Home » قصہ » پہلی ملاقات ۔۔۔۔ مبشر مہدی

پہلی ملاقات ۔۔۔۔ مبشر مہدی

اس نے کوہِ سلیمان کے دامن میں پرورش پائی ۔ یہ پہاڑ تو اپنے اندرPrometheus جیسیarrogance لےے ہوئے ہے۔ تاحدِ نگاہ اس پہاڑ کے دامن میں صحرا تھا جہاں گرمے اُگتے تھے۔ پہاڑ کارنگ انتہائیbrown ہے اور اس کی طرف سفر کرنے والے یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوجاتے تھے کہ جیسے جیسے سورج کا رنگ بدلتا ہے ویسے ہی پہاڑ کا دامن اپنے اندر کئی رنگ لے کر اُبھرتا ہے ۔ شاید اس پہاڑکے اندر وہ سختی تھی جو شاید ہی کسی پہاڑ کا خاصہ ہو۔ جب سورج اس پہ رنگ بکھیرتا تو وہ بھی یعنی کہ سورج بھی اس کی سنگلاخ چٹانوں اور بلندوبالا چوٹیوں کے آگے سرنگوں ہوجاتا اور جب شام کی سنہری کرنیں اس پر بکھرنے لگتیں تو ہارا ہوا سورج کہیں کھو جاتا اور رات اپنا رنگ بکھیر کر چنگھاڑنے لگتی۔

ہمالہ کے بارے میں تو کہتے ہیں کہ وہ روتا ہے تو دریائے سندھ بہتا ہے ۔مگر کوہ سلیمان روتا نہیں چنگھاڑتا ہے ۔ کوہ سلیمان کے رہائشی بھی اسی پہاڑ کی مانند سربلند اور سختی لےے ہوتے ہیں ۔ کوہِ سلیمان شاید ہی سرہو سکا ہو۔ کوہِ سلیمان کی صبح اور رات اپنے اعتبار سے سُندر ہےں۔ صبح جب ہوتی تو اس کی چوٹیاں ایسا دِکھتا ہے کہ رات کے برفیلے پیرہن سے پھر ویسے ہی سخت ہو کے اُبھری ہیں کہ رات پڑنے والی برف بھی اُن پر اپنا اثر نہیں دِکھا سکی اور رات تو پھر اپنا ایسا بانکپن رکھتی ہے کہ اس کے اندر کچھاریں جگمگانے لگتی ہیں اور آتش وآہن کا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔لوگوں کے دلوں میں وہی سختی دَر آتی ہے جو کوہ سلیمان کا خاصہ ہے اور یوں رات ایسا محسوس ہوتی ہے کہ اسے کہیں سے آتش و آہن کا دریا بہائے لےے آرہی ہو اور اس آتش و آہن میں سب کچھ کوہِ سلیمان کا سنگلاخ اور سر بلندغرور لےے دہلاتے ہیں۔

سفر اُسے نجانے کہاں لےے جارہا تھا۔ ہاں شایدیہ بُھر بُھر ی مٹی والے میدان تھے۔ جہاں نرم رو کونپلوں نے سفید اور گندمی سونا بننا تھا۔ ہاتھ لگاتے ہی ان میں تری کا احساس ہوتا تھا۔ یہاں شہروں اور دیہاتوں میں فراواں مخلوق تھی اور یہاں زندگی کی رنگینی کا سارا سامان موجود تھا۔ یہاں جدید دنیا اپنے عروج پر تھی۔ درسگاہیں تعلیمی ادارے تھے اعلیٰ تعلیمی ادار ے تھے ، ہسپتال تھے اور ڈیپارٹمنٹل سٹورز۔

یہ یونیورسٹی کی لائبریر ی ہے ۔ یہاں کتابیں ملتی ہیں۔ اُسے کتابوں سے کیا غرض تھی۔ شاید پہاڑ سے بڑی کتاب کوئی نہ تھی۔ بھئی یہاں چھوٹے چھوٹے دل رکھنے والی ننھی منی سی جل پریاں تھیں۔ وہ اُکتا گیا۔ زندگی یہاں بہت تنگنائے میں تھی جیسے آکر پھنس گئی ہو۔ اُسے شدید تنہائی کا احساس ہوتا اور وہ وسیع صحراﺅں کے بارے میں سوچتا ۔ یہاں کی رنگینی اُسے نہ بھائی۔ طالب علم آپس میں رنگ برنگے کپڑے پہنے مختلف سٹالز پر بیٹھ کر باتیں کرتے اور اُسے زندگی کی یہ روش عجیب لگتی ۔

سفر اُسے ایک بار پھر سنگلا خ صحراﺅں کی طرف لوٹا چکا تھا۔ وہی صحرا جہاں کانٹوں میں ٹھنڈے میٹھے گرمے اُگتے تھے۔ وہ ہی پُر غرور کوہِ سلیمان جہاں سورج کی کرنیں اس کا رنگ بکھیرتی ہیںمگر وہی کوہِ سلیمان جس کا رنگ brownتھا۔

شام کا وقت تھا اور سورج اپنا رنگ کوہ سلیمان پر بکھیر رہا تھا۔ ایسا دکھتا تھا کہ کوہِ سلیمان کا سنی پازیب بجا رہا ہو اور اس کا رنگ بھی کاسنی ہو۔ وہ اس کی ایک وادی میں بیٹھا ران کھا رہا تھا ۔ شاید یہاں کے پر غرور لوگ تو ویسے ہی ہوں مگر آج کوہِ سلیمان کا رنگ اُس کے اندر نرمی بکھیر رہا تھا۔ اُس کے اندر کئی کاسنی اور قوسِ قزح جیسے رنگ اُترنے لگے تھے۔ شاید نجانے کیا ہوا کوہ سلیمان کی سختی شاید اُس کے اندر ہے۔ کوہ سلیمان سے کاریز پھوٹ پڑی ہو۔ اور اُسے یکا یک کچھ یاد آیا کہ اُس کلاس روم میں گندمی رنگت والی اُس لڑکی نے جس کی آنکھوں میں دائرے جیسی چمک تھی جب اُسے دیکھا تھا تو وہ اُس کی شاید پہلی ملاقات تھی۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *