Home » شیرانی رلی » کھدائی میں نکلی ایک سِل پر ملی عبارت ۔۔۔ نسرین انجم بھٹی

کھدائی میں نکلی ایک سِل پر ملی عبارت ۔۔۔ نسرین انجم بھٹی

کھدائی میں جو شہر نکلا تھا

اس میں سب ڈھانچے عورتوں کے تھے

زندگی کی مشقتوں میں مصروف

پھول کاڑھنے، گندم پیسنے او رکوڑے کھانے تک کی حنوط شکلیں

جوں کی توں سب موجود تھیں

یوں لگتا تھا زلزلے کے دوران اس شہر کے مرد کہیں بھاگ گئے تھے

کیونکہ نیلے پر کھڑی ایک صابر عورت

جس نے عورت کا Matamarphosisدیکھا، وہ وہیں جم گئی

ایسی عورت جو عورت راج اور عورت غلام دونوں طرز ہائے حکومت پر یقین نہیں رکھتی ہوگی

یہ عورت مجھے کہاں ملی جہاں میں کبھی نہیں گئی

مگر وہ تو میری ہڈیوں میں منتقل ہوتی رہی ہے

سورج پکنے تک میں اپنی ماں کی بیل سے لٹکی رہی

وہ آہستہ قدم عورت

مجھے سانس کی طرح آہستہ خرامی سے یہاں تک لائی

کہ میں کوڑے پڑنے تک کی اچانک چوٹ کو اسی آہستہ خرامی سے سہہ جاؤں

دھوپ بہت تیز تھی اور سازش بہت گہری

اسی لیے میں انڈر گراؤنڈ ہوگئی

کیونکہ چھپکلیوں اور عورتوں میں خوف اور تحفظ کا رشتہ ہے

ایک بڑی چھپکلی نے ایک خوبصورت مچھلی کا روپ دھارا

اور ایک خوبصورت مچھلی

آدھی عورت بنتے بنتے کسی بدنیتی کی نذر ہوگئی

کسی سازش نے اُسے پوری عورت بن کر جنمنے نہ دیا

میں تو ایک جنم پر بھی یقین نہ رکھتی

اگر یقین رکھنے کے لیے مجھے مٹی سے مٹکے نہ بنانے پڑتے

کسی گہری سازش کا شکار ہوئے شہروں کے ڈھانچے

پھر کن سودا گروں، منافقوں اور بازار گروں کے منتظر ہیں

تجسیم کی تجدید جنموں کا پھیر ہے

رونا اور آنکھیں رکھنا زندگی کی سلامتی کی علامت ہیں

کھدائی میں مٹی ایک سِل کی عبارت

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *