Home » شیرانی رلی » بانجھ بنجھوٹی ۔۔۔ انجیل صحیفہ

بانجھ بنجھوٹی ۔۔۔ انجیل صحیفہ

میں نے  کثرت سے آنکھوں کی بینائی خوابوں پہ خرچی ہے سو

آنکھ اب کوئی منظر بھی تکنے کے قابل نہیں

دل نے آنکھوں کی باقی بچی روشنائی سے خوابوں کاسودا کیا ہے

جو روز ازل سے سفیدی کی رہ تک رہی ہیں

وہ وحشت بھری ساری بے خواب آنکھیں

کہاں پر کھلی تھیں

یہ اسرار تم پر کہاں کھل سکے گا

وہ کیسا شکستہ سیہ خواب تھا

جس نے اس کار ہستی کو ٹھہرا دیا ہے

زمیں اپنی گردش سے ہٹ کر

اچانک ہی سورج سے ٹکرا گئی ہے

بدن جل گیا ہے۔۔۔۔!۔

سوائے دو آنکھوں کے اب کچھ بھی باقی نہیں ہے

یہ لاشیں جو آنکھوں میں گلتی چلی جارہی ہیں

وہ اسقاط ہیں جن کی شکلیں بنی ہی نہیں ہیں

جہاں خواب بنتے ہیں اور ٹوٹتے ہیں وہ دل بھی کہاں ہے۔۔۔۔!۔

 

یہ تم ہو، جو آنکھوں کو ہر روز نوخیز خوابوں بھری طشتری سونپتے ہو

تمہیں اب تلک اپنے خوابوں پہ قدرت ہے تو

تم مجھے میری محرومیوں پر ملامت کئے جارہے ہو

تمہیں میری آنکھوں میں خوابوں کی چبھتی ہوئی کرچیوں کا پتہ تک نہیں ہے

یہ کار اذیت جسے تم نے خواب محبت کہا ہے

نہیں دیکھتی ہوں

میں دنیا کی رنگینیوں میں ابھی اپنی تشنہ لبی سے پریشاں نہیں ہوں

مجھے اپنی تکمیل کے باقی رہ جانے پر بھی تاسف نہیں ہے

مگر تم دوبارہ مجھے

میری آنکھوں کی اجڑی ہوئی کوکھ میں

کوئی سپنا نہ ہونے کا طعنہ نہ دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!۔

 

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *