” خواب گھروندا“بلوچی و اردو کی شاعرہ بانک زاہدہ رئیس راجی کے اردو اشعار کا پہلا مجموعہ ہے جو زبان اردو اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لےے ایک لطافت انگیز تحفہ ہے ۔ زاہدہ کے کلام کا اگر عمومی جائزہ لیا جائے تو ان کے کلام میں سادگی ، سلاست اور صفائی بنیادی وصف کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ان کے قلم سخنوری سے انسانی احساسات و جذبات کا تخلیقی اظہار نہایت آسانی اور دلکشی سے ہوا ہے ۔ زاہدہ اپنے قاری کی نفسیات سے واقف ہے اور آج کے مصروف اور سہل پسند دور کا احساس لےے ہوئے ایک ما بعد جدیدی فنکارہ کی طرح قاری کی رائے اور اہمیت کا ادراک بھی رکھتی ہے۔ ایسے میں ان کی شاعری کا عام فہمیت اور سلاست سے مملو ہونا آج کے حالات اور کم وقتی کے عین مطابق ہے تاہم وہ شعریت کے جمال آفرینیوں سے بھی نا آشنا نہیںہے۔

ادب کی ایک اچھی صفت اس کا اپنے دور کا ترجمان ہونا ہے اس ضمن میں بانک راجی کی شاعری میں آج کے دور کے ہنگامے، نفسانفسی ، خودغرضی، ظاہر و باطن کے تضادات، رشتوں کے ٹوٹنے کا درد، انسان کی تنہائی ۔انسان کا حالات کے ہاتھوں چور چور ہونے کا غم اور خون آشامیوں کی داستانیں ہمیں جا بجا نظر آتی ہیں۔ اسی طرح زاہدہ کے قلبی واردات عملی زندگی کے تجربات فنکارانہ لطافت سے شعری پیکر میں متشکل ہوئے ہیں جو ہر ایک کو اپنے سے قریب تر نظر آتے ہیں۔
راجی کی غزلیں زیادہ تر چھوٹی بحروں میں ہیں جس سے ان کی دلکشی اور حسن میں اضافہ ہوا ہے اور آج کے مختصر خواہ زمانے کے لےے موزوں تر بھی ہیں۔ ان کے مجموعے میں کچھ نظمیں بھی ہیں مگران کی شعریت تغزل میں زیادہ نکھری ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
راجی تجرباتی حقیقتوں کا اظہار بھی دلیرانہ طور پر کرنے کی ہمت رکھتی ہے۔
بانک راجی کے کلام میںہمت و حوصلہ کا درس بھی ملتا ہے جو میری رائے میں انسانیت کی زندگی کی مشکلات سے نمٹنے کے حوالے سے سب سے بڑی اور کار آمد متاع ہے اور وجودی مفکرین کے فکر کا مرکزی نکتہ بھی۔
زاہدہ کے تمام خواب آنسوﺅں میں بہنے کے بعد بھی وہ ہمت نہیں ہارتی بلکہ خود سے لڑ پڑتی ہے۔
مانا کہ کٹی رات بھی اشکوں کے سفر میں
مانا کہ سبھی خواب بہے دیدہ ¿ تر میں
ہاں اپنے لےے خود سے تمہیں لڑنا پڑے گا
روشن پہ اندھیروں کا سفر کرنا پڑے گا
وہ ایک بڑا دل رکھتی ہے جو لاکھ ناروا رویوں کا سامنا کرنے کے بعد بھی اپنے جذبہ محبت و بڑاپن میں تنگی پیدا نہیں کرتا اور بیکراں نظر آتا ہے۔
اگر چہ شعری اسرار و رموز سے واقفیت کے بنا پر زاہدہ کے کلام میں فنی محاسن موجود ہیں تاہم فکری حوالے سے ان کا کلام تشنہ طلب ہے اور کچھ اور چاہےے وسعت مرے بیان کے لےے کے مصداق زمانہ ان سے مزید کچھ کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ ادریس آزاد نے ان کے مجموعے میں لکھا ہے کہ کسی شاعر کے لئے کامل ایمان رہنا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے اور یہ ایک حقیقت ہے۔ تاہم فکر آفرینیوں کے جلوے دکھانے کے لےے انہیں روایت و زہد کے ان جامد حصاروں کو توڑنا پڑے گا جو تکفر کی بلند پروازیوں کی راہ میں مانع ہیں۔ اصل میں خلاق کو محض روایات پر اکتفا نہیں کرنا چاہےے بلکہ اُسے اپنے لےے خود روایت اور اقدار تخلیق کرنا چاہےے۔
زاہدہ رئیس راجی بیک وقت دو زبانوں ( بلوچی و اردو) میں طبع آزمائی کررہی ہیں ایسے میں یہ گماں موجود ہے کہ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ کسی زبان پر بھی توجہ نہ دے پائیں اور کبھی ادھر اور کبھی ادھر کے کش مکش میں مبتلا ہو۔ چنانچہ تجربہ کار اہلِ سخن و انتقاد ےہ بتاتے ہیں کہ فن تخلیقی خلاقانہ صلاحیت کا اظہار جس حسن و خوبی سے مادری زبان میں ہوسکتا ہے وہ دوسری زبان میں نہیں ہوسکتا ۔ یا اس کے لےے غیر معمولی محنت و تخیل بازی کی ضرورت ہوتی ہے ایسے میں اگر بانک راجی صرف اپنی مادری زبان بلوچی پر تخلیقی حوالے سے توجہ دے توان کی تخلیقی صلاحیتیں عمدہ تر صورت میں ابھر کر سامنے آئیں گی۔

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے