Home » پوھوزانت » شدت پسندی….وحید زہیر

شدت پسندی….وحید زہیر

گرمی کی شدت سے آم پکتے ہیں اور سردی کی شدت سے انارکی پیداوار ہوتی ہے ۔ موسم کی شدت سے فصلوں سمیت بعض امراض کا خاتمہ اور ان کا جنم بھی ہوتا ہے۔ سمندروں میں طوفان بھی برپا ہوتا ہے اسی طرح سمندری حیات میں اضافہ بھی اس کا خاصا ہے۔ الغرض قدرت کے کارخانہِ ہستی میں کوئی بھی معاملہ غرض و غایت سے خالی نہیں۔ علاوہ ازیں تاریخ میں اقوام کے عروج و زوال میں بھی انسانی شدت پسندی کا تذکرہ ملتا ہے ۔ البتہ شدت پسندی معمولی نوعیت کی نہیں ہوتی۔ یہ اور بات ہے اِسے معمولی قسم کے معاملات میں الجھا کر اس کے بامقصد ہونے کو معدوم یا جائے۔ جہاں جہاں ایک بڑے مقصد کے لےے شدت پسندی سے کام لیا گیا تو اس کے نتائج بار آور ثابت ہوئے مگر ملک خداداد پاکستان میں شدت پسندی کو ایک نشہ ای آدمی کی طرح محض تباہی کے لےے استعمال کیا گیا۔ اور پھر یہ تباہی خاندانوں کی بربادی تک ہی منتج نہیں رہا۔ معاشروں کی تباہی کا بھی سبب بنا ۔دیگر ممالک میں جذبات کی شدت پسندی سے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دےے گئے لیکن ہمارے ہاں شدت پسندی سے انتقامی کاروائی ہی سرزد ہوتی رہی ہے ۔ اب تو ہم محبت کی شدت میں اس قدر اندھے ہورہے ہےں کہ ہمارے نام کے ساتھ قاتل اور مقتول کے سوا کوئی اور لفظ فٹ نہیں آتا۔ یہ اور بات ہے کہ وقت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہم غازی اور شہید کے الفاظ گھڑنے کے بعد بظاہر اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں موجودہ حالات میں شدت پسندی کا کمبل ہمیں پورا نہیں پڑ رہا۔ ہمارے دانا ڈیڑھ انچ کی مساجد میں بیٹھ کر جو کھلواڑ کررہے ہےں کیا بتا سکتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتیں اور طاقت کا استعمال کس کے خلاف کررہے ہےں۔ یہاں تو ہر خطا ، گناہ اور ہر اختلاف کا فیصلہ گولی پر ہی کیا جانا حتمی قانون ٹھہر گیا ہے۔ مذہبی اختلافات پر قتل، لسانی درجہ بندی پر کسی کو خون میں نہلانا، علاقائی تفریق پر کسی کو نیست و نابود کرنا یہ کیسی شدت پسندی ہے۔ مہنگائی پر مبنی نا انصافی کے گرداب میںپھنسے ساہوکاروں کی شدت پسندی۔ ایجنٹ کاری پر بازی لے جانے کی شدت پسندی، غداروں کی فہرست کے مرتبیں کی شدت پسندی اور کیا مسلسل منافقت سے کام لینے والوں کو گلے لگانے سے انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ کیا حرام کی کمائی میںملوث افراد محب وطن ہوسکتے ہیں۔ کیا چاپلوسی چرب زبانی اور دھوکہ دہی میں ملوث افراد انسان اور اچھے شہری کہلانے کے مستحق ہیں۔ کم از کم اس کا جواب موجودہ حالات میں ملنے کی ہر گز توقع نہیں۔
غلاظت سے دوستی ذہنی قوت میں شاید اضافے کا باعث ہوگا تب ہی تو صفائی کی بجائے اب گندگی کو نصف ایمان کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ ہماری شدت پسندی شیطانی قوتوں کو سوٹ کرتا ہے۔ اسی راہ پر ہم بھی چل پڑے ہیں۔ پسماندہ ا ور ترقی کے عمل سے محر وم صنف نازک کے لےے تیزاب گردی کو معاشرتی سدھار کے لےے آسان خیال کیا جارہا ہے۔ خدا کا خوف، مہذب معاشروں کے تہذیب یافتہ عوام کے غیض و غضب کو فراموش کردہ یہ کردار ہم میں سے بھلا کیسے ہوسکتے ہیں ۔ ویسے تو نہیں لیکن ان کے خلاف کسی بھی جانب سے آواز بلند نہ کرنے کا مطلب وہ ہم میں سے ہیں اور ان کے جرائم میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔ شاید میں غلط ہوں یا غلط سمجھ بیٹھا ہوں جنہیں میں جرائم کہہ رہا ہوں یہ کمالات ہونگے۔ جتنی قوت اور شدت سے کسی زمانے میں سرحدوں پر لڑی جانے والی جنگ کے لےے کام لیا جاتا تھا اب اتنی ہی طاقت اور شدت ہمسائے سے لڑائی لڑنے کے لےے درکار ہوتی ہے اس کی اصل وجہ اسی قسم کے ہتھیاروں کا گھر میں موجود ہونا ہی ہے ۔ اور اسی قسم کا خوف بھی اس کی بنیادی وجہ ہوسکتی ہے ۔ ہمارے ہاںاقتدار میں بیٹھا ہوا شخص یا پارٹی اپنی باری آنے پر مخالفین کو جس طرح دباتا ہے ۔ یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھنے والے کمزور اعصاب میں مبتلا شخص سے اس کے علاوہ اور توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے ۔ شدت پسندی پر قابو پانے کا واحد طریقہ ادب، ثقافت اور فنون لطیفہ کا فروغ ہے ۔ جس کے لےے عملی سطح بلند کرنا اولین شرط ہے۔ وگرنہ ہم اپنے اپنے معاشروں میں اسی طرح شدت پسندی کی آگ میں جلتے رہیں گے۔ اور ہم پر کسی دشمن ملک کے حملہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اس وقت شدت پسندی کی بنیادی وجہ علم و ادب سے دوری ہے۔ علمی ادبی اداروں کا زوال ہے لہٰذا شدت پسندی پر قابو پانے کے لےے خلوص و نیک نیتی پر مبنی جذبات اوصاف پید اکرنے ہونگے۔ جب تک یہ ہمارے رہنماﺅں کا وصف نہیں ہوگا لوگ اسی طرح مرتے رہیں گے ۔ ذلت کی زندگی ہمارا مقدر ہی رہے گا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *