Home » پوھوزانت » امید ۔۔۔ شان گل

امید ۔۔۔ شان گل

لینن کی اندرونی جلا وطنی پوری

 

۔9جنوری 1900تک لینن کو کم از کم اتنابتادیا گیا تھا کہ وہ سائبیریا چھوڑ رہا ہے (1)۔

حالانکہ پولیس افسران نے اپنے اعلیٰ حکام کو ایک خفیہ رپورٹ میں لکھا تھا:”اس وقت انقلاب میں لینن سے بڑی ہستی اور کوئی نہیں ہے“۔ انہوں نے اپنے افسروں کو لینن کے قتل کا مشورہ بھی دیا۔بہر حال لینن اس مشورے اور مستقبل میں قتل کی کئی سازشوں اور کوششوں سے بچا رہا۔

لینن کی تین سالہ داخلی جلاوطنی کی مدت فروری1900میں ختم ہوئی تو لینن کروپسکا یا اوراس کی ماں کے ساتھ شُو شینسکوئی نامی گاؤں سے روانہ ہوا۔ چونکہ اُس کی محبوبہ بیوی کی جلاوطنی کا عرصہ ابھی باقی تھا۔ اور اسے اپنے دوست کی غیر موجودگی میں یہ جلاوطنی تنہا ”اوفا“ نامی قصبہ میں کاٹنی تھی۔

اُن کے سفر کاپہلا مرحلہ تو 320کلومیٹر کاتھا جو گھوڑوں پر کرنا تھا۔ وہ لوگ برف میں ڈھکے سائبیریا میں سے اَچِنسک ریلوے سٹیشن کے لیے روانہ ہوئے جہاں سے انہوں نے ”اوفا“ کے لیے ٹرین پکڑنی تھی (2)۔چاندنی راتیں تھیں اس لیے وہ بارہ سنگھے کے چمڑے والی پوستینیں اوڑھے رات دن سفر کرتے رہے۔ کروپسکایا کی بوڑھی ماں نے بھی یہ ساری مشقت جھیل لی۔

یوں، وہ 18فروری کو”اوفا“ نامی قصبے پہنچے ۔وہیں کروپسکایا نے اپنی  بقیہ جلاوطنی کا سال گزارنا تھا۔(3)۔ وہ دو دن یہاں اکٹھے رہے۔ وہ وہاں جلاوطن دیگر انقلابیوں سے ملتے رہے۔ اُن لوگوں سے ملاقات میں لینن نے جو چیز محسوس کی وہ اس نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ”کیا کیا جائے“ کے آخر میں یوں لکھا:

”ان میں سے کئی لوگوں نے اپنی انقلابی سوچ کو”نورودنیا وولیا“سے وابستہ کرنا شروع کیا۔ تقریباً سب نے اپنی اولین جوانی میں دہشت پسند ہیروؤں کی دل سے عبادت کی تھی۔ان ہیروئی روایتوں کے تاثرات کی قید سے چھٹکارے کیلئے جدوجہد چاہیے تھی، اور ساتھ میں ایسے لوگوں سے شخصی تعلقات توڑنے پڑے جو نروودنیا وولیا سے وفادار رہنے میں پکے تھے اور جن سے نوجوان سوشل ڈیموکریٹ بہت محبت کرتے تھے“۔ بقول کروپسکایا“یہ ٹکڑا ولادیمیر ایلیچ کی اپنی سوانح عمری ہے (4)۔

لینن نے پہلے تو یہ کوشش کی کہ کروپسکایا کی بقیہ جلاوطنی پیٹرسبرگ کے جنوب مغرب میں ذرا سے فاصلے پر موجود پسکوف نامی جگہ میں گزارنے دی جائے۔ وہ بھی اپنا عارضی ہیڈ کوارٹر وہیں قائم کرنا چاہتا تھا۔مگر اس کی یہ درخواست مسترد ہوئی۔ پھر اس نے درخواست دی کہ اسے ڈیڑھ ماہ کروپسکایا کے ساتھ رہنے دیا جائے۔ وہ درخواست بھی مسترد ہوئی۔

چنانچہ لینن اُس کے  اور اپنی ساس کے ساتھ کچھ دن وہاں رکا اور انتظامات میں کروپسکایاکا ہاتھ بٹاتارہا۔پھر وہ وہاں سے روانہ ہوگیا۔

مگر،اُسے بڑے شہروں میں رہنے کی اجازت نہ تھی  اس لیے وہ شمال مغربی روس میں پسکوف میں رہائش پذیر ہوا اور ایک معمولی سرکاری نوکری سے گزر اوقات کرنے لگا۔ وقفے وقفے میں وہ غیر قانونی طورپر ماسکو اور پیٹر سبرگ جاتا رہا اور پارٹی کی باقیات سے ملاقاتیں کرنے لگا۔

ایسا کرتے ہوئے وہ گرفتار بھی ہوا اور دس دن جیل بھی کاٹی۔ نگرانی اور تفتیش تو روز مرہ کے معمول تھے۔ اُسے کسی طرح روس سے باہر نکل کر کچھ کر سکنے کا متبادل نظر آیا۔

کروپسکایا کواپریل 1901تک ”اوفا“ میں ہی جلاوطنی گزارنی تھی۔ گوکہ یہ بہت ہی بے روح اور بدمزہ مہینے تھے مگر اس انقلابی نے خود کو خوب مصروف رکھا۔ وہ ایک امیر آدمی کے بچے پڑھانے لگ گئی۔۔۔ اور یہی بچے پڑھانا بعد کی زندگی میں اس کی خصوصی دلچسپی کا شعبہ بن گیا۔

وہ بچے پڑھانے کے ساتھ ساتھ جرمن، فرنچ اور پولش زبانیں  سیکھنے والے اپنے کام میں بھی محنت سے جڑی رہی۔ اسی طرح اس نے انڈر گراؤنڈ پارٹی کے رابطوں کو مضبوط کرنے کا کام جاری رکھا۔

اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سائبیریا اور وہاں جلاوطنی سہنے کے لیے کس قدر اخلاقی اور جسمانی مضبوطی چاہیے ہوتی ہے۔ اور بقول ہمارے مشرقی زبانوں کے یہ ”عورت ذات“ تن تنہا نہ صرف اس عذاب کو برداشت کرتی ہے بلکہ انقلابی جنگ میں اپنا مقام بھی ہمیشہ کی طرح برقرار رکھتی ہے۔۔

 

حوالہ جات

۔ رابرٹ سروس۔ لینن سوانح عمری۔ صفحہ 125۔

۔ولادیمیر ایلیچ لینن، لائف زینڈورک۔ 1975۔ نووسٹی پریس ایجنسی، ماسکو۔ صفحہ30۔

ولسن۔ صفحہ  382

۔۔کروپسکایاRemininscences of Lenin

 

لینن کی بیرونِ ملک جلا وطنی

سائبیریا سے نکل کر لینن نے بیرونِ ملک جانے کی اجازت مانگی۔ سرکار خدا سے مانگتی تھی کہ یہ مصیبت ٹل جائے۔ اسے جانے کی اجازت مل گئی اور وہ 16جولائی1900 کو بیرون ملک روانہ ہوا۔

لینن نے روس چھوڑا تو اُس نے خود کو پارٹی تنظیم ”پیدا کرنے“کے کام پہ وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ لینن کا خیال تھا کہ وہ سوئٹزر لینڈ جائے گااور پلیخا نوف سے مل کر سارے جلا وطن روسی مارکسسٹوں کو اکٹھا کرے گا اور وہاں ایک غیر قانونی اخبار جاری کرے گا۔جو روس بھر میں پہنچ سکے۔

اس کا ارادہ تھا کہ وہ پلیخانوف، ایکسلراڈ، زاسو لچ، مارتوف اور پٹری سوف کے ہمراہ ”اسکرا“ کو ایک قومی اخبار کے بطور چھاپے گا اور اسے روس کے اندر غیر قانونی طور پر بانٹنے کے انتظامات کرے گا۔

لینن جرمنی چلا گیا۔وہاں باہر لینن نے کروپسکایا کے لکھے کتابچے”وومین ورکر“ کا مسودہ ویرا ایوانوونا زاسولچ کو دکھایا۔ اُس کہنہ مشق انقلابی نے کہا:”کتابچے میں کچھ غلطیاں ہیں مگر مصنفہ نے بیل کو سینگوں سے پکڑ لیا ہے“۔یوں اس نے اسے چھاپنے کی سفارش کی۔”اسکرا“نے یہ کتابچہ چھاپ دیا۔

”وومین ورکر“ 1905کے انقلاب کے کچلنے کے بعد پابندی لگنے سے پہلے1901میں شائع اور سرکولیٹ ہوئی۔ (بعد میں یہ کتابچہ مصنفہ کی طرف سے ایک نئے پیش لفظ کے ساتھ 1925میں دوبارہ چھپی)۔

اس کی کتابچے کی اہمیت یہ ہے کہ روس کے اندر عورت کی حالت پہ یہ اولین مارکسسٹ تحریر تھی۔ کروپسکایا نے زار بادشاہت کے تحت عورت کے حقوق کی کمی کی وجوہات پر بہت گہرائی سے تجزیہ کیا۔ وہ عورتوں کو ایک بہتر زندگانی کے لیے،مساوی حیثیت سے اور مرد مزدوروں کے ساتھ ساتھ چلنے کے لیے لڑاکو صفوں میں شامل ہونے کے لیے کہتی ہے۔اُس نے لکھا کہ ”عورت مزدور، مزدور طبقے کی ایک ممبر ہے“۔اور اُس کے سارے مفادات اُس طبقے کے ساتھ مضبوطی سے بندھے ہیں“۔

کروپسکایا‘خاندان کے اندر کسان عورتوں کی کیفیت کو وضاحت سے بیان کرتی ہے۔ اُس کی بے اختیاری کو اور خاوند پر اس کی مکمل انحصاری ومتحاجی کو:”عورت کو گھر لایا جاتا ہے‘ اسی لیے عورت کو اس قدر کم درجہ دیا جاتا ہے، اور اسی لیے کسان رواج کے مطابق عورت کو ایک جائیداد کے بطور دیکھا جاتا ہے، جسے محض کام کی اُس کی استطاعت کی وجہ سے قدر دی جاتی ہے“۔

بہرحال، لینن تیس برس کی فہمیدہ عمر میں جلا وطنی میں چلا گیا۔ گو کہ وہ قانونی پاسپورٹ پر باہر گیا مگر میونخ میں اس نے جعلی پاسپورٹ کے تحت رہنے کافیصلہ کر لیا۔ وہ نقلی ناموں سے رہتا رہا۔کہتے ہیں کہ اس نے اپنے کم سے کم  150جعلی نام رکھے اور ان کے ساتھ خفیہ رہ کر کام کرتا رہا۔ اِن ناموں میں میئر اور رِختر شامل تھے۔ جنوری 1901میں اس نے ٹولین اور ایلیچ کی جگہ پر لینن کا نام استعمال کرنا شروع کیا۔ بہر حال نقلی ناموں، نقلی ایڈر یسوں، نقلی پاسپورٹوں اور نقلی شہریتوں (جن میں جرمن اور بلغاریائی شامل تھے) سے وہ انقلابی کام کرتا رہا۔وہ خطوط اور سوٹ کیسوں میں غیر قانونی لٹریچر روس بھیجتارہا۔

یہ اُس کی جلا وطنیوں کی پہلی قسط تھی۔ اوریہ پہلی قسط پانچ برس کے دورانیے کی تھی۔ کیکر کے تلخ، لانبے اورنو کیلے کانٹوں بھراراستہ ہوتا ہے انقلاب کا راستہ!!۔صرف وہی لوگ انقلاب کے راستے پر ثابت قدمی سے چل سکتے ہیں جو جامع اورمتین فکر کو مضبوط قوتِ ارادی اور متحرک توانائی سے جوڑے رکھیں۔ جس سرگرمی کودہائیوں تک غیر قانونی بنادیا گیا ہو،وہ خصوصی لوگوں کی سرگرمی ہوسکتی ہے،ایرے غیروں کا کام نہیں‘ نہ ہی یہ فریادیں کرنے والے شتر بچوں کا میدان ہوتا ہے۔ یہاں تو جو کچھ بھی بے لوچ اور بے قابو ہوتا اُسے آمریت کا ہیبت ناک اور بہت بڑا ہتھوڑا کچل دیتا۔ اور بادشاہت کا یہ بہت بڑا ہتھوڑا  تو ناقابلِ شکست کیریکٹر کے لوگ ہی سہہ سکتے تھے۔

اسکرا کا پہلا شمارہ روس کے باہر ہی دسمبر1900میں شائع ہوا۔ سرورق پر یہ الفاظ لکھے تھے:“چنگاری سے شعلے بھڑکیں گے“۔ پہلے ہی شمارے میں لینن کا مضمون تھا: ”ہماری تحریک کے فوری کام“۔ اس میں اُس نے لکھا: ہمارے سامنے دشمن کے قلعے کا مضبوط ٹاور ہے جو ہم پہ گولیاں اور گولے برسا رہا ہے۔ اور ہمارے بہترین فائٹرز کو کم کررہا ہے۔ ہمیں یہ قلعہ قبضہ کرنا ہے، اور ہم اس پہ قبضہ کریں گے، اگر ہم جاگے ہوئے پرولتاریہ کی ساری قوتوں کو روسی انقلابیوں کی ساری قوتوں کے ساتھ ملا کر ایک پارٹی میں جمع کریں جو روس میں موجود سارے اہم اور ایمانداروں کو اپنی طرف کھینچے گی، تب ہی روس میں مزدور انقلابی پیوترالیگزبیف کی پیش گوئی پوری ہوسکے گی: لاکھوں مزدوروں کا مضبوط بازو اٹھے گا اور فوجیوں کی سنگینوں کی حفاظت میں کھڑی مطلق العنانی خاک وخاکستر بنادی جائے گی۔ (اسی آخری فقرے کے ساتھ پیوترالیگزی ییف نے عدالت میں مارچ1877میں اپنے مقدمے کے بیان کو ختم کیا تھا۔)

 

کروپسکایا کی سائبیریا سے میونخ جلاوطنی

 

اپریل 1901میں کروپسکایا کی تین سالہ جلاوطنی پوری ہوئی۔وہ وقت ضائع کیے بغیر لینن سے ملنے روانہ ہوئی۔وہ اپنی ماں کو پیٹرسبرگ لے گئی، اس کے لیے وہاں انتظامات کیے اور پھر سرحد پار روانہ ہوگئی۔اس پورے عرصے میں لینن کو ایک بھی دن آرام اور سکھ کا نصیب نہ ہوا تھا۔کروپسکایا اُس وقت بتیس برس کی تھی۔

میاں بیوی انقلاب سے بہت پہلے کم خرچی کے عادی ہوچکے تھے۔ وہ جس شہر بھی گئے حقیر ترین کواٹروں میں رہے۔ عملی طور پر صرف ایک کمرے پر مشتمل”مکان“ میں،جہاں وہ کھاتے تھے،سوتے تھے، پڑھتے تھے اور اپنا انقلابی کام سرانجام دیتے تھے۔ ہم ان کی جلاوطنی کی مصیبتیں کروپسکایا کے اس سفر سے لگا سکتے ہیں جو اُس نے روس سے نکل کر لینن کے پاس جانے کیلئے کیا تھا:

”میں اس خیال سے پراگ چلی گئی کہ لینن وہاں ماڈریسک کے نام سے رہتا ہے۔۔۔ میں نے اُسے تار بھیجا مگر پراگ میں مجھے کوئی نہ ملا۔ میں جتنا دیر انتظارکر سکتی تھی میں نے کیا۔ پھر بڑی شرمندگی میں ایک ٹیکسی کرایہ پر لی، ساری ٹوکریاں اس میں ڈال دیں اورروانہ ہوئی۔ ہم مزدوروں  کے ایک کوارٹر پہنچے اور ایک بڑے مکان پہ رکے۔۔۔۔۔ میں تیزی سے چوتھی منزل تک گئی۔ ایک چھوٹی چیک خاتون نے دروازہ کھولا۔ میں نے کہا:”ماڈراسیک، مسٹر ماڈراسیک“۔ ایک مزدور باہر آیا۔”میں ماڈراسیک ہوں“۔

میں حیرانگی میں تتلائی:”نہیں میرا خاوند“۔ بالآکر ماڈراسیک کی سمجھ میں بات آ گئی۔”ارے آپ یقیناً مسٹررٹیمیئر کی اہلیہ ہوں گی۔ وہ تو میونخ میں رہتے ہیں مگر وہ آپ کو اوفا میں کتابیں اور خطوط میرے توسط سے بھیجتے ہیں“۔۔۔۔۔

میں میونخ پہنچی(1901میں)۔ چونکہ پچھلا تجربہ ہو چکا تھا،اس لیے میں نے اپنا سامان کلاک روم میں رکھا اور ٹرام کے ذریعے  رٹمیئر کی تلاش میں نکلی۔ میں نے  وہ علاقہ  ڈھونڈ نکالا۔ فلیٹ نمبر 1 ایک شراب خانہ نکلا۔میں کاؤنٹر پر موٹے جرمن تک گئی اور بہت جھجکتے  ہوئے مسٹررٹمیئر کے بارے میں پوچھا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ پھر کچھ گڑ بر ہے۔ ” وہ تو میں ہوں“۔ شراب فروش بولا۔ میں تو ہکا بکا رہ گئی۔ میں منمنائی ”نہیں، میرا خاوند“۔ہم دونوں دو احمقوں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ آخر کار رٹمیئر کی بیوی آ گئی اور مجھے دیکھتے ہی کہا  ”آہ، یہ یقیناً مسٹرمیئر کی بیگم ہوگی۔ وہ سائبیریا سے آنے والی اپنی بیوی کا انتظار کررہا ہے۔ میں آپ کو اس تک لے جاتی ہوں“۔ میں بڑی عمارت کے پائنتی میں مسزٹمیر کے پیچھے پیچھے چلی۔ ہم ایک خالی  نظر آنے  والے فلیٹ پہنچے۔ دروازہ کھلا اور وہاں میز کے گرد لینن، مارٹوف اور اینا اپلینیچنا بیٹھے تھے۔ میں اپنی گائیڈ کا شکریہ ادا کرنا بھول گئی اور لینن پر برس پڑی۔ ”جہنم میں جائے سب کچھ، تم مجھے خط نہیں لکھ سکتے تھے کہ تم کہاں پر ہو؟“۔

”میں نے تو لکھا تھا۔ میں تمہارا استقبال کرنے دن میں تین تین بار سٹیشن جاتا رہا ہوں۔۔۔۔“(1)۔

ایک سکالر، مصنف،عوامی مقرر، ایک خفیہ اخبارکا منظم،تاریخ میں عظیم ترین انقلاب کا  نقشہ نویس،ایک نئی قسم کی ریاست کا بانی اور پھر اس ریاست کا کم و بیش سات مشکل ترین برس تک قائد……یہ حیران کن شخص تھا۔

اور یہ خاتون تو اُس سے بھی زیادہ حیران کن انسان تھی۔ وہ پندرہ برس تک یورپ میں جلاوطن رہی۔ مگر وہاں ایک بھی یورپین سہیلی نہیں بنائی۔ مارکس کی بیٹی کے ماسوا نہ وہ کسی سے ملی اور نہ کسی سے پینگیں وسیع کیں۔ وہ صرف روسی جلاوطن مارکسسٹوں ہی سے گہرے رابطے میں رہی۔

 

حوالہ جات

Remim.. of lenin

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *