Home » حال حوال » بلوچستان سنڈے پارٹی ۔۔۔ جمیل بزدار

بلوچستان سنڈے پارٹی ۔۔۔ جمیل بزدار

بلوچستان سنڈے پارٹی اپنے شیڈول کے مطابق 3 اکتوبر کو بوقت گیارہ بجے العابد ہوٹل پرنس روڈ کوئٹہ میں منعقد ہوئی۔

بلوچستان کے حالیہ سیاسی اتار چڑھاؤ اور بلوچستان کے غریب عوام کی حالت پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہ محمد مری کہنے لگے کہ لوگ حکومت اور حکومتی پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں۔ان کے مسائل روزبروز بڑھ رہے ہیں۔وہیں ڈیموکریٹ پارٹیاں عوام میں اپنا اعتبار کھو چکی ہیں۔یہ سیاسی پارٹیاں لوگوں کے حقیقی مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں جس کی وجہ سے ایک عام سیاسی ورکر اٹھ کر احتجاج کر تا ہے تو پورا گوادر اس کے حق میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا اٹھنا اور مسائل کے لیے آواز بلند کرنا تاہم قابل غور بات ہے۔

جیند جمالدینی صاحب کہنے لگے کہ مذہبی پارٹیاں اور قومی پارٹیاں دونوں وجود رکھتی ہیں لیکن قومی پارٹیوں کا جڑت عوام سے کٹ چکا ہے اس لیے مذہبی قوتوں کو مضبوط کرنے کا اور ہمسایہ ممالک میں ہونے والی تبدیلی سے ہم آہنگی ظاہر کرنے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔

ڈاکٹر منیر صاحب نے جئیند جمالدینی کی بات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی لوگ پہلے بھی آئے تھے عبدالحق کی صورت میں لیکن ان کی قربانیاں بلوچ قومی تحریک میں آج بھی یاد رکھی جاتی ہیں۔

جیئید جمالدینی کے مطابق جب تک عوامی پارٹی نہیں ہوگی تب تک عوامی طاقت کو ڈفیوز کرنے کے لیے مختلف لوگ سرفیس پر آتے رہیں گے۔ جب تک عوامی پارٹی نہیں ہوگی عوامی طاقت کو ڈفیوز کرنے کے لیے مختلف لوگ سامنے آتے رہیں گے اور مولانا ہدایت الرحمن کی تقاریر میں جماعت اسلامی کے نعرے ڈومینٹ نظر آرہے تھے۔

عطا اللہ بزنجو صاحب کے مطابق سیاسی اتار چڑھاؤ تو سویت یونین ٹوٹنے سے شروع ہوئی اور اس کے بعد سے کوئی عوامی موومنٹ نہیں بن سکی جو حقیقی معنوں میں آگے آکر عوام کی نمائندگی کرتی، تاہم بلوچستان کے عوام کے جذبات آج بھی سردار کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، عطاللہ بزنجو صاحب کی بات پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کہنے لگے کہ گوادر کے معاملے یہ بات فٹ نہیں آتی کیونکہ گوادر میں سردار اُس طرح ایگزسٹ نہیں کرتا۔

وحید زہیر صاحب کے مطابق حالیہ دنوں میں کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات ہوئے اور وہاں فاٹا سے جماعت اسلامی کو جتوایاگیا تو لگتا ہے کہ جماعت اسلا می کو آگے لایا جارہا ہے۔

ڈاکٹر برکت صاحب کہنے لگے کہ سویت یونین کے بعد کوئی بھی ایسی منظم تحریک نہیں ابھری۔ یہ سیاسی اتار چڑھاؤ نہ صرف یہاں بلوچستان میں ہے بلکہ ملک کی دوسری جگہوں میں بھی نوجوان اور عورتیں اٹھ کھڑی ہورہی ہیں جو حق کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں۔

تاہم عوام کے پرابلمز جینون پرابلمز ہیں اور چونکہ کوئی پولیٹیکل پارٹی موجود نہیں اس لیے ایک اکیلا آدمی نکلا اور لو گوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے اس کے پیچھے لبیک کہا۔ تاہم غریب عوام کی حمایت میں جو بھی شخص اٹھ کھڑا ہو ہمیں اس کی کھل کر حمایت کرنی چاہئیے۔

Spread the love

Check Also

سنگت پوہ زانت ۔۔۔ جمیل بزدار

سنگت اکیڈمی آف سائنسزکوئٹہ کی  پوہ زانت نشست 25 ستمبر 2022 کو صبح  گیارہ بجے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *