17اپریل2014کو اجل کے ہاتھ میں جو پروانہ تھا اُس میں گیبریل گارسیامارکیزکا نام بھی رقم تھا۔علم وادب کی وہ شمع فرزاں جِس نے 6مارچ 1927کو صبح نو بجے کو لمبیا کے ایک نسبتاً کم معروف اور چھوٹے سے قصبے اراکاٹاکاسے روشنی کے سفر کا آغاز کیا تھا،موت کے بے رحم ہاتھوں نے اُسے ہمیشہ کے لیے گُل کر دیا۔میکسیکو سٹی کے شہرِ خموشاں کی زمین نے عالمی ادبیات کے اس آسمان کو اپنے دامن میں چُھپا لیا۔ادبیاتِ عالم میں فکشن کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی سیلِ زماں کے تھپیڑوں سے زمیں بوس ہو گئی۔ پُوری دُنیا میںاُس کے کروڑوں مداح فرطِ غم سے نڈھال ہوئے اور اُس کی دائمی مفارقت پر اپنے جذباتِ حزیں کا اظہار کرتے رہے ۔اپنی مسحورکُن شخصیت اور منفرد اسلوب سے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھاتے ہوئے حقیقت نگاری کی طلسماتی کیفیات سے ید بیضا کا معجزہ دکھانے والے اس یگانہ روزگار تخلیق کار نے اپنی تخلیقات کی قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے دُنیابھر میں اپنے کروڑوں مداحوں کے دلوں کو مسخر کر لیا۔
گیبریل گارسیا مارکیزکی وفات سے بیسویں صدی میں عالمی فکشن اور صحافت کے ایک درخشاں عہد کا اختتام ہو گیا۔ایک رجحان سازادیب،جری صحافی ،حقیقت پسندافسانہ نگار اور با کمال ناول نگار کی حیثیت سے اُس نے پُوری دُنیا میں اپنے مسحورکُن طلسماتی حقیت نگاری کے مظہر اسلوب کی دھاک بٹھا دی ۔کولمبیا کی سر زمین سے آج تک اس قدر وسیع النظر اور جامع صفات ادیب نے جنم نہیں لیا۔گیبریل گارسیا مارکیز پہلا کو لمبیئن اور لاطینی امریکا کا چوتھا ادیب تھا جس نے ادب کا نوبل انعام حاصل کیا۔عملی زندگی میں اس نے اپنے متنوع تجربات و مشاہدات اور انسانیت کو درپیش حالات وواقعات کو نہایت بے باکی اور تفصیل کے ساتھ حقیقت پسندانہ انداز میں زیبِ قرطاس کیا۔اپنے عہد کے مقبول ترین ادیب کی حیثیت سے اُس کانام تاریخ ِ ادب میں آبِ زر سے لکھا جائے گا۔اُس کے اسلوب میں سپین کے ممتاز ڈراما نگار اور ناول نگار کرونٹس منگول ڈی کے شگفتہ لہجے کی باز گشت سنائی دیتی ہے ۔جس کے ناول (Don Quixto)کو بے پناہ مقبولیت نصیب ہوئی۔یہ ناول اپنے عہد کا سد ا بہار ادب پارہ سمجھا جاتا ہے۔مصنف نے حُسن و رومان کی دلکش داستان کو اپنی گُل افشانیءگفتار سے اس قدر شگفتہ بیانیہ انداز میںنثر کے قالب میں ڈھالا ہے کہ قاری کے دِل کی کلی کِھل اُٹھتی ہے۔ ایک زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار کی حیثیت اُس نے مطالعہ ءادب اور تخلیق ادب ہی کو اپنا نصب العین بنا رکھا تھا ۔روزانہ آٹھ گھنٹے ادب کے لیے مختص کر کے اُس نے تخلیقی عمل کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر نے کی سعی کی۔یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ کرونٹس منگول ڈی کے بعد جو شہرت ،مقبولیت اور پذیرائی گیبریل گارسیا مارکیز کے حصے میں آئی ہے اِس میں اُس کا کوئی شریک و سہیم نہیں ۔ایسے ادیب اپنے ابد آشنا اسلوب کی بنا پر نایاب سمجھے جاتے ہیں اور تاریخ ہر دور میں اُن کے فقید المثال ادبی کام اور عظیم نام کی تعظیم کرتی ہے ۔اُس نے اپنی لائق صد رشک و تحسین ادبی کامرانیوں سے وطن اور اہلِ وطن کو پُوری دنیا میں معزز و مفتخر کر دیا۔ عالمی ادبیات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار وںکے مطابق یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ بیسویں صدی میں جن ناول نگاروںنے مقبولیت ،اہمیت اور افادیت کے اعتبار سے کام یابی کے نئے باب رقم کیے گبریل گارسیا مارکیز اُن میں سے ایک تھا ۔اُس کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے شہرہءآفاق ناول ”One Hundred Years of Solitude“کا دُنیا کی تیس سے زیادہ زبانوں میںترجمہ ہوا۔اس ناول پر مصنف کو چار بین الاقومی ایوارڈز عطا کیے گئے ۔ اُس کو ملنے والے اہم ایوارڈز کی تفصیل درجِ ذیل ہے :
1.Neustadt International Prizefor Literature1972
2.Nobel Prize in Literature 1982
گیبریل گارسیا مارکیز نے نہایت کٹھن حالات میں تخلیقی سفر جاری رکھا۔اس کی زندگی میں کئی سخت مقام آئے لیکن اس نے حوصلے اور اُمید کا دامن تھا م کر منزلوں کی جستجو میں انہماک کا مظاہرہ کیا۔شامِ الم ڈھلی تو درد کی ایسی مسموم ہوا چلی جس نے اُس کے دل میں نمو پانے والی اُمید کی کلی کو جُھلسا دیا ۔وہ اُمیدوں کی فصل کو غارت ہوتے نہیں دیکھ سکتا ور نہ ہی اپنی محنت کا اکارت جانا اسے منظور تھا۔وہ تنہا راتوں کے پچھلے پہر تک مطالعہ اور تخلیقِ ادب میں مصرو ف رہتا اور اپنے ناول ”تنہائی کے ایک سو سال “پر کام جاری رکھتا۔اس ناول کی اشاعت کے ساتھ ہی اُس کے مقدر کا ستارہ چمک اُٹھا۔ 1970میں اس کے ناول(One Hundred Years of Solitude )کا گریگوری رباسا(Gregory Rabassa)نے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ۔اس ترجمے میں تخلیق کی جو چاشنی ہے وہ مترجم کے ذوقِ سلیم کی مظہر ہے ۔اسی وجہ سے اس ترجمے کو گیبریل گارسیا مارکیز نے بہت پسند کیا۔اکثر ناقدین ادب کی رائے ہے کہ یہ انگریزی ترجمہ اپنے دلکش اسلوب اور بے ساختگی کے اعتبار سے اصل سپینش تخلیق سے کسی طرح کم نہیں ۔ اس ناول کو امریکہ میں سال کی بارہ بہترین ادبی تخلیقات میں شامل کیا گیا۔فرانس میں بھی اس ناول کو غیر ملکی زبانوں کے ادب کی بہترین تصنیف قرار دیا گیا۔اٹلی میںاس ناول کو ”Chianciano Aprecia“ ایوارڈ سے نوازا گیا۔اشاعت کے بعد صرف ایک ہفتے میں اِ س ناول کی آٹھ ہزار کا پیاں فروخت ہوئیںجب کہ مجموعی طور پر اس ناول کی تیس ملین کا پیاں فروخت ہوئیں۔ ناول ”تنہائی کے ایک سو سال“ میں ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی کی کیفیت اورطلسمِ ہوش رُبا کی فسوں کاری ادب کے قاری کو مسحور کرکے اُس پر ہیبت طاری کر دیتی ہے ۔تخلیق کار نے طلسماتی اثر آفرینی کو ایسے دلکش انداز میں رو بہ عمل لانے کی سعی کی ہے کہ بیانیہ قاری کے قلب اور روح کی گہرائیوں میں اُتر جاتا ہے ۔طلسماتی کیفیات کی یہ فضاکئی کرداروں کو سامنے لاتی ہے جن میں رمّال ،نجومی ،ستارہ شناس ،فال نکالنے والے ،قسمت کا حال بتانے والے ا ور مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کرنے والے اہم کردار بہت نمایاں ہیں ۔ اُس کا ناول ”تنہائی کے ایک سو سال“ ایک خاندان بوندیاکی اجتماعی زندگی کے نشیب و فراز کے گرد گھو متا ہے ۔ ایک نسل کا دوسری نسل کے ساتھ تعلق اور اُن کے مابین پائے جانے والے فکری فاصلے قابلِ توجہ ہیں۔ستارے جو کہ خود فراخیِ افلاک میں خوار و زبوں ہیں اُنھیں انسانی تقدیر کے ساتھ وابستہ سمجھنے کے حیران کُن واقعات سامنے آتے ہیں یہاں طلسمِ ہوش رُبا کی جو صد رنگ کیفیت جلوہ گر ہے اُسے دیکھ کر قاری ششدر رہ جاتاہے ۔کئی عامل ہیں جو طلسمی عمل کے زیرِ اثر آ جانے والے افراد کے ذریعے نہ ہونے کی ہونی کے کھیل کے بارے میں چونکا دینے والے واقعات کو بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ان تمام محیر العقول واقعات اور مافوق الفطرت حکایات کا تعلق ایک پُر اسرار قصبے ”مکونڈو “سے ہے ۔مکونڈو کسی خاص مقام کا نام ہر گز نہیں بل کہ جس انداز میں اس مقام کے محلِ وقوع اور لوگوں کی بُود و باش کی لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے اُس سے یہ قیاس تقویت پاتاہے کہ یہی وہ قصبہ ہے جہاں گیبریل گارسیا مارکیز کی آنول نال گڑی ہے ۔گیبریل گارسیا مارکیز نے اپنے تخیل کی جو لانیوں سے اس پُر اسرار قصبے کے بارے میں جو سماں باندھا ہے وہ قاری کو ایک ایسی موہوم طلسماتی فضا میں لے جاتا ہے جہاں ہر طرف تنہائی کے باعث ہو کا عالم ہے۔اس شہرِ ناپُرساں میںکوئی کسی کا پُرسانِ حال نہیں ۔اگر یہاں کوئی شخص بیمار پڑ جائے تو اُن کی تیمارداری اور علاج پر توجہ دینے والا کوئی نہیں ہوتا ۔اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ قسمت سے محروم شخص کی موت کی صورت میں بھی کوئی نوحہ خواں نہیں ہوتا جو اپنے جذباتِ حزیں کا اظہار کر کے تزکیہ نفس کی صورت پید ا کرے ۔معاشرتی زندگی میں جب احساسِ زیاں عنقا ہو جائے تو مسلسل شکستِ دل کے باعث وہ بے حسی پیدا ہو جاتی ہے کہ کوئی بھی بچھڑ کے چلا جائے گریہ و زاری کی نوبت ہی نہیں آتی ۔دُنیا کے اکثر ممالک میںدیہی زندگی کے مسائل اسی نوعیت کے ہیں کہ وہاں کا ماحول پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا ہے۔گرد و غُبار سے اٹا ہوا ماحول ، توہم پرستی ،بے عملی، یاسیت ،صحت و صفائی کی غیر اطمینان بخش صُورتِ حال اور مواصلات کی ناکافی سہولیات نے دُور دراز کے قصبات کے مکینوں کو کنویں کے مینڈک کے مانند بنا دیا ہے۔ان لوگوں کی زندگی صرف ایک ڈگر پر چلتی رہتی ہے اور زندگی کے بدلتے ہوئے موسموںسے اُنھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔اُن کی زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ ہی جاتا ہے لیکن وہ جن صبر آزما حالات سے گُزرتے ہیں اُن کے باعث اُن کا پُورا وجود کِرچیوں میں بٹ جاتا ہے ۔جب اُن کی مسافت کٹ جاتی ہے تو سفر کی دُھول ہی اُن کا پیرہن بنتا ہے ۔ جب مصنف کو اپنے آبائی قصبے کے وہ اُداس بام اور کُھلے در یاد آتے ہیں جہاں مایوسی ،محرومی ،بے بسی اور اُداسی بال کھولے آہ و فغاں میں مصروف ہے تو وہ تنہائیوںکی مسموم فضامیں اس موہوم قصبے اور اپنے آبائی گھر کو یاد کرتا ہے تواُس کی ذہنی کیفیت کچھ اس طرح ہوتی ہے :
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کودیکھ کے گھر یاد آیا
گیبریل گارسیا مارکیز نے ہر قسم کے ظلم ،استحصال اور جبر کے خلاف کُھل کر لکھااور کبھی کسی مصلحت کی پروا نہ کی ۔اُس کی حقیقت نگاری بعض اوقات سراغ رسانی کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تجسس سے لبریز اُس کی تحریروں کی مقبولیت بہت زیادہ ہے ۔ اُس کی تصانیف کو دنیا میں بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتب میں شمارکیا جاتا ہے ۔عالمی ادبیات بالخصوص فکشن میں یہ وہ عدیم النظیرکام یابی ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ گبریل گارسیا مارکیز نے ستاروں پر کمند ڈالی ہے ۔اپنے اسلوب میںاُس نے جو طرزِ اد ایجاد کی وہ اوروں سے تقلیداًبھی ممکن نہیں ۔اختر الایمان نے کہا تھا :
کون ستارے چھو سکتا ہے
راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے
گیبریل گارسیامارکیز کو تنہائی کے نوحہ گر اور زندگی کی حقیقی معنویت کے با کمال صورت گر کی حیثیت سے دنیا بھر میں عزت و احترام کا اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ اس کی وفات سے وفا کے سارے ہنگامے ہی عنقا ہو گئے ہیں ۔اس کے زینہ ہستی سے اُترتے ہی ہر طرف ہو کا عالم دکھائی دیتا ہے ۔اب تو فروغِ گلشن و صوت ِ ہزار کا موسم خیال و خواب بن گیا ہے ۔وطن ،اہل وطن اور انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت اس کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جاتا ہے ۔اس نے تخلیق کاروں کو اس جانب متوجہ کیا کہ تیشہ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔اپنے منفرد اسلوب سے اُس نے تخلیقِ ادب اور تنقید کے تمام معائر کو اےسی نئی جہت عطا کی جواقتضائے وقت کے عین مطابق تھی ۔اپنے افکار کی جولانیوں ،بصیرت افروز خیالات اور ذہن و ذکاوت سے اُس نے قارئین ِ ادب کے اذہان کی تطہیر و تنویر کی ،تخلیقی استعداد کو صیقل کیا اور فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کیاکہ قارئینِ ادب ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کی کیفیت سے آشنا ہوتے چلے گئے ۔اس کے فکر پرور خیالات اور دل کش انداز ِ بیان نے جمود کا خاتمہ کر دیا اور فکر و نظر کی کایا پلٹ دی ۔ وہ قطرے میں دجلہ اور جُزو میں کُل کی کیفیت دکھا کر قاری کو اپنی طلسماتی حقیقت نگاری سے حیرت زدہ کر دیتا ہے ۔زندگی کی برق رفتاریوں میں اُس کا اسلوب دما دم رواں رہنے کی نوید سناتا ہے اور حیات ِجاوداں کا راز ستیزمیں نہاں ہونے کے بارے میں حقائق کی گرہ کشائی کرتا ہے ۔ادب کا قاری اس انہماک کے ساتھ اُس کی تخلیقات کا مطالعہ کرتا ہے کہ اُس کا مرحلہ شوق کبھی طے ہی نہیں ہوتا۔آزادیءاظہار ،حریتِ فکر و عمل اور انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کے لیے اُس کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے ۔اس نے جس جامعیت اور ثقاہت کے ساتھ معاشرتی زندگی کے ارتعاشات اور نشیب و فراز بیان کیے ہیںوہ اُس کی انفر ادیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔قومی اور معاشرتی زندگی کے واقعات ،سماجی زندگی کی اقدار و روایات ،انسانیت کو درپیش مسائل و مشکلات اور اقوام ِعالم کے مناقشات و سانحات پر وہ حریتِ ضمیر کا علم بلند رکھتا ہے ۔اس کے اسلوب میں تاریخ کے مسلسل عمل ،تہذیبی و ثقافتی اقدار کے معاملات اور عصری آگہی کے بارے میں ایک واضح اندازِ فکر پایا جاتاہے۔انسان زندگی کی رعنائیوں میں کھو جاتا ہے اور اپنے انجام سے بے خبر ہو جاتاہے۔کارِ جہاں کے بے ثبات ہونے کا یقین ہونے کے باوجود فرصت ِ زندگی کا اسراف ایک بو العجبی کے سوا کچھ بھی تو نہیں ۔آج کے دور کا سانحہ یہ ہے کہ انسان آب و گِل کے کھیل میں اُلجھ کر رہ گیا ہے اور یہ تماشا شب و روز جاری ہے ۔ سسکتی انسانیت کے لرزہ خیز مسائل جامد و ساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں کے رو بہ رو بیان کرنا پڑتے ہیں ۔دیکھنے والے محوِ حیرت ہیں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی ۔گیبریل گارسیا مارکیزنے تخلیق ِ فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی جو سعی کی ہے وہ اُس کے ذہن و ذکاوت اور ذوق سلیم کی دلیل ہے ۔اُس نے کبھی درِ کسریٰ پر صدا نہ کی ،اُسے معلوم تھا کہ ان کھنڈرات میں موجود حنوط شدہ لاشیں درد سے عاری ہیں ۔اپنے منفرد اسلوب میں اُس نے افکار ِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جُستجُو کی جو راہ دِکھائی ہے،اُس سے قاری کے دل میں ایک ولولہ ءتازہ پیدا ہوتا ہے اور وہ بیزار کُن جامد و ساکت ماحول سے گلو خلاصی حاصل کر کے نئے زمانے نئے صبح و شام پیدا کرنے کی دُھن میں مگن ہو جاتا ہے ۔ بے یقینی اور بے عملی کے تارِ عنکبوت ہٹا کر یقین و اعتماد کے ساتھ زندگی گزارنے کا جو انداز اُس کی اسلوب میںنمایاں ہے وہ قارئینِ ادب کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند ہے ۔اپنی تخلیقی تحریروں کے اعجاز سے اُس نے تخلیقِ ادب کے لاشعوری محرکات کو تنوع عطا کیا ،خیالات ،مشاہدات اور تجربات کی نُدرت سے تخلیق ِادب میںدھنک رنگ منظر نامہ سامنے آیا ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اُس کی تحریریں ایک کسوٹی کی حیثیت رکھتی ہیںجس کے معیارپر ہر دور میں ادب پاروں کو پرکھا جاسکے گا۔ مستقبل کے تخلیق کاراس لافانی ادیب کے اسلوب کو پیشِ نظر رکھ کر تخلیقِ ادب میں اپنی سمت کا تعین کریں گے۔
گیبریل گارسیا مارکیز کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے۔اُس کا والد ملازمت کے سلسلے میں کئی شہروں میں مقیم رہا ۔گیبریل گارسیا مارکیز کے دس بھائی تھے ۔1929میں اُس کے والدین نے ترکِ سکونت کی اور گیبریل گارسیا مارکیز کو کم عمری ہی میں اپنے ننھیال پہنچا دیا گیا ۔اپنے ننھیال میں اُسے جو ماحول میسر آیا اس کے اثرات بہت دُور رس ثابت ہوئے ۔اُس کی نانی اپنے کم سِن نواسے کو رات کوسونے سے قبل جو کہانیاں سُناتی وہ مافوق الفطرت عناصر کے بارے میں ہوتی تھیں۔ان کہانیوں میں جِن ،بُھوت ،دیو،آدم خور ،پریاں ،چڑیلیں اور ہوائی مخلوق کے غیر معمولی واقعات کے بیان سے تجسس ،خوف اور دہشت کی فضا پیدا کی جاتی ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بچپن کے یہ واقعات اِس ادیب کے مستقبل کے تخلیقی تجربات کی اساس بن گئے۔ زمانہ طالب علمی ہی سے گیبریل گارسیا مارکیزکو ادب اور صحافت سے گہر ی دلچسپی تھی۔ جب وہ کارٹا گینا یونیورسٹی میں زیر ِ تعلیم تھا تو وہاں کے علمی و ادبی ماحول میںاُس کی خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھار ملا۔اس کے احباب عقیدت سے اُسے ©©”گابو“(Gabo)کے نام سے پُکارتے تھے۔اُس زمانے میں نو عمر گیبریل گارسیا مارکیز کے مزاج میں جو غیر معمولی شرمیلاپن اور بیزارکُن سنجیدگی پائی جاتی تھی اُس کے باعث وہ حُسن و رُومان ہم عمر طلبا و طالبات اور دوستوں کے ساتھ اٹکھیلیوںسے بالکل دُور رہتاتھا۔