ذرا سی بات پہ معتوب ہو گئے ہم لوگ
زباں جو کھولی تو مصلوب ہو گئے ہم لوگ
وہ بارگاہِ تمنا، یہ جوشِ رقصِ جنوں
قبائیں چاک ھیں مجذوب ہو گئے ہم لوگ
تمام عمر رہے دوستوں میں ہم بدنام
جو مر گئے تو بہت خوب ہو گئے ہم لوگ
نہ آیا سامنے کوئی جو بر سرِ پیکار
خود اپنے آپ سے مغلوب ھو گئے ہم لوگ
سکوتِ عصر میں برپا ھیں کتنے کرب و بلا
بس ایک نام سے منسوب ہو گئے ہم لوگ