوار و درسے ٹکراتی
عذاب ِ لغزش پیہم کو جان پر سہتی
اور اپنے پاﺅں کی آئٹ پہ کانپتی ڈرتی
اُداس
اُداس
اکیلی
جوان رات کی روح
بھٹک رہی ہے مرے ساتھ
صبح نو کے لےے
کسی انسان پر تشدد، مظالم، بھوک و افلاس مایوسی، اُداسی کا تعلق فرد واحد کا مسئلہ نہیں یہ کسی نا سور کی طرح پھیلتا ہوا وسعت غم کے جبر کا تسلسل ہے۔جس کی نشاندہی امداد حسینی کے بے شمار نظموں کے مضامین کی خوبصورت اور پر اثر بندش کے ساتھ اپنے لوگوں سے ہمکلام ہوناہے۔ سندھ دھرتی کی مٹی میں ایک خاصیت ہے کہ وہ صوفیانہ طرز اظہار کے ساتھ ابھی تک اپنے فنکاروں، ادباءشاعروں سے محبت سینے میں دھڑکتا نہ صرف محسوس ہوتا ہے ۔ اس کا عملی مظاہرہ بھی ان کی جا نفشانی اور انسانی اقدار سے جرات کے ساتھ ابھی تک نمو پذیری ہے ۔ اور یہ سفر روشن خیالی کی اعلیٰ مثال ہے۔ وہ کون سندھی بولنے اور سمجھنے والا ہے جِسے اپنے صوفیا ادبا اور شعراءسے محبت نہیں امداد حسینی کی کتاب دھوپ کرن کی شاعری اس کی جرات اور محبت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے