آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہرِ امروز میں شیرینیِ فردا بھردے
وہ جنہیں تاب گراں باریِ ایام نہیں
اُن کی پلکوں پہ شب وروز کو ہلکا کردے
جن کی آنکھوں کو رُخِ صبح کا یارا بھی نہیں
اُن کی راتوں میں کوئی شمع منور کردے
جن کی قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں
اُن کی نظروں پہ کوئی راہ اُجاگر کردے
جن کا دیں پیرویِ کذب وریاہے اُن کو
ہمتِ کفر ملے، جرات تحقیق ملے
جن کے سرمنتظر تیغِ جفا ہیں اُن کو
دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
عشق کا سرِنہاں جانِ تپاں ہے جس سے
آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے
حرف حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے