Home » کتاب پچار » افسانوی مجموعہ ۔۔۔ شبیر فرہاد

افسانوی مجموعہ ۔۔۔ شبیر فرہاد

افسانوی مجموعہ ”جو کہا افسانہ تھا“

مصنفہ۔ عابدہ رحمان

مبصر: شبیر فرہاد

اردو ادب اکیسویں صدی میں قدم رکھنے سے پہلے اصناف دراصناف بہت کچھ کہلوا چکا تھاخاص طور پر فکشن میں۔

مصروفیات کے سبب داستان کا رواج روز بروز ختم ہوتا رہا اور اس کی جگہ ناول نے لے لی جس (ناول) نے پوری زندگی کا احاطہ کرنا شروع کردیا تھا۔ آکر کا رہم بھی صنعتی انقلاب کے زیر اثر آئے اور ناول کے لیے بھی وقت نکالنا مشکل سے مشکل تر بنتا گیا۔

افسانے نے بلوچستان تک آتے آتے کئی ارتقائی مراحل گزارے۔ موضوعات کی فراوانی، ترقی پسندی کا چربہ، جدیدیت کا چوغہ پہنے بلوچستان میں اسے من وعن قبول کر لیا گیا۔ اور مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں نے بھی اس میں طبع آزمائی کی اور اسے بہت خوب صورتی سے برتا۔

عابدہ رحمان بھی انہی افسانہ نگاروں میں سے ایک ہے جس نے افسانے میں طبع آزمائی کر کے افسانے کو یہاں کے مسائل اور جدید موضوعات سے روشناس کروایا۔

افسانوی مجموعہ ”جو کہا افسانہ تھا“ عابدہ رحمان کی ایک بہترین کاوش ہے۔ اس مجموعے میں 117افسانے شامل ہے ۔

ہر افسانہ نیا موضوع،نئی جدت کے ساتھ مسائل کی نشاندہی لیے کھڑا نظر آتا ہے۔

عابدرہ رحمان اپنے افسانوں کے لیے کہانی بھی اصل زندگی سے لیتی ہے جہاں اس دور میں بنی نوع انسان کو طرح طرح کی مشکلات سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے،طرح طرح کی مسائل کے حل کے لیے جنگ لڑنی پڑتی ہیں۔اصل زندگی کبھی ایک ڈگر  پر نہیں چلتی کبھی خوشی تو کبھی غم اور دکھ درد کا تو زندگی سے پرانا ناطہ ہے۔

عابدہ رحمان ایک سنجیدہ لکھاری ہے۔وہ اپنی کہانیوں کا انتخاب اپنے ارد گرد سے کرتی ہے جہاں زندگی لمحہ بہ لمحہ کروٹ لیتی رہتی ہے جہاں ہر موڑ پر ایک کہانی کسی لکھاری کی راہ تکتی رہتی ہے اور دیکھنے والی آنکھ اسے دیکھ لیتی ہے اور اسے قارئین تک پہنچاتی ہے۔ یہی کہانیاں ہی تو زندگی ہے، جہاں بھوک سے تڑپتے بچے، بھیک مانگتے مجبور ولاچار سفید ریش، بم دھماکوں کی زد میں آئے بے گناہ، والدین سے جانوروں جیسا سلوک، پھول جیسی بچیوں کا فرسودہ رسم و رواج کی بھینٹ چڑھنا، وسائل میں مسائل، حقوق سے محرومی۔

غرض ہر طرح کی کہانیاں ہمارے آس پاس موجود ہیں۔ عابدہ رحمان نے ان سے منہ نہیں موڑا بلکہ انہیں کھلے اور حساس دل سے قبول کیا اور قارئین تک پہنچایا۔

عابدہ رحمان سادہ اور سلیس زبان اختیار کرتی ہے جو ہر عمر کے قاری کے لیے عام فہم ہوتی ہے۔ وہ مشکل اور ثقیل الفاظ سے حد درجہ گریز کرتی ہے۔ اس کے افسانوں میں رواں اور شستہ زبان مستعمل نظر آتی ہے جو ان کے افسانوں کو پڑھنے اور سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔

وہ بے جا کہاوتوں اور محاوروں کا استعمال نہیں کرتی۔

اس کے کردار اسی معاشرے کے جیتے جاگتے لوگ ہیں جو اپنی بے کسی وبے بسی پر روتے بھی ہے جنہیں بھوک بھی لگتی ہے ان کے ساتھ انصاف کے نام پر نا انصافی بھی ہوتی ہے ان کے کردار خواب تو دیکھتے ہیں مگر تعبیر سے کتراتے بھی ہیں۔

ان کے کردار پڑھی لکھی ہو کر اس جدید دور میں کسی فرسودہ رسم اور نام نہاد غیرت کی بھینٹ بھی چڑھ جاتی ہیں۔

ان کے کردار چوں کہ زیادہ تر نسوانی ہوتے ہیں اس لیے ایک عورت ہونے کے ناطے وہ عورتوں کی مزاج سے آگاہ اور ان کی نفسیات سے خوب واقفیت رکھتی ہے۔

ایسا نہیں کہ وہ عورتوں کو کردار بنا کر ان کے مسائل کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ وہ انہیں ان مسائل سے نبرد آزما ہو کر ان کے حل کے لیے ایک طرح کی تبلیغ بھی کرتی ہے۔

یہاں کی عورتیں پڑھی لکھی ہو کر بھی ثانوی درجہ رکھتی ہیں۔آج بھی اس کی حیثیت بیٹے سے کم مانی جاتی ہے آج بھی لڑکی کی پیدائش پر ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے اور کبھی کبھار عورت کو ایک عورت جنم دینے پر طلاق کا سامنا بھی کرناپڑتا ہے۔

افسانے حاجی ابن حاجی، میں،زاہدہ، کا کردار ضمیر جھنجوڑنے والا کردار ہے زاہدہ جو جوان ہے وہ عمر جو خوب دیکھنے اور کھیلنے کو دنے کی ہوتی ہے بے بس زاہدہ اس چھوٹی سی عمر میں ایک ساٹھ سالہ بڈھے کو بیاہی دی جاتی ہے اور اس کے خواب ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں۔

 

آج بھی زاہدہ جیسی بچیاں کبھی پیسے تو کبھی دوستی کی نذر ہوکر پچاس سے ساٹھ سالہ بڈھوں کی سپرد کی جاتی ہیں یعنی انہیں جیتے جی درگور کیا جاتا ہے۔

اسی طرح افسانہ ”ساتواں نمبر“ میں گلدستہ  کا کردار بھی اس دورِ جدید میں پرانے رسم و رواج پر پرانی ذہنیت رکھنے والے لوگوں کے منہ پر تمانچہ ہے۔ گلدستہ جو اپنے بھائی کے غیرت کی نذر ہوجاتی ہے اور چھوٹی سی عمر میں ہی خون بہا میں دی جاتی ہے۔اس طرح کے  کردار آج بھی ہمارے معاشرے میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔

زیادہ تر افسانے ”بیانیہ“ انداز میں بیان ہوئے ہیں لیکن جہاں کئی کردار آپس میں گفتگو کرتے نظر آتے ہیں تو قاری پر ایک سحر سا طاری کردیتے ہیں جو مصنف کی مکالمہ نگاری کی بہترین مثال ہے۔

کرداروں کے مکالمے ان کی عمر، سوچ و فکر، مزاج اور نفسیات کو ظاہر کرتی ہیں۔

افسانہ ”ماہی ء بے آب“ میں، امیر بخش، اور استاد غفور کا آپسی مکالمہ اِن کے مزاج اور نفسیات سے بہت خوب صورت سے آگاہی دلاتی ہیں۔

افسانہ ”مکڑی کا جالا“ میں جہانزیب اور نوجوان کے مابین مکالمہ انسانی تاثرات کو جس خوب صورت سے بیان کرتا ہے وہ مکالمہ نگاری کی بے نظیر مثال ہیں۔

اگر ایک افسانے کو ایک عمدہ کہانی، ایک باکمال کردار، رواں وشستہ زبان، اور سحر انگیز مکالمے خوب صورت بناتے ہیں تو اس خوب صورتی میں ”منظر کشی کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ بلکہ منظر کشی کی موجودگی اس (خوب صورتی) میں چار چاند لگادیتی ہے۔

عابدہ رحمان الفاظ سے منظر کشی کرنے میں ماہر نظر آتی ہے وہ قاری کو الفاظ کی مدد سے تجسسانہ طور پر افسانے کے منظر میں لاکھڑا کردیتی ہے جہاں قاری کو اپنا آپ موجود نظر آتا ہے اور کردار کے مسائل اسے اپنے مسائل نظر آتے ہیں، کردار کی غربت، بھوک وننگ اسے اپنی غربت اور بھوک و ننگ لگتی ہے غرض قاری منظر میں پوری طرح سما جاتا ہے۔

افسانے ”دومکڑی کا جالا، حاجی ابن حاجی، اور، کانچ کی گڑیا، منظر کشی کے حوالے سے بہترین تخلیقات ہیں۔

جہاں مصنفہ نے کم لیکن بہترین منظر نگاری کامظاہرہ کیا ہے۔

افسانوی مجموعہ ”جو کہا افسانہ تھا“ فنی اور فکری اعتبار سے ایک عمدہ اور بہترین تخلیق ہے جو ادب برائے زندگی کے نظریئے سے معمور ہیں۔

ترقی پسندی کے زیر اثر جو موضوعات سامنے آئے اور وہ موضوعات جو اس ماحول کی پیداوار ہیں جو یہاں کی مسائل کو اجاگر کرتی ہیں وہ تمام موضوعات مجموعے میں بکثرت شامل ہیں۔

بلوچستان کے ارد گرد کے دیہی اور شہری مسائل بھی اس مجموعے کی موضوعات بنی ہیں جوکہ مصنفہ کی وسیع النظر ہونے کی دلیل ہے۔

ہم دعا گو ہیں کہ عابدہ رحمان یوں ہی بلوچستان میں ادبی فروغ کے لیے ایک مجتہد لکھاری کی طرح کام کرتی رہے اور قارئین کے دلوں میں اپنی شناخت بڑھاتی رہے۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *