فہمیدہ دراصل نظم کی شاعرہ ہے۔ نظم مجھے ویسے ہی بہت پسند ہے۔ اور جب مغزل و مغنی و رواں نظم فہمیدہ کے جادوئی دماغ سے تخلیق ہو رہی ہو تو بات ہی کچھ اور ہوجاتی ہے۔ معنویت سے بھرپور ، بلاغت سے سرفراز۔وہ شاعری سنانے سے قبل ہی انتباہ کرتی ہے کہ” غزلیں وزلیں نہیں کہتی ہوں میں۔ کچھ سچ مچ کی شاعری سننا چاہیں تو حاضر ہے“۔(2)
اُس کی ذاتی زندگی کے بارے میں جانےے کہ فہمیدہ نے ظفر علی اجن سے پسند کی شادی کی ۔یہ شخص اُس وقت ایک سندھی کسان انقلابی جماعت کا کل وقتی کارکن تھا۔ فہمیدہ کو بھی انقلاب کی بیماری لگی ہوئی تھی۔چنانچہ ہماری یہ …….. کلارازیٹکن ، اپنے اوسپ ……..کی ہوگئی۔اس رومانٹس ازم کے ہاتھوں فہمیدہ نے ملٹی نیشنل دواساز کمپنی کی اپنی لگی لگائی نوکری سے استعفےٰ دے دےا۔ ( صدقے جایا جائے اِس جذبے کا کہ جس کے تحت ہزاروں لاکھوں لوگ اپنے روزگار تو کیا اپنی زندگی کی کشتیاں تک جلاتے رہے ہیں)۔
وہ اب وسطی کراچی کے تین کمروں والے ایک معمولی سے مکان میں رہتی تھی۔ یہ مکان اب گھر نہ رہا بلکہ یہ سندھی کسان انقلابی جماعت کے کارکنوں کا ٹھکانہ بن چکاتھا۔ یہ اُن کا گویا ہیڈ کوارٹر تھا۔ میٹنگیں کرنا، پمفلٹیں لکھنا اور مستقبل کے پروگرام بنانا…….. ایک ہمہ وقتی کام۔
فہمیدہ کی شاعری کاتیسرا مجموعہ ” دھوپ“ ہے جو اُس کی 1973 سے لے کر 1977 کی شاعری پر مشتمل ہے۔اب کے وہ نظر یاتی طورپر مار کسزم سے نہ صرف مکمل آشنا ہوئی بلکہ اس نظر ےے کے ساتھ وابستہ بھی ہوچکی تھی۔ اردو شاعر ات میں شاید وہ اولین ہے جس نے کہ ایک سیاسی سماجی نظام کے بطور مارکسزم کو قبول کیا۔ یہاں ہمیں جگہ جگہ نظر آتا ہے کہ فہمیدہ استحصال زدہ انسانیت کی نجات کے لےے کارل مارکس کے نظر ےے کو کنجی قرار دے رہی ہے ۔ وہ یہاں اس خطے میں انقلاب لاناچاہتی ہے ۔ (جبرکے خلاف جوبھی انسان ہوگا، وہ گرتے پڑتے ، بھٹکتے سنبھلتے بہرصورت مارکسزم جیسے فلسفے کی طرف ہی آئے گا)۔
اس مجموعے میں البتہ وہ زبان کے لحاظ سے ایک بڑا موڑ مڑتی نظرآتی ہے ۔اس مجموعے میں اُس کی اردو میں ہند ی کے الفاظ اتنے زیادہ اور اس قدر تکرار کے ساتھ گُھس جاتے ہیں کہ پڑھنے سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ ہند ی استعارات ، اساطیرزیادہ شما ر میں داخل ہوتے جاتے ہیں۔ اس سے نظم کی خوبصورتی تو دوچند ہوجاتی ہے مگرمجھ جیسے ہند، ہند واور ہندوستان سے کم آشنالوگوں کی تفہیم میںمشکل پیش آتی جا تی ہے ۔میں تو اس معاملے میں کمزور ہوںہی ، دوسرے بھی بے شمار قارئین نے اس مجموعے کو بس سونگھ کر چھوڑ دیاتھا۔ میں چونکہ فہمیدہ کی شاعری کے پکے مریدوں میں سے ہوں، اس لےے میں نے ہمت نہ ہاری اور اسے بار بار پڑھ کر اِس کے معانی کا دودھ دوہ ہی ڈالا۔
وگرنہ سچی بات یہ ہے کہ اِس کے اِس مجموعے نے میرے سرکے اوپر سے گزر جانے کی بہت کوششیں کیں۔
ہم دونوں کی مشترکہ دلچسپی میں آپ بھی شامل ہوئیے۔ فہمیدہ کی مندرجہ ذیل نظم اسی مجموعے میں شامل ہے۔
کارل مارکس
نہ وہ کوئی اوتارپیمبر ، ناجگ کا رکھوالا
اپنے جیسا اِک انساں تھا گھبر ی داڑھی والا
وہ بھی زندہ تھا دھرتی پر ہوئی یہ بات پرانی
مرکھپ گیا، برس بیتے ہیں وہ بڈھانصرانی
ہو نی کاچکر باقی ہے ، انمٹ جنم کے ٹکڑے
اسی گھیر میں نا چ رہے ہیں بدل بدل کر مکھڑے
اپنے اپنے کام ہیں سب کو‘اپنا اپنا جیون
اپنی اپنی سمجھ سے جگ میں سوچ رہے ہیں نِر دھن
دیکھتی آنکھیں دیکھ رہی ہیں ‘ کیاہے ہونے والا
پورب سے لے کر پچھم تک دھڑک رہی ہے جوالا
پگڈنڈی کے کسِی موڑ پر وہ بھی کھڑا ہواہے
سمے نے کتنی دھول اُڑائی شاید دیکھ رہاہے
دیکھاتھا سوباریہ فوٹو ‘اس پَل ٹھٹک گئی ہوں
ہونٹ کاٹ کر کانپ اُٹھی ہوں ‘پَل بھر جب سوچا ہے
توکیسا انسا ں جنما تھا
کیا کچھ چھوڑ گیاہے !
کالی دھرتی پھا ڑکے سورج جہاں جہاں نکلا ہے
آدمیوں نے تڑپ تڑپ کرتیرا نام لیاہے
یوں تو سمے رُکے نہیں روکے‘ پرایسا بھی ہوا ہے
اُڑتی صد ی نے پل بھر تھم کر مڑکے تجھے دیکھاہے
اِک اِنسانی نسل نے تجھ کو رہ رہ کر سوچا ہے
ایک صد ی نے ہاتھ اُٹھا کر تجھے سلام کیاہے
فہمیدہ کی سوچ کا ارتقا ہمیں ہر نظم میں نظر آتا ہے۔مارکسزم بہت سارے تضادات کو کھول کر اُس کے سامنے لاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں فہمیدہ اب اس طرف مزید اور مزیدسیکھتی جارہی ہے ۔ فہمیدہ عورتوں کی نجات کا ترانہ گاتی ہے :
سنگدل رواجوں کے
خستہ حال زنداں میں!
اک صدائے مستا نہ !
ایک رقصِ رندانہ!
یہ عما رت کہنہ ٹو ٹ بھی تو سکتی ہے
یہ اسیرشہزادی چھوٹ بھی تو سکتی ہے
مگر ابھی تک وہ یہ جان نہ پائی تھی کہ ہر بغاوت خواہ جتنی بھی انفرادی کیوں نہ ہو، ہوتی سماجی ہی ہے۔ اکیلی فیمنزم بھی اُسی طرح گمراہی ہے جس طرح اکیلی ٹریڈ یونین ازم۔ ایک استحصالی نظام میں محض ایک محکوم طبقے کو الگ سے آزادی نہیں ملتی۔ یا توسارے محکوم طبقات آزاد ہوں گے یا پھر سب کے سب اُسی طرح غلام رہیں گے۔ وہ اب تک نہ سمجھ پائی تھی کہ عورت کی نجات کی جدوجہد میں سماج کے دوسرے غیر مطمئن طبقات کو ساتھ لینا بہت ضروری ہوتاہے ۔
اسی مجموعے میں ” ایک کتاب“نامی نظم بھی شامل ہے ۔ وہ اُس کتاب میں لینن کاایک مضمون پڑھتی ہے اوریہ نظم لکھتی ہے :
یہ کان لگا کرسنتی ہوں دروازے پر کیسی دستک!
اس گھرمیں تواندھیارا تھا
پھرکون جھروکہ کھلتاہے
یہ کہاں سے آئی چندر کرن
جس سے روشن سارا آنگن
یہ تو اُس کی مستقل مزاجی ہے کہ فہمید ہ بلوچستان پر فوج کشی سے کبھی بھی متفق نہ ہوئی ۔ اکیسویں صدی کی حالیہ پانچویں فوجی کا روائی میں بھی اُس کاموقف وہی ہے جو ستر کی دھائی کی فوج کشی میں تھا:
ہم وطن توکوئی سننے والا نہیں
پتھر وں نے سنیں
کرب کی سسکیاں
آخری ہچکیاں
یہ سیا ہی رہے گی ابد تک
بے حسوں کی جبینوں کی کالک
اِس سیاہی کو پھر کو ن دھوپائے گا
فہمید ہ نے شیخ مجیب کے قتل پر ”اکیلا کمرہ “کے نا م سے بہت خوبصورت نظم لکھی۔ اِس کا جوٹکڑا مجھے اچھا لگا، وہ میں یہاں نقل کرتاہوں:
سجدوں میں پڑے یہ غازی
گردن تو اٹھاکر دیکھیں
جس سمت جھکے ہیں ماتھے
اس سمت کہاں ہے کعبہ
اس اور نہیں کوئی قبلہ
منبر پہ نہیں ہے ملّا
یہ تو ایک ٹینک کھڑاہے
اپنی نسل کے دوسرے انقلابیوں کی طرح فہمید ہ نے بھی فاشزم کا ساٹھ سالہ دورمحض سنااور دیکھا ہی نہیں ، اُسے بھگتا بھی ہے۔ اس دورکی سب سے بد تمیزبات یہ تھی کہ موٹی گردن والے افسر ، تو ندیں سہلاتے بیوپاری ایک طرح کے ہاہاکار میں مبتلا رہے کہ کہیںننگے پاﺅں بھوکے ہاری کوئی نئی بات ‘کوئی نیا نظر یہ ‘کوئی نیا پیغام نہ سن لیں ۔ساری تگ و دو اِس خدشے سے نمٹنے میں رہی کہ اُن کے ذہن کے چالوکارخانے میں آکسیجن ‘ اور گلوکوزکا کوئی مالیکیول نہ جانے پائے ۔ فہمید ہ فاشزم کے سارے ولی وار ثوں ، ڈھولچیوںاورپر وپیگنڈ ہ بازوں سے صر ف ایک بات کہتی ہے ، واحد سچ کی ایک ہی بات کہ :
تم کرسی پر بیٹھے ہو
اور میں دھر تی پرکھڑی ہوں
فہمیدہ دنیاوی زندگی کے بارے میں بھی ہمارے اساطیری دانا ﺅں کاتصوررکھتی ہے۔اِن ناترس ، مگر قابل ترس بیوروکر یٹوں کی ساری زندگی گزر جاتی ہے اورآخر میں:
اب چپ چپ ہے حیراں کھڑا
اور بوڑھی آنکھوں سے تکتا
سانسوں کی ڈوری میں الجھا
سیڑھی کے سرے پر جھول رہا
جیون کی کمائی اِ ک بنگلہ
آنسوﺅں کاحاصل اِ ک موٹر